آسمان سرخ ہو رہا تھا ۔ہوا رکی ہوئی تھی ۔فضا میں ایک جان نکال دینے والی خاموشی تھی؛ یوں کہ جیسے کوئی گناہ سرز دہو گیا ہو۔کوئی کچھ انہونی ہو گئی ہو۔تھوڑی دیر بعد تیز جھکڑ چلنا شروع ہو گئے۔ دھول مٹی اڑنے لگی۔ سانس بندہو رہی تھی۔
پتہ نہیں کیوں سمیرا کچھ دن سے گھبرائی ہوئی سی تھی۔ اک عجیب سا ڈر اس کے وجود سے ٹپک رہا تھا۔ اماں بھی حیران پریشان تھی کہ اسے کیا ہو گیا ہے۔اک ذرا سے کھٹکے پر اس کا رنگ اڑ جاتا اور وہ تھر تھر کانپنے لگتی۔ اماں نے کتنی دفعہ پوچھا بھی کہ کیا ہوا ہے ،مگر ہر دفعہ بس خاموش نظروں سے ماں کو دیکھنے لگتی۔ عجیب سی بات تھی کہ بابا، بھائی، یہاں تک کہ اگر اماں بھی ہاتھ لگاتی توخوف زدہ ہو کر خود کو اپنے اندر سمیٹ لیتی۔
تنگ و تاریک گلیوں میں پلنے والی سمیرا کچرے کے ڈھیر پر اڑنے والی مکھیوں کی طرح ہی بھنبھناتے ہوئے عمر کے دس سال گزار چکی۔ پیوند لگے کپڑوں اور پھٹی پرانی چپل کو گھسیٹتے وہ حسرت و یاس کی صورت بنی رہتی تھی۔ بچی تھی، سو بکھرے بالوں ، زرد چہرے اور بھوک سے بھرے پیٹ کو لیے بھی وہ دوسرے بچوں کی طرح ہنستی مسکراتی بھی تھی اور قہقہے بھی لگاتی تھی۔مگر صاف ستھرے لباس میں ملبوس بچوں کو جب وہ دیکھتی تو پلک جھپکنا بھول جاتی اور انھیں دیکھتی ہی رہ جا تی، حتیٰ کہ کچرے کی بوری کب کی اس کے ہاتھ سے گرچکی ہوتی۔
موسم بدلتے رہے، وقت گزرتا رہا اور سمیرا اسی طرح کوڑے سے پلاسٹک کی بوتلیں ،تھیلیاں اور کاغذ چنتی رہی اور کوڑے میں اپنا رزق تلاش کرتی رہی۔
ایک بات تھی کہ گلو کباڑیے کے پاس جانے سے وہ گھبراتی تھی۔ پتہ نہیں کیوں اسے اس سے ڈر لگتا تھا۔ کتنی دفعہ اس نے بابا سے کہا بھی کہ ،ابا میں گلو چاچا کے پاس نہیں جاؤں گی، نا بھیجا کر مجھے اس کے پاس، وہ مجھے بہت برا لگتا ہے۔
’’ اوئے شرم کر شرم،تیرا چاچا ہے وہ، ارے کیوں وہ شریف آدمی تیری آنکھ میں کھٹکنے لگا ہے۔‘‘ اور سمیرا حیران ہوتی کہ ابا کو وہ گند ہ �آدمی کیوں اتنا اچھا لگتا ہے!
سارا دن سمیرا کچرا چنتی رہی اور جب بوری بھر گئی تو نا چاہتے ہوئے بھی وہ بوری گھسیٹتے ہوئے وہ کباڑیے کی دکان کی جانب چل دی۔
دکان کاٹھ کباڑ سے بھری چھت سے باتیں کر رہی تھی۔ ہر چیز گرد سے اَٹی پڑی تھی۔جگہ جگہ سگریٹ کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ گلو کباڑیا پیلے دانت اور تیل سے چپڑے بال لیے دکان کے تھڑے پر بیٹھ کر ناک میں انگلی مارتے ہوئے سگریٹ پھونک رہا تھا۔ سگریٹ کا دھواں اور بدبو ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔
سمیرا کو دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں۔ مخصوص مکارانہ انداز میں مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے اس نے کہا ،’’ آؤ آؤ سمی، مجھے تیرا ہی انتظار تھا۔ میں نے تیرے لیے مٹھائی اور گڑیا لے کے رکھی ہوئی ہے۔‘‘
،،چاچا یہ سامان لے اور پیسے پکڑا، میں گھر جاؤں گی، دیر ہو رہی ہے۔‘‘ سمیرا نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
’’ارے سمی بیٹا، کاہے کی جلدی ہے، آجا دیکھ کتنی پیاری گڑیا ہے تیرے لیے۔‘‘ گلو کباڑیے نے نہایت بھونڈے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
سمیرا کا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ رکے یا دکان کے اندر جائے؛ مگر بچی تھی، معصوم تھی۔ گڑیا کا سن کر اس کے پیچھے پیچھے چل دی۔ جیسے ہی وہ دکان کے اندر داخل ہوئی، گلو کباڑیے نے شٹر گرا دیا۔
اور پھر وہ ہو گیا جس کا احتجاج آج موسم نے بھی کیا تھا…….. آج آسمان کی بھی آنکھیں سرخ تھیں………. فضا بھی سانس لینا بھول گئی تھی…….. ہوائیں بھی ماتم کناں تھیں……..
آج گڑیا ٹوٹ گئی تھی……….. اس کے ٹکڑے بکھر کر اسی کے بدن میں پھیل گئے تھے!!!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے