پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین (پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج کوٹ سلطان ،لیہ)
ڈاکٹر سید عبداللہ نے نیو بولٹ کے حوالے سے کہیں لکھا ہے کہ شاعری ’’وجدان‘‘کو لفظوں کے ذریعے معرضِ اظہار میں لانے کا نام ہے ۔ مگر اس قوت عاقلہ(فکر) کا بھی عمل دخل ہوتا ہے بلکہ شاعر کا سارا علم اور اس کے حافظے میں محفوظ شدہ جملہ افکار بھی اس میں حصہ لیتے ہیں ۔ نیو بولٹ نے یہ بھی تو کہا ہے کہ شاعری انسانی تاریخ کا ایک حصہ ہے ،یہ ارتقائے افکار انسانی کا ایک عنصر ہے ۔ یہ بعض خاص ذی احساس اور ذی شعور انسانوں کی داخلی سوانحی عمری ہے ،یہ فن ہے ، یہ صناعی (Craft) ہے کہ اس میں ہنر ورانہ تربیت اور صنعت گری کی گنجائش ہے اور یہ ایک مخزن اسرار بھی کہ اس میں وہ بھید مخفی ہوتے ہیں جنھیں عام نگاہیں نہیں دیکھ سکتیں ۔ شاعر اور غیر شاعر کی ذہنی تشکیل میں یہی بنیادی فرق ہے کہ شاعر کی عمق نگاہی ان بھیدوں تک جا پہنچتی ہے جہاں غیر شاعر اپنی رسائی نہیں پاسکتا ۔ ارتقائے افکار انسانی میں جو کردار شعراء نے ادا کیا ہے وہ اوروں کے بس کی بات نہ تھی ۔ عہد جدید ہویا گزرے زمانے، شاعر ہی ہیں جنھوں نے آج اور آنے والے کل کے بارے میں پیش گوئیاں کیں جو سچ ثابت ہوئیں ۔ یہی شاعر ہی ہوتا ہے جو بجھی روحوں اور بے چین دلوں سے کلا م کرتا ہے ۔
معاصر اردو شاعروں میں ایک شاعر خاور وحید بھی ہیں ۔ جو بے چین دلوں سے باتیں کرتا ہے اور خود کو شادآباد رکھتا ہے اور تخلیق کی لطافتوں سے عاری لوگ جب اس کے اس وصف سے پریشان ہونے لگتے ہیں تو وہ انھیں باور کراتے ہیں کہ بھئی ! میری شاد کامی سے ڈرئیے مت ۔ یہ زندہ دلی جو جاودانی کے مقام تک پہنچ چکی ہے اسے حاصل کرنے کے لیے اس نے فصیل جاں کی قربانی دی تھی اور یہ حقیقت ہے کہ ’’اندر‘‘کے انسان کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے ’’اشک‘‘پلانے پڑتے ہیں ، اشک پلانے کے اس عمل میں باہر کا آدمی خشک بھی ہوجایا کرتا ہے ۔ وہ خاور وحید کا اندر ایسے ہی وجدان سے سرسبز اور ہرا بھرا ہے ۔ میں کامرس کا طالب علم شعر وادب کی دنیا میں انھی کی رفاقتوں سے داخل ہوا تھا ۔ یہ ’’دھند بھری حیرانی ‘‘ایسے ہی دسمبروں کی دھند سے پھوٹی ہے ۔ میں ان راتوں میں حیران ہوتا تھا کہ میرے گھر سے کامرس کالج لیہ کا ہوسٹل تین کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اور خاورؔ سخت جاڑوں اور پھیلی دھند میں خراماں خراماں کیسے چلے جاتے ہیں ۔ میں سواری کے لیے درخواست کرتا تو شکر یہ کے ساتھ انکار کر دیتے اور اکیلے ہی گھنے درختوں کے بیچ نہر کے کنارے چلے جاتے ۔اب معلوم ہواکہ وہ تخلیق کا کرب تھا جو انھیں تنہا ہی سہنا تھا ،سو سہتے سہتے اردو شعریات کے قارئین کو ’’ دھند بھری حیرانی ‘‘ دے گئے ہیں ۔ اس شعری مجموعے میں بیسیوں باکمال اشعار ہیں ، جن میں انھوں نے قلبی وارداتوں کو لفظیات کاجامہ پہنایا ہے ۔
جو نہ شاداب کرے روح و بدن کو میرے
ایسے دریا سے کہو اپنی روانی لے جا
کہیں کہیں سوالیہ نشان ڈالے بنا سوال بھی داغ دیتے ہیں :
زندگی کیوں ہمیں نہ راس آئی
رونے آئے تھے اس جہان میں کیا
یہ جوتو سرگراں سا رہتا ہے
وسوسے ہیں ترے گمان میں کیا
ان سوالوں کے عقب میں خاور کے شعور زیست کی کارفرمائی موجود ہے ۔ اول الذکر شعر میں تو وہ ازلی سوال پنہاں ہے کہ زندگی کیا ہے ؟ اور اس کے مقاصد کیا ہیں ؟ اور پھر آج کے انسان کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ تیری سرگردانی ،بے تابی ،مایوسی اور مخمصے کے پیچھے تیری بدگمانیوں اور وسوسوں کی کارستانیاں ہیں ، اگر تو بامقصد ، باوقار اور یقین محکم اور علم پیہم رکھنے والا ذہن ہوتاتو کبھی سرگرداں نہ ہوتا اور تیرے دل میں خوف قطعاً نہ پلتے اور نہ ہی تیرے مکان پر آسیب ہوتا ۔ آرنلڈ شاعری کو کلچر اور تہذیب کے حوالے سے ایک قیمتی شے تصور کرتے ہیں ۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی نظروں کے سامنے ایک نو دولتیوں کا ایک ایسا گروہ مستحکم ہورہا ہے جس کے نزدیک زندگی فقط مال و دولت اور عیش وآرام ہے اور شاعری صرف لفاظی اور خیال آرائی ہے ۔ اس لیے یہ گروہ اعلیٰ اقدار ،خوش خصلتوں اور شرافتوں کو سنبھال نہیں سکے گا ۔ یہ کام صرف شاعری کرسکتی ہے یا پھر اعلیٰ ترین کلچر ۔اگر عمق نگاہی سے دیکھا جائے تو ہمارا’’آج‘‘ایسے ہی نودولتیوں کے رحم وکرم پر ہے ،آج ایک مرتبہ پھر یہ سماج تاریک راہوں پر بھٹک رہا ہے اور انھیں اجالوں کی ضرورت ہے اور یہ ضروت صرف اعلیٰ پایہ کی شاعری ہی پوری کرسکتی ہے ۔ اس تناظر میں خاور وحید کہاں کھڑے ہیں ، چند مثالیں دیکھ کر غور کریں :
حریم جاں میں لگی آگ خود بجھا دوں گا
گریز اس سے کروں گا ،اسے بتا دوں گا
جب اس کا ذکر میں اپنی زبان پہ رکھوں گا
زمیں اٹھا کے کسی کہکشاں پہ رکھوں گا
تری تلاش میں نکلے تو ہم پہ بھید کھلا
ہزار سنگ مقابل ہیں امتحاں کے لیے
ہم آج ایسے کسی شوخ کی نظر سے گرے
کہ جیسے آخری پتہ کسی شجر سے گرے
خاور نئے معیار اور منفرد مزاج کے شاعر ہیں ۔ یہ اس راستے سے بچ کر چلتے ہیں جو راستہ عام ہوجاتا ہے ۔ وہ اب بھی وفا اور خلوص کو تہذیبی روایت سے جوڑکردیکھتے ہیں اور اپنے سچے تہذیبی شعور سے واضح کرتے ہیں کہ اب وفا کے معنی چھوڑ کر چلے جانا کے ہیں اور خلوص صرف دکھاوا رہ گیا ہے ۔ جبکہ یہ دونوں انسانی دنیا کی مضبوط قدریں تھیں ۔ اس لیے تو وہ ناقدری احباب کو تہمت سے تعبیر کرتے ہیں اور خود سے اسے دور رکھتے ہیں ۔ اس پس منظر میں خاور کلی طور پر محبت اور انسان دوستی کے شاعروں کی صف میں معتبر مقام پر فائز ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ اچھا شعر وہ ہوتا ہے جسے بار بار پڑھنے کو جی چاہے اور وہ برجستگی اور سہل ممتنع کی اعلیٰ ترین مثال ہو ۔ اس حوالے سے خاور کے لاجواب اشعار موجود ہیں :
عیاں نہیں ہے ، نہاں نہیں ہے
یقین ہے وہ گماں نہیں ہے
پیار نیلام کردیا اس نے
یہ چلن عام کردیا اس نے
میں بلاتا ہوں پر نہیں آتا
جانے کیا سوچ کر نہیں آتا
کہیں کہیں معاملہ بندی سے کام لے شوخیاں بھی پیدا کی ہیں :
کتنی سندر لگتی ہو
بانہوں کی عریانی میں
تکرار لفظی سے صوتی حسن نے تو کما ل ہی کردیا ہے:
جنھیں تھا زعم بہت اپنی پارسائی پر
وہ گام گام پہ بھٹکے ،ڈگر ڈگر سے گرے
تضاد لفظی کی مثال دیکھیے:
میرا اس کا ملاپ کیا ہوتا !
میں زمیں وہ فلک کا تاراتھا!
خاور وحید آج کے’’ عصر بے چہرہ‘‘میں زندہ رہنے والا شاعر ہے ۔ پاکستانی معاشرے کو آج جس خون آشامی کا سامنا ہے، اس کا اظہار وہ اپنی غزل اور نظم میں اس طرح کرتے ہیں :
لاشوں کے انبار ڈھونڈوں
میں اپنی ماں جائے
کتنے دل کش چہرے تھے جو
مٹی میں دفنائے
لاشے مرے اپنوں کے اٹھانے نہیں دے گا
مقتل سے مجھے لوٹ کے آنے نہیں دے گا
شہر میں قتل عام تھا خاور ؔ
گھر میں محصور مرگیا ہوگا
اسی لیے وہ چلا اٹھتے ہیں کہ عذاب لمحے طویل راتوں میں ڈھل رہے ہیں ۔اس حرف شکایت میں خاورؔ اپنے عہد کے دکھوں کا بڑا مصور دکھائی دیتے ہیں، ایسا مصور جو لفظوں سے تصویر بناتا ہے ، اس کے پاس ہر دکھ اور ہر جذبے کے لیے الگ الگ لفظیات ہیں ۔ اس تناظر میں ہم انھیں صرف جذبوں کا شاعر نہیں کہیں گے بلکہ جذبوں کے ساتھ ان کے ہاں عمیق فکر بھی سفر کرتی ہے ۔یہ پرامن اور شانت زندگی کے متلاشی ہیں اس لیے وہ اپنے انداز میں کہہ رہے ہیں کہ وہ متاع جاں کو بچا رہے ہیں ۔ اس کاوش کے لیے وہ ایک ’’عزم‘‘بھی رکھتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک عزم کے بغیر زندگی آزار ہے اور یہی ’’آزار‘‘آج کی پاکستانی نسل کا مقدر بن چکا ہے ۔خاورؔ نے اپنے مشاہدے سے اس سماج کے ’’ آزار‘‘ کی تشخیص کر لی ہے اور علاج کے لیے ’’ فن‘‘ کا راستہ اختیار کیا ہے ، بانجھ اور تہذیبی بحران سے مملو معاشروں کا علاج فوری اور خون آلود انقلاب میں پنہاں نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے فنون لطیفہ ، عمرانی علوم ، جمہوریت اور اعلیٰ تہذیبی قدروں کے فروغ ہی سے ممکن ہوتا ہے ۔ خاور وحید کی شاعری میں یہ تخلیقی توانائی موجود ہے کہ وہ قومی کلچر اور اعلیٰ انسانی تہذیب کے فروغ اور ارتقاء میں ’’ مین سٹریم‘‘ کی اردو شاعری کے ساتھ مل کر بڑا کردار ادا کر سکتی ہے ۔ لمحہ موجود کی اردو شعری روایت میں ’’ انفرادیت ‘‘ کے حامل شعراء کا بڑا خلا موجود ہے مگر خاور کے شعری امکانات اس بات کے غماز ہیں کہ ان کا یہ شعری سفر کسی تابندہ منزل تک کامیابی سے اختتام پذیر ہوگا کیونکہ ان کے یہاں اردو شعری روایات کے ساتھ جدید لہجہ بھی موجود ہے اور ان کی یہی تخلیقی ادا قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور ا ن کے منفرد ہونے کی دلیل بھی یہی ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے