افلا طون (۳۴۷ ق م ۔۴۲۷ق م) نے اپنی شہر ہ آ فا ق کتا ب ’’رپبلک ‘‘ میں خیر یعنی VIRTUE کو مو ضو ع خاص قر ار دیا ہے اور مختلف زاویو ں اور نقطہ ہا ئے نظر سے اس مو ضو ع کو زیر بحث لا یا گیا ہے ۔ اُنھو ں نے اپنے مثا لی معا شرے یا ریا ست (UTOPIA) کی اسا س اپنے نظر یہ خیر پر استو ار کی ہے ، یعنی شر (VICE) کی کو ئی صورت اُس مثالی معا شرے میں قا بل قبول نہیں گر دانی گئی۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ افلا طون نے اُ س مثالی ریا ست میں شعر ا کے لیے کو ئی جگہ نہیں رکھی ۔ افلا طون کو اند یشہ تھا کہ شعر ا معر کہ خیر و شر میں غیر جا نب داری کی روش پر گا م زن ہو سکتے ہیں ۔ اس باب میں تا ریخ ادب عالم کے محققین اور مو ر خین کی رائے میں کرہ ار ض پر تہذ یب و تمد ن کے آغا ز سے لمحہ مو جو د تک ادب ہر عہدِ تا ریخ میں خیر کے فر و غ اور شر کی شکست کا داعی رہا ہے ۔ یعنی معر کہ خیر و شر کے سلسلے میں کبھی غیر جا نب دا ر نہیں رہا ۔ ہو مر ؔ کے زمانے سے آج تک تما م اصنا فِ ادب کا مر کز انسا ن رہا ہے اور اُس کا مقصد شر کے مقا بل خیر کی تا ئید اور اُ س کی فتح و نصر ت کا پر چا رک ہونا رہا ہے ۔ یہ امرِ واقعہ ہے کہ کبھی کسی مر حلہ تار یخ میں شر کے سامنے کسی ادیب یا فن کا ر نے سرِ تسلیم خم نہیں کیا ۔ ٹی ۔ ایس ۔ ایلیٹ کے مطا بق خیر و شر کی جنگ آپ کو ہر ادب پا رے میں نظر آئے گی۔ کہیں با لکل واضح طو ر پر اور کہیں تمثیلو ں اور استعا روں کے پر دوں میں ۔ انسا ن سما جی زند گی کے آغاز سفر سے فطر ت سے بر سرِ پیکا ر رہا ہے۔ اور آج بھی ہے۔رمو زِ فطر ت اور قا نو ن فطر ت سے اُ س کی شنا سا ئی اور آشنا ئی وقت کے سا تھ فر وغ پا تی رہی ہے ۔ جہد بقا کے مر احل میں انسا ن کو فطر ت سے بر سرِ پیکا ر ہو تے ہو ئے معر کہ خیر و شر سے بھی دو چا ر ہو نا پڑ ا ہے ۔
روحِ عصر کی تر جمانی کر نا اور ضمیرِ وقت کی آواز بننا ادب کا منصب رہا ہے۔ اِس منصبِ عظیم کی تاریخ کا سر اغ لگا نا انسا نی سما ج کے سفرِ ارتقا کے مطا لعے سے جڑا رہا ہے۔ ادب کا بنیا دی مو ضوع اور مر کز ومحو ر انسا ن رہا ہے۔ انسا ن جو سما ج میں پید ا ہو کر اُ س کا ایسا حصہ بن جا تا ہے کہ سما ج کے حدود سے باہر رہ کر انسا ن کی نفسیا ت سمیت اُ س کے مادی اور روحانی تقا ضو ں اور تر جیحا ت کی تفہیم ناممکن ہے ۔ طر زِ احسا س اور حسیت ، جو ادب کی تخلیق کے محر کا ت ہیں ، اِسی سما ج کی دین اور عطا ہیں ۔ انسا ن جن مر احلِ حیا ت سے دوچا ر اور جہد و پیکا ر اور مسا ئل و مصا ئب سے نبر دآ زما ہو ا ، ادب مین اِس کا اظہا ر ادبی جما لیا ت کے دائر ے میں ہو تا آیا ہے۔ کر ہ ار ض پر انسا ن کی کہا نی نظر یہ تخلیق ربانی کی روشنی میں آدم و حو ا سے شر وع کی جا ئے یا سا ئنسی تحقیقا ت یعنی نظر یہ ار تقا کے مطا بق ، با ت ہز اروں بلکہ لا کھوں سالو ں کی ٹھہر تی ہے ۔ انسا نی زند گی میں دُ کھ اور سُکھ کی داستا ن کے ساتھ نیکی اور برائی یعنی خیر و شر کے ما بین تصا دم و معر کہ آرائی کی داستا ن کا تسلسل روزاول سے پا یا جا تا ہے ۔
خیر و شر کے تصو را ت انسا نی فکر و احسا س اور عقا ئد کا جزوِ لا ینفک اور ارتقا پذ یر رہے ہیں ۔انسا نی شعور کی تر بیت اور رہ نمائی میں مذ اہبِ عالم کا کلید ی کر دار رہا ہے ۔ مذ اہبِ عالم میں خیر و شر کے حوالے سے اِس حد تک قد رِ مشتر ک پا ئی جا تی ہے کہ ہر مذ ہب خیر کی حما یت و تا ئید کا دعویٰ کر تا ہے اور دشر کی مخا لفت اور شر کے خلا ف جہد و پیکا ر کو اپنے بنیادی عقا ئد کا حصہ قر ار دیتا ہے ۔ یہ علا حد ہ حقیقت ہے کہ ہر مذ ہب کا تصو ر خیر شر ایک دوسرے سے کسی نہ کسی حد تک مختلف بلکہ بعض صورتو ں میں متصا دم و متضا د ہے ۔ خیر و شر کے حو الے سے ایر ان کے قد یم مذ ہبی رہ نما ز ر تشت کے یہا ں خیر و شر کے جدا جد ا خدا ہیں ۔یعنی یز ادن و اہر من ۔ ہندو مت میں رام اور راونڑ خیر و شر کی نما ئند گی کر تے ہیں ۔ رامائنڑ کا رزمیہ اِس ضمن میں رام اور راونڑکے درمیان معر کہ خیر وشرہے ۔
جس میں خیر کی فتح ہوئی اور شر کی شکست ۔ رامائن کے خالق کالی داس نے اِس معرکہ خیر و شر کو ایک عظیم رزمیہ سے EPIC بنا دیا ہے اور اِسے تخلیقی شاہکار تسلیم کیا جاتا ہے ۔ مذاہبِ ابراہیمی میں خیر و شرکے معرکوں کا تسلسل اسلام تک جاری رہا۔
ادب آغازِ سفر سے خیر کا ہم نوا اور شرکا حریف رہا ہے۔ معرکہ خیر و شر کی تاریخ عالمی تہذیبی تناظر میں خود ایک بڑا موضوع ہے۔ یہاں اِس حد تک بات رکھی جائے گی کہ ادب کے خمیر اور طینت کی تفہیم میں کوئی ابہام نہ رہے۔ سعدیؔ شیرازی کی گلستان و بوستان میں منثورومنظوم حکایاتِ خیر کی تائید اورپُر زور حمایت اور شرکی خباثتوں اور فتنہ سامانیوں کو بے نقاب کرنے سے عبارت ہیں۔ ادب میں کہیں اور کسی مرحلے پر شر کی قوتوں کی تائید کی روش نہیں پائی جاتی۔ معرکہ خیر و شر کے ہوالے سے تاریخِ ادب میں غیر جانب داری کی کوئی روایت اور رویہ نہیں پایا جاتا۔ ادب نے ہمیشہ خیر، یعنی حق کی تائید میں کلیتہً جانب داری کا کردار ادا کیا ہے۔ معرکہ خیر و شر اور معرکہ حق و باطل مترادفات کا درجہ رکھتے ہیں۔ ادب میں معرکہ حق و باطل کے باب میں واضح صف بندی نظر آتی ہے۔ اور ادب حق کی قوتوں کے دوش بدوش کھڑا نظر آتا ہے۔
تاریخ نے بڑے بڑے جنگ بازوں اور فاتحین کو عظیم قرار دیا ہے جو جارحیت کے بھیانک جرم کے مرتکب اور لاکھوں انسانوں کی ہلاکتوں کے مرتکب ہوئے تھے۔ اُن کے ہاتھوں جہاں لاکھوں انسان قتل ہوئے، اُن کے سروں کے مینار سجائے گئے، وہاں تہذیب و تمدن اور ثقافت کی تباہی اور بربادی تاریخ میں مرقوم ہوئی، مگر سکندر، سکندرِ اعظم کے نام سے تاریخ میں جانا جاتا ہے ، اشوک کو کالنگا کی جنگ میں لاکھوں انساں کی لاشوں کا منظر نامہ سجانے کے اعتراف میں اشکوکِ اعظم کے خطاب سے نوازا گیا۔چنگیز خاں(1162۔1237) کو منگولیہ والے اپنا ہیرو مانتے ہیں اور انہوں نے اُس کے ایک عظیم الشان گھوڑے پر سوار مجسمے کو اپنی قومی شناخت کے طور پر نصب کیا ہوا ہے ۔ ہلاکو خان نے (1258) کو بغداد کو تباہ و برباد کیا۔ بغداد کے عظیم الشان کتب خانوں اور دیگر عالمی خزانوں کو نذر آتش کیا۔ ہلاکو خاں بھی منگولوں کا ہیرو ہے۔ تیمور جس نے وسطِ ایشیا کے متعدد ملکوں کو اپنی بدترین جارحیت کا ہدف بنایا۔ اُس نے دہلی کی بھی اینٹ سے اینٹ بجائی، مگر آج بھی ہمارے شہر، یعنی شمالی ناظم آباد کو سرکاری طور پر تیموریہ کا نام دیا گیا ہے اور شمالی ناظم آباد میں ایک تیموریہ لائبریری بھی تعمیر کی گئی جو قائم و دائم ہے۔ مغلیہ سلطنت کے دود مان اپنے کو آلِ تیمور و چنگیز کہنے میں فخر کرتے رہے ہیں۔ تاریخِ ادب میں یہ تاریخ کے ہیروز ہمیں نظر نہیں آتے بلکہ انہیں انسانیت کے قاتلوں کے گروہ کے سرخیل کے طور پر ادب کی مختلف اصناف میں شاملِ فہرست کیا گیا ہے اور جبر و ظلم کے علم بردار اور انسانی اقدارِ حیات کے گورکنوں کے نام سے یاد کیا گیا ہے ۔ ادب کے دامن پر انسانیت کے اِن قاتلوں کی تعریف و توصیف کے داغ اور دھبے ہمیں کہیں نظر نہیں آتے، بلکہ جبرو استحصال کے مقابلے میں خیر کے پرچم برداروں کو ادب میں استعارات ، تلمیحات اور علامت حق و خیر کے طور پر شع و ادب کی جمالیات کا زیب و زینت بنایا گیا۔
ماضی میں تاریخ نے جنگ کو GLORIFY کیا ہے، جبکہ جنگ میں بنیادی طور پر جارحیت اور قتل و غارت گری کی کار فرمائی ہوتی ہے، اور جنگ میرے نزدیک شر کی بھیانک شکل ہے۔ جنگ کے حوالے سے نہ تائیدِایزدی کی کوئی بات منسوب کی جاسکتی ہے اور نہ اِسے مشیتِ ایزدی کا نام دیا جاسکتا ہے ۔ جنگ کے بنیادی محرکات سیاسی اور اقتصادی مفادات ہوتے ہیں۔ اسی تناظر میں کارل مارکس نے تاریخ انسانی میں درج تمام جنگوں کو جنگِ زرگری قرار دیا ہے۔ جنگ کو اِس طرح زمرۂ شر میں شمار کیا جانا چاہیے اور امن کی طاقتوں کو خیر کا علم بردار کہنا اور تحریکِ امن کو تحریک خیر کا نام دیا جانا چاہیے۔ ادب کے جدید عہد کے موضوعات میں سماجی امن اور امنِ عالم کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ الفریڈ نوبیل کے ادارے نے کئی علوم کو نوبیل انعام کے لیے منتخب کیا ہے اور 1901 سے یہ عالمی شہرت کے حامل انعامات دیے جارہے ہیں۔ اِ ن میں ادب اور امن کے موضوعات بھی شامل ہیں۔ امن کے حوالے سے فیض احمد فیض کو لینن امن انعام دیا گیا۔ فیضؔ صاحب کی ایک مختصر نظم بعنوان ’امن‘ اِس حوالے سے نذرِ قارئین ہے :
امن اور آزادی بہت حسین اور تاب ناک چیزیں ہیں
امن گندم کے کھیت ہیں
سفیدے کے درخت ہیں، دُلہن کا آنچل ہے
بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ ہیں
شاعر کا قلم ہے اور مصور کا موقلم
آزادی اِن سب صفات کی ضامن
اور غالمی اِن سب خوبیوں کی قاتل
امن ، دائرۂ خیر میں انسانی خوش حالی، ترقی اور مسرتوں کا سرچشمہ اور روشنیوں کا منبع ہے ۔ جنگ شر کے دائرے میں اندھیرے اور مصائب و آلام اور شرفِ بشر کا قاتل ہے ۔ امن کے موضوع پر عالمی ادب میں مختلف اصناف میں گراں مایہ تخلیقات اور تصنیفات منصۂ شہود پر آئی ہیں جن میں ٹالسٹائی کا ناول’’WAR & PEACE‘‘ عالم گیر شہرت کا حامل ہے۔
تاریخ اِ انسانی کو تایخی جدلیات کی روشنی میں آغازِ تمدن سے طبقاتی کش مکش کی تاریخ کہا گیا ہے ، یعنی ظالم و مظلوم ، قاہر و مقہور، قاتل و مقتول، استحصال کے شکار طبقات اور استحصالی طبقات بالفاظِ دیگرHAVES اور HAVE NOTS کے درمیان ایک جنگِ مسلسل انسانی معاشرے کے آغازِ سفر سے جاری و ساری ہے۔ ادب میں ظلم کے خلاف اور عدل کی تائید اور حمایت میں واضح موقف پایا جاتا ہے ۔ ہر دور میں ادب سے وابستگان کے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور اُس کی پاداش میں صلیب و دار کے مراحل سے بھی گزرے ہیں۔ مظلوم طبقات کی حمایت ادب کا مسلک و مشرب رہا ہے۔ جبر و استحصال کی تمام صورتوں کی نفی کرناقلم نے اپنے فرائضِ منصبی میں شامل کرلیا ہے۔
محبت ادب کی روح ہے اور محبت کے سرچشمے ادب کی مختلف اصناف سے پھوٹتے رہے ہیں ۔محبت اپنے وسیع ترین مفہوم اور دائرے میں اخوتِ انسانی کی اساس کہی جاسکتی ہے اور تمام تر انسانی رشتوں کے درمیان تانے بانے کے کردار کی حیثیت رکھتی ہے۔ ادب کی دنیا خیر کی روشنی سے روشن و تاباں ہے ۔ معرکۂ خیر و شر میں ادب کا بہت وقیع حصہ اور بہت اہمیت کا حامل کردار رہا ہے۔ ادب میں معرکۂ خیر و شر کی جہتوں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ، لہٰذا کچھ حوالے پر اکتفا کرتے ہوئے موضوعِ گفتگو آگے بڑھاتا ہوں۔ ہماری داستانوں میں جو کردار پیش کیے گئے ہیں، اُن کے مطالعے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مثبت اور منفی کرداروں کی کردار نگاری میں خیر و شر کی لکیر واضح طور پر کھینچی گئی ہے اور خیر کے علم برداروں کی عظمت و فضیلت کے اظہار میں کسی ابہام کو راہ نہیں دی گئی ہے۔1886 میں شکاگو میں مزدوروں کے حوالے سے ہر سال منایا جاتا ہے اور اسے مزدوروں اورمظلوموں کی شکست کے بجائے اُن کی فتح مندی قرار دیا جاتا ہے ، اور یہ سانحہ شاعری میں ایک رزمیے کی حیثیت سے تاریخ ادب کا حصہ ہے۔1886 میں شکاگو کا سانحہ معرکۂ خیر و شر کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش واقعہ ہے، اور اِس معرکے میں ادب خیر کے پرچم کی سربلندی کا مغنی و مطرب ہے۔
معرکۂ خیر و شر جاری و ساری ہے اور اِس معرکہ آرائی کے حاصلات میں شرفِ شر کی فتح و نصرت کی داستانیں تاریخ عالم میں جگہ پاچکی ہے۔ تہذیب و تمدن کے سفر پیش رفت کا مطالعہ عام انسان بلکہ مظلوم طبقات سے تعلق رکھنے والے انسان کے حوالے سے کیا جائے تو ہزاروں سالوں پر محیط عرصۂ تاریخ میں انسان جو کبھی غلام تھا، وہ آج آزاد انسان ہے اور جمہوریت کے سیاسی اور سماجی نظام میں اُسے ہر طرح کے تفریق و امتیاز سے بالا تر مقام حاصل ہوگیا ہے ۔ یہ ایک بڑی زمینی حقیقت ہے کہ آج بھی نظام جبر و استحصال قائم ہے مگر رو بہ زوال ہے ۔ اصولی طور پر اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور(1948) میں انسان کی عظمت اور اصولی فتح مندی کا اعلان ہوچکا ہے اور عام انسان رنگ و نسل اور جنس کے امتیاز و تفریق کی زنجیروں سے آزادی حاصل کرچکا ہے ۔ یہ سب کچھ خیر کی فتح کی کہانی ہے، اور یہ کہانی آج کے ادب میں مختلف اصناف اور مختلف رنگ و آہنگ کے ساتھ وقیع تر ہوتی جارہی ہے۔
غرض ادب معرکۂ خیر و شر میں روزِ ازل سے شاملِ رزم و بزم ہے اور قلم کی روشنائی میں خیر کی روشنی شاملِ تابندگی ہے۔ خیر کے پرچم کی سربلندی ادب کی سربلندی کا نشانِ راہ ہے اور شر سے نبرد آزما ہونے اور رہنے کا بوطیقا ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے