تُو سجدہ ریز اور میں جام و سبو اُٹھاؤں
یہ تُو بھی ہے گریزاں ، میں بھی فرار چاہوں
تجھے اُس جہاں میں حاجت حورانِ گل بدن کی
مجھے انتظار کیو نکر ! جنت طلب یہاں ہوں
تُو قرض زندگی دے ، میں نقد کا ہوں قائل
سوداگری میں اچھا ، یاں تُو کہ میں رہا ہوں
آ شیخ میکدے میں، مقصد ہے اک ہمارا
پس مرگ تُو تلاشے، میں یہیں قرار مانگوں
یکساں مقامِ گریہ ، جائے سوال بھی اک
ارماں دلوں میں اک ہی، اظہار بس جدا سا
پروانے اک دیے کے ،شب کور دیدہ ور بھی
یہ اسی لیے تو حاجی ! دیوانہ یار دل کا
تُو سجدہ ریز اور میں جام و سبو اُٹھاؤں
یہ تُو بھی ہے گریزاں ، میں بھی فرار چاہوں