(دانیال طریر کی فرمائش پران کی کتاب ’’معاصر تھیوری اور تعین قدر‘‘ کے لئے لکھا گیا دیباچہ جو بوجوہ شائع نہ ہو سکا)
پاکستان میں ادبی و فکری منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے گروہی رجحانات کچھ اس طرح سے واضح ہوتے ہیں :
اول: روایتی غزل لکھنے والے، دوم: غزل ونظم دونوں کو جدید انداز میں لکھنے والے، سوم: جدیدنظم اور فکشن لکھنے والے، چہارم: جدیدغزل ،نظم یا فکشن کے ساتھ ساتھ تنقید لکھنے والے، پنجم: ادبی سماجی فکری تنقیدلکھنے والے ۔
اس میں اول الذکر گروہ یعنی روایتی غزل لکھنے والے اکثریت میں ہے۔ یوں اگر ہم پاکستان کے ادبی وفکری رجحانا ت کا اندازہ لگاتے ہوئے ترتیب وار آخری گروہ کی طرف بڑھیں تو گویا انتہائی اقلیت کی طرف بڑھیں گے اور آخری یعنی ادبی سماجی فکری تنقیدلکھنے والوں پر مشتمل پانچواں گروہ سب سے چھوٹی اقلیت قرار پائے گا۔ دانیال طریر نئی نسل میں اسی اقلیتی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کی اولین شناخت دوسرے گروہ کے ایک جدید اور منفرد لہجے کے شاعر کے طور پر ہوئی تھی لیکن پھیر وہ تنقید کی طرف نکل گئے اور چوتھے و پانچویں اقلیتی گروہ کا حصہ بن گئے ۔ انہوں نے یہ فیصلہ شعوری طور پر کیا اور میرے اصرار آمیز استفسار پر بھی اپنے اس فیصلے پر کمیٹڈاور پر اعتماد رہے۔ چونکہ ہمارے روایتی و نیم خواندہ معاشرے میں اگر شاعر باصلاحیت اور اچھی شخصیت کا مالک ہو تو اس کی شاعری اسے مقبولیت کے لئے بہترین سٹیج اور تیز رفتار شہرت فراہم کرتی ہے۔ایسے میں دانیال کا انحراف پسندفیصلہ نہایت جرأت مندانہ ہے۔
دانیال طریر کی شناخت اور اہمیت اس لیے بھی ہے کہ ان کی نسل تک آتے آتے پاکستانی ریاست وسماج کی دگر گوں حالت، ثقافتی اکھاڑ بچھاڑ اور شہری صارفیت پسند نفسیات نے ادبی منظر نامے کو بہت بدل دیا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں روایتی شعری اصناف سے جدید نثری اصناف کی طرف حرکت ترقی پسند تاریخی تبدیلی کا گہرا اشارہ ہوتی ہے۔ کیونکہ شاعری دراصل فطرت اور زرعی عہد کے جذبے کا اظہار ہے جوکہ دیہی کلچر کی نمائندہ ہوتی ہے۔ جبکہ نثر مشینی عہدکے تعقل کی ترجمان ہوتی ہے جو اربنائزیشن کا لازمی نتیجہ ہے۔ ازمنہ وسطٰی کے جاگیردارانہ نو فلاطونی واساطیری اثرات کے خاتمے کا اظہار نثر اور اس کے تعقل پسند رجحان سے ہوتا ہے۔ اردو میں ایسی تبدیلی نوآبادیات کے زیر اثر جدیدمغربی کلچر کے ادغام سے آغاز ہوئی جس کے ابتدائی اشارے سر سید و اقبال کی روشن خیالی اور ہائی ماڈرن ازم کے عناصر پر مشتمل وہ فکری رویے ہیں جو ترقی پسند اور جدیدیت کی تحریکوں کا دیباچہ بنے۔ گویورپ میں ادب کے متوازی فکر و فلسفہ کی خودمختار نثری روایت قدیم اور مستحکم رہی ہے لیکن جنوبی ایشیائی لوگوں کے ہاں فکر و فلسفہ کا خود انحصارنثری رجحان پروان نہیں چڑھ سکااور اگر اس کے عناصرکہیں ابھرتے ہیں تو وہ بھی ادبی وشعری اصناف ہی میں سامنے آتے رہے۔نوآبادیاتی دور سے قبل کلاسیکی ادبی روایت میں وحدت الوجود ہی بطور فکر کے غالب دکھائی دیتی ہے لیکن سرسید نے اردو ادب میں جدیدعلمی وعقلی تصورات کو فکری سطح پر رواج دینے کی ابتدا کی۔ مضمون نگاری کی ابتدا دانشورانہ رجحان کو ادب سے الگ کرکے پروان چڑھانے کی ایک کاوش تھی۔اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے ادبی جبکہ لیکچرز کے ذریعے غیر ادبی نثری بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس نئی فکری روایت کو بین الاقوامی سماجی سیاسی رجحانات کے ساتھ جوڑکر وسیع تر کردیااور ساتھ ہی ہندوستانی مسلمانوں کی فکری روایت میں بنیادی تبدیلی لانے کی کوشش بھی کی جو اپنی ابتدائی نوع میں مذہبی وکلامی بنیادوں پر قائم ہوئی لیکن اگلے مرحلے میں قومی سرمایہ دارانہ ترقی کے ساتھ ساتھ اس نے سیکولرفلسفیانہ اساس پر ہی استوار ہونا تھا۔ بعدازاں ترقی پسندوجدیدیت پسنددانشور ادیبوں نے سائنس کی مارکسی و روشن خیال اساس کے حامل معاصر یورپی افکار و نظریات کودیگر علوم کے ساتھ ہم آہنگ کرکے یہاں رواج دینے کی کوشش کی جس نے فکروفلسفہ کو ادب کے متوازی اور علیحدہ روایت کے طور پر مستحکم کیا۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری شعری روایت کی اولین دستاویزرگ وید کی نظموں کی فکری و فنی سطح کو دیکھیں تو ہم سمجھ سکتے ہیں اس کی پس منظری روایت کم از کم ہزار ڈیڑھ ہزار سال قبل از وید ضرور رہی ہوگی۔یوں چار پانچ ہزار سال پرانی شعری روایت کے مقابلے میں ہماری نثری روایت تو بہت کمزور ہے۔ اگر داستان کے ساتھ ساتھ فورٹ ولیم کالج اور غالب کی محدودکاوشوں کے مقابلے میں سرسید سے آغاز ہونے والی نثری روایت کو ذہن میں رکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس حوالے سے ہمارا مزاج کس قدر ابتدائی سطح پر ہے۔
یورپی نشاۃ الثانیہ سے پھوٹنے والی روشن خیالی کی تحریک نے جدیدیت پسند افکار و تصورات کی بنیاد رکھی تھی جس نے عیسائی کی جگہ یونانی فکری روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے نطشے ، ڈارون، نیوٹن، فرائیڈ، آئنسٹائن، سارتر اور مارکس وغیرہ کے افکار کو بنیاد بنایا۔ ہمارا جدید فکری رویہ بھی انہیں برآمدہ مگر نوآبادیاتی فکری بنیادوں پر تشکیل پایا۔مارکسیت اسی سرمایہ دارانہ جدیدیت کی ایک تنقیدی شاخ اورتجزیاتی ردعمل تھی جس نے ہمعصریورپی معیشت کے مادیت پسندارتقائی مطالعے پر روشن خیالی کی تعقل پسندی کے متوازی جدلیاتی فکری و فلسفیانہ بنیادرکھی۔مارکسیت یورپی سرمایہ داری تاریخ کا ناگزیر و منطقی فکری مرحلہ تھا جو بتدریج سرمایہ دارانہ بورژوائیت سے پرولتاریت کی طرف بڑھی۔مارکسیت نے روشن خیالی کے عمرانی تاریخی نقطہ نظرکے باوجود اس پر بہت سے سوالات اٹھاکر اس کی فکری کمیوں کو طبقاتی و تاریخی جدلیات کے حوالے سے پورا کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہمارے ہاں سرسیدکے بعد خاص طور پر پہلی عالمی جنگ کے بعد جب روس میں اشتراکی انقلاب برپا ہوگیا تو نئی سیاسی فضانے یورپی فکری روایت کے ان دونوں رجحانات کو باہم صف آرا کر دیا۔یوں جدیدیت مجموعی روشن خیالی کا حصہ بننے کی بجائے پہلے پہل نوآبادیاتی اوربعد ازاں سرد جنگ کے تناظر میں ترقی پسندی کی ضد کے طور پر ابھری۔ یعنی ہمارے جو ادیب مارکسیت اور ترقی پسندی کے مخالف تھے انہوں نے یاتو کلاسیکیت میں پناہ لی یا جدیدیت کے نمائندہ بنے ۔ایسے میں ترقی پسند فکری رجحان اشتراکیت پسند، اجتماعی، جمہوری اور معاشی تصورات کا حامل جبکہ جدیدیت سرمایہ داریت پسند، فردیت اور نفسیاتی تصورات کے نمائندہ فکربنی۔ بعدازاں ساٹھ کی دہائی میں ہمارے ہاں جدیدیت پسندوں میں ایک ایسا گروہ بھی سامنے آیا جوان دونوں مقامی رجحانات کے بھی خلاف تھا اور نظریاتی طور پر وجودیت کے ذریعے سے اشتراکیت پسند بھی تھا۔یعنی ایک ایسے مرحلے پرجب وجودیت بھی سارتر کے زیر اثر مارکسیت و اشتراکیت کو ناگزیر قرار دے چکی تھی توپاکستان میں ماڈرن رئیلزم کا ظہور ہواجس کے تحت پاکستان میں جدیدیت کے دو طرح کے حامی سامنے آئے: ایک ریڈیکل جدیدیت پسندجو مارکسیت و اشتراکیت کے حامی تھے اور دوسرے لبرل جدیدیت پسندجو صرف شخصی، نفسیاتی اور وجودی تھے ۔80 کی دہائی میں اشتراکی روس کے زوال کے بعد ترقی پسند رجحان جو کہ سماجیت پسند افکارو تصورات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے فعال نہ رہا۔ نتیجتاًاس کی ضد یعنی جدیدیت بھی زوال پذیر ہوئی۔ہمارے ہاں ان ماڈرن کلاسیکی فکریات کے زوال کے بعد کی عالمی سیاسی معاشی صورت حال نے جدیدیت کی نئی شکل یعنی مابعد جدیدیت کورواج دیا جو مغرب میں ستر کی دہائی میں غالب ہورہی تھی۔ مابعد جدیدیت میں ایک رجحان نئی سرمایہ دارانہ لبرل اکانومی کے تحت علمی سطح پرمارکسی ذہن سے استفادہ بھی رہا۔
گو پاکستانی قبائلی و جاگیرداری بنیادوں کی وجہ سے چندبڑے شہروں کے ادیبوں کے علاوہ جدیدیت بھی اپنی نمائندہ روشن خیالی کے حوالے سے اجتماعی سطح پرہمارے ہاں قبولیت نہ پا سکی تھی۔جبکہ بعد ازاں ہمارے ہاں مابعد جدید یت کے نمائندے وہ بنے جو مارکسیت و اشراکیت مخالف بلکہ ’’ ترقی پسندمخالف ریاستی ترجیحات‘‘ کے باعث سٹیٹس کُو کے حامی سمجھے جاتے رہے ۔لیکن ان میں سے بھی جو ادبی دائرے سے بڑھ کرجدیدیت کے بنیادی ترین عناصر یعنی لبرل ازم یا سیکولر ازم کے سماجی سیاسی تصورات کی طرف بڑھے انہیں ریاستی و مذہبی انتہا پسندی کا سامنا کرنا پڑا۔ظاہر ہے یہاں کی مذہبی، جاگیردارانہ، قبائلی اور ریاستی ترجیحات روشن خیالی کی بھی مخالف تھیں ایسے میں آسان راستہ یہی تھا کہ یا تو صوفیانہ انسان دوستی کی طرف بڑھا جائے یا جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی تمام تر مباحث کوتبدیلی پسندمقامی تقاضوں سے ہم آہنگ کیے بغیرمحض ادبی بقراطیت کے لیے استعمال کیاجائے۔گزشتہ صدی کی آخری دہائیوں میں تو یہ رجحان بھی مذہبی عسکریت وانتہاپسندی کے باعث کمزور ہو گیا۔ آج پاکستانی صورت حال یہی ہے کہ مارکسی و عمرانی پس منظررکھے بغیر مابعد جدیدیت کاعلم اٹھانا ویسا ہی فکری فیشن بن گیا جیسا کبھی ترقی پسندی میں تھا ۔ہمارے ہاں کے سماجی سیاسی انتشار، متشدد مذہبیت، اور ریاستی ترجیحات کے باعث ترقی پسندی اور جدیدیت دونوں کے جنازے ایک ساتھ اٹھے۔سو اب اجارہ دار کثیر قومی کمپنیوں کے پھیلائے صارفیت پسندکمرشل کلچر ، میڈیائی نفسیاتی فکری غلبے اور سرمایہ و علم کے بطور طاقت سہ جہتی اتحاد نے ایسے چیلنجز کو ابھارا ہے جس میں ہمارا دانشور ادیب عالمی فکری ارتقا اور سیاسی معاشی آگہی کے بغیرہمارے ملّاوں کی سطح پر چلا جائے گا۔
مذکورہ پس منظرمیں دانیال طریر بلا شبہ ہماری نئی نسل کے ان چند گنے چنے ، صاحب مطالعہ اور باشعور ناقد کے طور پر سامنے آرہے ہیں جن سے مذکور حوالے سے کئی امیدیں لگائی جاسکتی ہیں۔وہ اپنے شعری مجموعے’’آدھی آتما‘‘ کے بعد تنقیدی مجموعے’’بلوچستانی شعریات کی تلاش‘‘کی جلد اول پیش کر کے اپنی سنجیدگی، فکر اور کمٹمنٹ کی داد پہلے ہی لے چکے ہیں۔ ان کی زیر نظر تحریریں در حقیقت ادبی تنقید میں ان کے فکری پھیلاؤ، فلسفیانہ قضیوں اور خرد افروز جہتوں کا ایک ابتدائی تعارف ہے،جس میں وہ محض مرعوب ہونے یا مرعوب کرنے کے ادبی فیشن کا شکار نہیں ہیں بلکہ خلوص نیت اور اپنی داخلی لگن کے زیر اثر اپنے اوریجنل سوالوں اور قضیوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ یقیناًآنے والے دنوں میں جوں جوں وہ اپنے مطالعے ، سوچ، اور فکر کوگہرا، پیچیدہ، وسیع اور عوام دوست بنائیں گے تو ان کی آئندو تحریریں ان کی پہچان کا بہتر اور مکمل حوالہ بنیں گی۔ یقیناًبلوچستان کی رواں سیاسی سماجی اور ادبی فضا میں ان کے کام کو بہت سے اہم زاویوں سے دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے