دانیال طریرہمارے باصلاحیت ہم عصر ہیں۔ ان کی اولین کتاب’’ آدھی آتما‘‘ پر نظر دوڑائیں تو اس کی جدید شعری جمالیات ہمیں نئے خیالات، نئے امیجز، اور ہندی لفظیات کے ساتھ کچھ نیاکہنے کی شدید خواہش لیے دکھائی دیتی ہے۔ایک طرف تو اس نئے پن پر جلیل عالی جیسے مخصوص نظریات کے حامل شاعرکا اضطراب اور ان کی نظریاتی بے چینی دانیال طریر کے لیے ’’اپنی شعری روایت سے عدم آگہی کی کوتاہی، مانوس سے احترازکے باعث کہیں کہیں اکھڑے پن اور شعری مستقبل سے مایوسی اور فنی رچاؤ کی منزل کے حصول میں تاخیر‘‘ جیسے تاثرات و الفاظ استعمال کرواتی ہے جبکہ ترقی پسند نقادیوسف حسن کواس کا کلام کلاسیکی تمثالوں اور اسلوب سے ہٹ کر شعری انداز جبکہ contentکے حوالے موجودہ سماج سے عدم اطمینان اور اس کی replacemntمیں اس کی اپنی خواہشات ، تصورات اور خوابوں کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ یہ دانیال کا پنڈی کا قیام کا زمانہ تھا جب’’ آدھی آتما‘‘ چھپی۔ ان دنوں وہ نظریاتی اعتبار سے نہ توترقی پسند تھے نہ جدیدیت پسندبلکہ صرف شاعر کے طور پر جانے جاتے تھے۔پھر وہ کوئٹہ چلے گئے اور وہاں ان کی کایا کلپ ہوئی جس کا اظہار ان کی پہلی تنقیدی کتاب ’’بلوچستانی شعریات کی تلاش ‘‘سے ہوا ۔ نہایت ہی سنجیدہ، مدلل اور ایک نئے ناقد کے اعلان کے ساتھ۔ بہت عرصے بعد جب اسلام آباد میں ان سے ایک کانفرنس میں ملاقات ہوئی تو انھوں نے اپنی تنقیدی جہت کو تخلیقی جہت پر مقدم جاننے کا اعلان ظاہر کیا۔اس وقت تو میں کھٹک گیا کیوں کہ میں نے کئی تخلیق کاروں کو تنقید کے شوق، گلیمر اور غلبے کی بھینٹ چڑھتے دیکھا ہے۔ان کی اگلی کتاب جو مجھے ملی وہ بھی تنقید کی تھی یعنی ’’معاصر تھیوری اور تعین قدر‘‘ جس کی بنیادی خاصیت اپنے ہم عصروں اورعصریت کے ساتھ جڑنا تھا۔ یہاں وہ پہلی بار اپنے معاصرین پر قلم اٹھاتے ہوئے مابعد جدیدیت کے ساتھ جڑتے ہوئے نظر آئے جس کی کچھ تصدیق ناصر عباس نئیر بھی پس کتاب اپنی رائے میں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آخر میں مجھے ان کی چار کتابیں اکٹھی ملیں جن میں غزلوں کی کتاب ’’خواب کمخواب‘‘، نظموں کی’’ معنی فانی‘‘ اور طویل نظم ’’خدا میری نظم کیوں پڑھے گا‘‘کے ساتھ ساتھ ان کی تیسری تنقیدی کتاب ’’جدیدیت، مابعد جدیدیت اور غالب‘‘ شامل تھی۔اپنی تمام تر شائع شدہ سات کتب کے ساتھ نہ صرف انھوں نے بطورجدید شاعر و نقاد اپنی حیثیت کو مستحکم کیابلکہ اپنی نثر اور وہ بھی تنقیدی نثرکو اپنا کر اس مشکل راہ کا انتخاب کیا جس پر نئی ادیب نسل چلنے پہ پہلوں کی طرح پراعتمادنظر نہیںآتی۔ دانیال طریر کے اسی داخلی رجحان کا اثر ان کی نظم نگاری کو بھی منفرد کردیتا ہے۔ کیوں کہ اب وہ شاعری کی لفظیاتی حسن پرستی کے آرٹ سے نکل کر contentکے مشکل مرحلے میں جانکلے ہیں۔ یوں تو ان کی پہلی کتاب کی غزلوں میں نظمیہ عناصر اور رجحان کو صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے بالکل اسی طرح جیسے کئی غزل گو شعرا کی نظموں میں یہ عناصرپائے جاتے ہیں۔
ان کی نظموں پر مشتمل کتاب ’’معنی فانی‘‘ میں آفتاب اقبال شمیم نے جہاں content کی سطح پر کثرت مضامین کے ساتھ ساتھ عصری طرز حسیت کی چھاپ کی طرف اشارہ کیا ہے وہاں ان کے تفکر کی سطح پر اٹھتے مسائل کی فکری و وجودی نوعیتوں کی طرف بھی اشارے کیے ہیں وہ خود بھی اپنی نظم کی موضوعاتی وسعت کو ’’نظم بازی کے گر‘‘ میں واضح کرتے ہوئے اپنا ذہنی تعارف بھی کرادیتے ہیں اور اپنی نظم ’’نظم گوکے لیے مشورہ‘‘ اور’’ رموزاوقاف کی نظم‘‘میں اسے فن نظم کے ساتھ جوڑ کر اس بحث کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ’’معنی فانی‘‘ کی نظموں کے موضوعات ، زبان ، ہیئتیں اور تکنیکیں ان کے نظمیہ شعور کو بھی ہم پر آشکار کرتی ہیں۔ دانیال کی طویل نظم پر مشتمل کتاب ’’خدا میری نظم کیوں پڑھے گا‘‘ ان کی نظمیہ مہارت کا شاندار اظہار ہے۔ طویل نظم لکھنا بذات خود تخلیقی حوصلہ مندی کا ثبوت ہے۔ لیکن اس میں نظم کے تمام اسالیب ، تکنیکیں، ہیئتیں اور لسانی تجربے جمع کرکے انہوں نے نظمیہ کرافٹ کو ایک نئی شکل دی ہے۔ نظم کے آخر میں دیا گیا عرض ناشر اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں نظم کی تفہیم ابھی اس منزل پر نہیں آئی کہ قاری کے ہاتھ میں نظم دے کر مطمئن ہوا جائے۔ لیکن دانیا ل طریر کی یہ نظم اپنی ہم عصرجدید نظم سمیت نظم کے قاری کی تربیت کا بھی سامان فراہم کرتی نظر آتی ہے ۔ دراصل یہ نظم خدا کے لئے نہیں بلکہ نظم کے ناخدا کے لیے لکھی گئی ہے۔ یہاں خدا قاری بھی ہے اور نقاد بھی، لیکن یہ شکایت بھی نہیں ہے اور سوال بھی نہیں۔ یہ ایک ایشو ہے، قضیہ ہے، سوال ہے۔ اسی لئے میں اس تخلیق کو نظم کے ناول کے ذیل میں رکھتا ہوں جو اپنی جگہ پر ایک مکمل کائنات ہے۔fullnessاور thicknessکی حامل یہ کائنات جس خداسے تخلیق ہوئی ہے وہ بھی یہ نظم نہیں پڑھے گا کیونکہ نظم خدا کے لئے لکھی ہی نہیں جاتی بلکہ یہ تولاخدا کے لیے لکھی جاتی ہے کیونکہ دانیال طریر اور اس کا عہد لاخدا ہے۔
(نوٹ:دانیال طریر کی تین کتابوں کی تقریب رونمائی پر ۲۴،اپریل ۲۰۱۴ء کو اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد میں پڑھا گیا )

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے