حیا سے،اک شعور بے خودی سے
گریزاں وہ رہا پھر زندگی سے
یہ کیسی کھلبلی سی چار سو ہے
کوئی گزرا ہے شائد زندگی سے
اک احساس زیاں ہر دم رہاپھر
سدا روتے رہے شرمند گی سے
تلاشِ ذات میں پہنچافلک پر
میں کتنا دور تھا تابندگی سے
ہم اس سے کہہ کے بھی کچھ کہہ نہ پائے
جو سب کچھ کہہ گیا تھا سادگی سے
زمانہ ہنس رہا تھا جس پہ خاورؔ
سدا روتے رہے شرمندگی سے