مصنف: کرشن چندر

’غدار‘ کرشن چندر کا وہ شاہکار ناول ہے جو ہندوستان کی تقسیم کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔یہ ایک گہرے طنز، مستقبل کے خوف اور پھر ساتھ ہی ایک بھر پورامید سے پُر ناول ہے۔یہ ایک حساس انسان کے دل سے نکلی دکھی اور غم ناک فریاد ہے۔
ہندوستا ن کی سرزمین کہ جہاں صدیوں سے ہندو اور مسلمان بہت محبت سے بالکل ایک خاندان کی مانند رہتے تھے۔ ان کی خوشی، غم سانجھے ہوا کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے بزرگوں کی عزت کرتے تھے اور ان کی خواہشات کو حکم کا درجہ دیا کرتے تھے۔ کوئی ہندو پانی نہیں تھا، نا ہی کوئی مسلمان پانی تھا۔پتہ نہیں پھر اچانک کیا ہو گیا کہ ہمیشہ سے ساتھ رہنے والے اس قدر متعصب ہو گئے کہ ایک دوسرے کے مذہب، کلچرکے ساتھ رہنا نا ممکن ہو گیا۔محبتیں نفرتوں میں بدلنے لگیں۔ محبتیں بھی ہندو مسلم ہونے لگیں۔۔۔اور میں یہ سب پڑھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ کیا محبت کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے۔۔۔؟ محبت بھی کیا ہندو ، مسلمان، سکھ ہوا کرتی ہے۔۔۔؟ کیا محبت کا عقیدہ ایک ہی نہیں ہوتا۔۔۔؟!
پھر یوں ہوا کہ فسادات شروع ہو گئے۔ ایک ٹکڑا زمین کے حصول میں لاشیں گرنے لگیں۔ نام نہاد تہذیب یافتہ انسان بدتہذیبی کے غاروں کو واپس لوٹ گیا۔
بیج ناتھ کا خاندان جب مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا اور وہ بنا سوچے سمجھے کہ اسے کدھر کو جانا ہے ،چلا پڑا ۔ جب اس نے محسوس کیا کہ اس کی کتیا رومی بھی اس کے پیچھے پیچھے چلی آرہی ہے تو اس نے رومی سے ایسی باتیں کی کہ اگر کوئی زندہ ضمیر انسان وہ پڑھے ، سمجھے اور محسوس کرے تو وہ اپنے تہذیب یافتہ ہونے پر لعنت بھیجے گا۔
وہ کہتا ہے،’’تو کہاں جائے گی کتیا۔ تو حاملہ ہے، تو گابھن ہے۔ تو کتیا ہے، تجھے کوئی ڈر نہیں ہے۔ تو انسان تھوڑی ہے کہ تجھے اپنی جان کا ڈر ہو۔ یہ تو سب تہذیب کی باتیں ہیں ۔ اونچے مذہب اور اخلاق کے جھگڑے ہیں ۔ یہ تلوار تو بہت بلند اصولوں کی حمایت میں نکلی ہے۔شکر کر کہ تیرا گلہ اس سے کاٹا نہ جائے گا۔ شکر کر کہ تو غیر مہذب ہے، جاہل ہے اور بے اخلاق ہے۔ شکر کر کہ تجھے یہ معلوم نہیں کہ مذہب کیا ہے۔ تو نے کبھی سندھیا نہیں کی۔ کبھی پانچ وقت نماز نہیں پڑھی۔ تو کبھی گرجے، مندر، مسجد نہیں گئی۔ تو نے کبھی آزادی کا مفہوم نہیں سمجھا۔ کبھی سیاسی لیڈر کی تقریر نہیں سنی۔ شکر کر کہ تو کتیا ہے ، انسان نہیں ہے۔بھاگ جا، میرے پیچھے مت آ، کیوں کہ میں ایک انسان ہوں اور اپنی جان بچانے کے لیے دوسرے انسان سے بھاگ رہا ہوں۔‘‘
ناول پڑھتے ہوئے ایک گہرے دکھ کا احساس ہوتا ہے کہ انسان دوسرے انسان کے ساتھ محبت خلوص، ایک دوسرے کی عزت کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کے حقوق دیتے ہوئے زندگیاں کیوں نہیں گزار سکتے۔ مذہب جو کبھی بھی ایک دوسرے سے نہیں چھینا جا سکتا، نہ مسلمان سے قرآن چھینا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہندو سے گیتا۔ تو پھر لڑائی کس بات کی؟ اور مزے کی بات تو یہ کہ ہر ایک ہی خود کوٹھیک سمجھتا ہے اور حق پر سمجھتا ہے۔ ہر ایک ہی اللہ کا نام لے کر قتل کیے جا رہا ہے۔ کوئی ست سری اکال کے نعرے کے ساتھ تو کوئی اللہ اکبر کے نعرے کے ساتھ۔ اگر سب ٹھیک ہیں تو انسان کیوں قتل ہو رہے ہیں؟!
’غدار‘ میں یہ تکلیف بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ مرنے والے کی زبان پر آخری نام خدا کا تھا اور مارنے والے کی زبان پر بھی خدا کا نام تھا۔
ایک وہ دور تھا کہ جب انسان غاروں میں رہ رہا تھا ، لباس تک پہننے سے بھی بے خبر تھا۔ خوراک کے اتنے ذ رائع میسر نہیں تھے اور وہ بھر پور طریقے سے درجہ بہ درجہ تہذیب یافتہ ہونے کی دوڑ میں بڑھتے چلے جا رہے تھے اور آج جب وہ غاروں کو خیرآبا د کہہ چکا ہے ، ہر طرف لہلہاتے کھیت ہیں ، خوراک کی بہتات ہے لیکن آج انسان ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر رہا ۔ کہیں مذہب کے نام پر تو کہیں کسی اور نسل کو جواز بنا کر۔
جنگ جو سب کچھ تباہ کر دیتی ہے، اس سے شدید جانی ومالی نقصان ہوا۔ ہزاروں بہنوں کی عزتوں کے چیتھڑے اڑائے گئے۔ بوڑھے والدین نے جوان بیٹوں کی لاشیں اٹھائیں اور اولاد بوڑھے والدین کے جنازوں کو کندھا تک نہ دے سکی۔ آبادیاں ،کھنڈروں میں تبدیل ہو گئیں ۔ کس جیت کی بات کی جاتی ہے۔۔۔؟ کون بتائے گا کہ اس جنگ میں کون جیتا، کون ہارا تھا۔۔۔؟
بس انسان اپنے پیچھے پڑا تھا اور اب تک پڑا ہے، انسان کشی کیے جا رہا ہے۔ نفرتوں کے تعفن میں خود بھی سانس لینے سے قاصر ہے لیکن نفرت کیے جا رہا ہے۔۔۔! خود غرضی کی دوڑ میں اول آنے کے شوق میں۔ آج اتنے سال گزرنے کے بعد بھی ہم کہاں تک سنبھل پائے ہیں، ہم سب اس سے بخوبی واقف ہیں۔
بیج ناتھ جو مسلمان اور ہندو قافلوں کے ساتھ ساتھ رہا اور بڑے قریب سے ہندوؤں اور مسلمانوں کا تجزیہ کرتا رہا ،جس میں وہ اس بات سے بخوبی واقف ہو گیا کہ ہندوؤں مسلمانوں کے دل در اصل اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ اب بھی جڑے ہوئے ہیں جیسے کہ ہمیشہ سے تھے ۔ ہندو اپنے مسلمان ساتھیوں اور مسلمان اپنے ہندوؤں کو دیکھ کر بے ساختہ خوشی کا اظہار کر دیتے لیکن اپنی اپنی بقا کے لیے سب رواں دواں تھے۔
بیج ناتھ اس ساری ذہنی کشمکش سے لڑتے لڑتے بالآخر پُل کراس کر لیتا ہے۔ جہاں اسے اپنا لٹا پٹا خاندان ملتا ہے۔ باپ قتل ہو چکا تھا اور بہن بھی مسلمانوں کے ہتھے چڑھ چکی ہوتی ہے۔ وہ انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے جب مسلمانوں کے قافلے پر حملہ آوروں کا ساتھ دیتا ہے کہ وہاں لاشوں کے انبار میں اسے ایک اکیلا بچہ مل جاتا ہے ۔ وہی بچہ اس کی سوچ کی نہج کو بدل دیتا ہے۔ بیج ناتھ اس کو ایک اچھے اور روشن مستقبل کا استعارہ سمجھ کر گود میں اٹھاتا ہے اور اس طرح اس کے اندر انتقام کی آگ ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔
’’چاچا ! تو مجھے لوٹی دے گا؟‘‘
’’ ہاں، میں تجھے روٹی دوں گا۔‘‘ میں نے اسے بھرائی ہوئی آواز میں کہا،’’روٹی جو ہم دونوں میں مشترک ہے۔‘‘اور پھر میرے چاروں طرف دریا کے اس کنارے سے اس کنارے تک روشنی چمک اٹھی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے