ضیاء الحقی سوچ کے ترجمان ادبی اداروں کے ایوارڈ اس قدر پست اور بدبودار ہوتے ہیں کہ ابھی ماضی قریب تک کسی اصلی اور عوامی ادیب کے لیے ان کا جاری ہونا ایک گالی سی لگتی تھی۔ ایسے ایوارڈ ذلت کی موت مرنے سے بچ اس لیے جاتے ہیں کہ کبھی کبھی یہ ایوارڈ حکمران طبقات کے مخالف ادیبوں شاعروں کو مل جاتے ہیں۔ سوبھوگیانچندانڑیں، اجمل خٹک، عبداللہ جان جمالدینی۔۔۔۔۔۔
اس بار یہ ایوارڈ فہمیدہ ریاض کو ملا ہے۔ جمالیات سے بھر پور بہت ہی خوبصورت شاعر ۔ عوام الناس کی شاعر، جمہوریت و سماجی انصاف کی شاعر، سامراج دشمن، روشن فکر اور فیوڈل مخالف شاعر(میں جان بوجھ کر شاعرہ نہیں لکھتا)۔ اقلیتوں اور محنت کرنے والے لوگوں کے حقوق کی محافظ شاعر۔ شاہ لطیف و شیخ ایاز کی سندھی شاعری کو اردو میں ڈھالنے والی شاعر، مولانا روم کو اردو میں ترجمہ کرنے والی شاعر، گل خان نصیر اور آزاد جمالدینی کے نظریات کی شاعر۔
وہ بہت اچھے افسانوں ناولوں کی مالک ہے۔ فہمیدہ ملائیت اور فرقہ واریت کی سخت مخالف ہے۔ وہ ادب اور عوامی سیاست کو ساتھ ساتھ لے کر چلی ہے۔ انکار کی شاعر۔
لائف اچیومنٹ ایوارڈ اُس کے مندرجہ بالا اعزازات میں شاید ہی کوئی اضافہ کر پائے گا، ہاں البتہ ایوارڈ یافتگان کی لسٹ کو احترام ضرور بخشے گی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے