دھیمی دھیمی سی ہوا ہلکا دھواں
کیوں نہ جی لوں میں یہ کچھ پل کا دھواں
کیا ہوا دراک مناظر کا مجھے
راہ سے چھٹتا ہی نہیں کل کا دھواں
ساحلوں کو ہے دعا آبِ رواں
تپتے صحرا میں سدا جل کا دھواں
شب کی انگیٹھی میں دہکا کے خمار
میری آنکھوں سے فقط چھلکا دھواں
روشنی خود ہے اندھیرے کا سبب
دیکھ لینا کبھی مشعل کا دھواں
چاندنی اوڑھے ہوئے جب تو ملی
تِرے شانے سے نہیں ڈھلکا دھواں
تو نے پی رکھا ہے پیمانۂ مشک
تیری سانسوں میں ہے سندل کا دھواں
کوئی کاٹے نہ پرندوں کے مکاں
ایسے ڈھک لے انہیں جنگل کا دھواں
کیسا ہوگا میں کبھی سوچتا ہوں
میرے دیوانِ مکمل کا دھواں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے