انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اسٹڈیز اینڈ پریکٹسز(آئی ڈی ایس پی) کہنے کو تو ایک این جی او ہے مگر اس کے ’کرتوت‘کچھ غیر این جی اوآنہ ہیں۔ اس ادارے کے اکثر پروگرام اور سرگرمیاں اُسے معروف معنوں میں این جی او کی صف سے علیحدہ کرتے ہیں۔ یہی وہ نمایاں وصف ہے جو اسے دیگر طبقہ ہائے فکر سے جوڑنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اور اس کی تقریبات میں شرکت سے بندے کو اپنا ایمان خطرے میں محسوس نہیں ہوتا۔ ’سنگت‘ کی آئی ڈی ایس پی سے سنگتی کبھی ہموار تو کبھی نا ہموار صورت میں چلتی رہتی ہے، کہ ایک لکھنے والوں کا ادارہ ہے تو ایک پڑھنے والوں کا۔ اصولاً تو دونوں کا غیر مشروط ،مضبوط و مستقل تعلق ہونا چاہیے، لیکن دونوں کی فکری سطح باہمی تعلق داری میں روڑے اٹکاتی رہتی ہے۔
اسی خلیج کو پاٹنے کے لیے ہر دوادارے اکثر ملتے رہتے ہیں، مل بیٹھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ایسی ہی کوشش اس اگست میں بھی کی گئی ۔یہ حال ہی میں شاہ محمد مری کی شائع شدہ کتاب’’عورتوں کی تحریک‘‘ پہ ہونے والی نشست تھی۔ عورت، این جی اوز والوں کا من پسند موضوع ہے، سو‘ اس موضوع پہ مارکیٹ میں کچھ نیا دستیاب ہو تو ان کے منہ میں پانی آنافطری بات ہے۔ مگر یہ عجب طرز کی این جی او ہے جو اس موضوع پہ بڑی بڑی فنڈنگ اور کسی پنج ستارہ ہوٹل میں عالی شان تقریب کی بجائے اپنے پَلے سے کتابیں خرید کر اپنے ورکرز کو پہنچاتی ہے، نیز اُن سے کہا جاتا ہے کہ وہ اس پر اپنا اظہارِ خیال لکھ کر لائیں، جسے مصنف اور بعض نام ور مصنفین کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ سو‘ یہی نکتہ اس نشست کا بنیادی محرک ٹھہرا۔
اس کے پیچھے خیال یہ کارفرما تھا کہ نوجوان پڑھنے والوں کو لکھنے کا تحرک ملے، نیز سینئر لکھاریوں سے قارئین کے براہِ راست رابطے کی سبیل پیدا کی جائے۔ سو 15اگست کی شام’ سنگت‘کے احباب ارباب کرم خان روڈ کی پیچیدہ راہداریوں میں واقع آئی ڈی ایس پی کے دفتر پہنچے۔’سنگت ‘کے دوستوں میں سے راقم و مصنف سمیت آغا گل، وحید زہیر، سرور خان، کلا خان، اوراکبر نوتیزئی شامل تھے۔ بلوچی اکیڈمی کا پناہ بلوچ، او ر ’راسکوہ ادبی دیوان‘ والا وحید عامر بھی آئے ہوئے تھے۔
دیگر سامعین میں ادارہ ہٰذا کے فعال منتظمین اور مؤدب ورکرز کی خاطر خواہ تعداد موجود تھی، جن میں اکثریت نوجوان لڑکیوں کی تھی، جو سب کی سب یہاں مختلف کورسز کا حصہ ہیں۔ منتظمین میں ایک تو صفدرحسین ہیں؛ ہمہ وقت فعال اور کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی تگ و دو میں مصروف۔ اردو کے محاورے میں جنھیں ’نچلا بیٹھنا‘نہیں آتا۔ اور دوسری اس کی کرتا دھرتا کمال جان ہیں‘ جو اِن دنوں اس ادارے کی بھی کرتا دھرتا ہیں۔ مستونگ کی اس نوجوان خاتون کی ہمت و صلاحیت کا بس اتنا تعارف کافی ہے کہ وہ اسی ادارے سے پڑھ کر عام ورکر سے اس کے اہم ترین عہدے تک پہنچی ہے۔
والہانہ خوش آمدید کے بعد نشست کا آغاز ہوا، نہایت غیر روایتی انداز میں۔۔۔بلوچی فوک میوزک سے۔ ایک مری نوجوان نے مخصوص بلوچی دُھن سروز سے آغاز کیا۔ بھئی آغاز ایسا شان دار ہو تو ہر کام کاکامیاب ہونا،بہ خیر انجام پانا تو یقینی ہے۔ حفصہ نامی لڑکی نے نہایت اعتماد سے سب کو وش آتکے کہا، اور پھر ان بچیوں کو دعوت دی جنھوں نے مذکورہ کتاب پڑھی اور اس سے کچھ اخذ کیا۔
رضیہ کریم نے کتاب پہ کم اور عورتوں کی مجموعی جدوجہد پہ زیادہ بولا، اور خاصی تفصیل سے بولا۔خالدہ رسول نے مختصر بات کی، مگراچھی بات کی۔ ثمینہ صابرنے طویل افسانوی نثر میں اپنا مضمون پڑھا۔ اس کے بعض جملوں پہ سینئر لکھاری بھی عش عش کر اٹھے، اور واہ ،واہ کے مشاعرانہ انداز میں داد دیتے رہے۔مسرت ماہ جبین نے بھی نہایت مدلل انداز میں اپنا لکھا ہوا مضمون نہایت سلیقے سے پڑھا۔جبار خان واحد مرد نوجوان تھا، اس لیے اس نے اپنے تبصرے میں ’مردانہ کیس’ بھی پیش کیا۔
’سنگت ‘کی جانب سے وحید زہیرنے کتاب پہ ایک تفصیلی تجزیہ نما، تبصرہ پیش کیا۔ وحید زہیر بولیں، اور تالیاں نہ ہوں ‘ ایسے ہے جیسے چلتن پہ بادل آئیں اور بن برسے چلے جائیں۔ ان بادلوں نے تو برسنا تھا، خوب برسے۔ تالیوں کی برسات تھی، چھم چھم برستی رہی۔ ’مکرر‘ کی اصطلاح صرف مشاعروں کے لیے مخصوص ہوا کرتی تھی، وحید زہیر نے اپنی شاعرانہ نثر سے اسے نثری مجلس میں بھی رائج کروا ڈالا۔۔۔کتنے فقرے تھے جو حسبِ معمول عوام کی پرزور فرمائش پر ان سے مکرر سنے گئے۔
صدارت ’سنگت‘ کے سینئر ممبر معروف لکھاری آغا گل کے ذمے تھی۔ انھوں نے اپنے صدارتی کلمات میں اپنے مخصوص انداز میں نہایت بے باکانہ گفت گو کی۔ نوجوان لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کی۔ شاہ محمد مری کی ہمت اور حوصلے کی داد دی۔ ادب، قلم اور کتاب کے موضوع پہ تاریخی پس منظر میں تفصیل سے بولے، جو نئے پڑھنے والوں کے لیے یقیناًخاصے کی چیز تھی۔
دوسرے حصے میں مصنف سے براہِ راست مکالمہ شامل تھا۔ سو‘ شاہ محمد مری کو قارئین کے کٹہرے میں لایا گیا۔ سہمے سہمے سامعین و قارئین میں سے کسی بچی نے ہمت کر کے پہلا سوال داغا کہ آپ لوگ اتنی کتابیں لکھتے ہیں، پھر بھی ان کا اثر کیوں نظر نہیں آتا؟۔۔۔مصنف سٹپٹایا۔۔۔ ذرا سنبھلا ۔۔۔اور پھر بات کو کچھ یوں سنبھالا؛’’دیکھئے، آغا گل نے ٹھیک کہا کہ کتاب خود کوئی انقلا ب نہیں لاتی، نہ یہ کسی انقلاب کا پیش خیمہ بنتی ہے، یہ تو آپ کی پہلے سے جاری جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالتی ہے بس۔ آپ پہلے سے غم زدہ ہیں، یہ اس غم کو مزید بڑھاوا دیتی ہے، تھوڑی سی مرہم پٹی کرتی ہے،حوصلہ بڑھاتی ہے۔ جدوجہد آپ پہلے ہی کر رہے ہوتے ہیں ، یہ آپ کی اس جاری جدوجہد میں ذرا سا ایندھن ڈال دیتی ہے۔ تو کتاب سے یہ توقع تو ہونی ہی نہیں چاہیے کہ آج کتاب چھپی تو کل کوئی انقلاب آ جائے گا۔ یہ کتاب بھی بس ایسے ہی آپ کے ساتھ رہے گی، تھوڑا تھوڑا آپ کو جگانے کی کوشش کرے گی۔ کوئی دس ،بیس برس بعد جا کر شاید اس کا کوئی اثر نظر آئے، اور وہ بھی ضروری نہیں کہ لازماً ایسا ہو۔‘‘
پھر کوئی آگے نہ آیا تو ان کی قائد کمال جان ہی آگے بڑھیں، ان کا تبصرہ نما سوال یہ تھا کہ جو لوگ عورتوں کے حقوق پہ بولتے اور لکھتے ہیں، عام طور اپنے گھروں اور اردگرد اُن کا رویہ بھی عام مردوں جیسا ہی ہوتا ہے۔ مصنف نے اس تلخ حقیقت کو یوں بیان کیا :’’یہ درست ہے، مگر اس کے پیچھے ایک پورا سماجی رویہ موجود ہے ، جس کی جڑیں صدیوں میں پیوست ہیں، اس لیے یہ آج کل میں ختم ہونے والا معاملہ نہیں‘‘۔ اس نے مزید کہا:
’’دیکھیں، جب آپ کے نزدیک لکھنا محض برائے لکھنا نہیں بلکہ تربیت کا ایک وسیلہ بھی ہو تو پھر آپ کو محتاط انداز اختیار کرنا پڑتا ہے۔ طریقے طریقے سے اپنی بات کہنی ہوتی ہے، جو دل آزادی کا باعث بھی نہ بنے اور ذرا سی تبدیلی بھی اگر کہیں لے آئے تو بس کامیاب ہے۔۔۔اور اس کتاب کو اتنی بچیوں نے پڑھا، آپ دو لوگوں نے اس سے کوئی دو باتیں اخذ کیں، یہ مزید دو لوگوں تک پہنچیں گی، بس یہ کافی ہے، اس سے زیادہ کا لالچ بھی نہیں کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔‘‘
مزید کسی سوال کا سامنا نہ کرنے کی غرض سے مصنف نے از خود’خواتین و حضرات آپ کا شکریہ‘ کہہ کر اپنی نشست پکڑ لی۔
سب کا شکریہ ادا کیا گیا، سب کی خوب تواضع کی کی گئی،مزے دار چاٹ‘ ذائقے دار کیک اور گرم گرم چائے کے ساتھ ۔
اور ہاں ، یہ تو بتایا ہی نہیں کہ بلوچی فوک میوزک اس دوران بیچ بیچ میں اور آخر تک محفل کا حصہ رہا۔ اس منفرد اور خصوصی عمل نے سادہ سی اس تقریب کو چار چاند لگائے رکھے۔
سو سبھی،سبھی معنوں میں سیر ہو کر لوٹے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے