(معلم۔ فروری 1951)
مہ ناز ایک غریب بلوچ کی لڑکی تھی۔
وہ اکثر سنا کرتی تھی کہ اُس کا ہونے والا دُولھا بہت ہی امیر ہے۔ پھر بھی اُس کے دل میں ایک کُرید تھی۔ایک خلش تھی۔ ایک کھٹک تھی جس کے باعث وہ مطمئن نہ ہوسکتی تھی ۔ کیونکہ اس نے سُنا تھا کہ اُس کا دُولھا اتنی زیادہ عمر کا ہے کہ اُس کے سامنے بوڑھا معلوم ہوتا ہے بالکل اُس کے باپ کی طرح۔
آج مہناز کے باپ کے چہرے پر بھی پریشانی اور فکر مندی تھی ۔جانتا تھا کہ اپنی دس سالہ لڑکی کو کس کے ہاتھ سونپ رہا ہے ۔مگر وہ غریب تھا مفلس تھا ۔ اُس بوڑھے سردار سلطان خان نے اُسے دوہزار روپیہ نقد دیا تھا ۔ پھر بھی اُسے یقین تھا کہ اُس کی بیٹی ہمیشہ سونے چاندی کے ساتھ کھیلے گی ۔ بیٹی کا سودا ہوچکا تھا۔ اُس بوڑھے سردار نے اُسے دوہزار روپے نقد دیا تھا۔
سلطان خان ایک ساٹھ سالہ شخص تھا۔ گاؤں میں اُس کی خوب عزت تھی ۔ تمام گاؤں والوں پر اس کے بڑے بڑے احسان تھے اس لئے کسی میں بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ سردار سلطان خان کے سامنے دم مارسکے۔
آج سلطان خان کی شادی کا دن تھا ۔عورتوں نے شادی کے گیت گانے شروع کردیئے ۔بچوں نے شور وشر سے قیامت برپا کردی ۔گھر کے ایک کونے میں مہ ناز اپنی ماں اور سہیلیوں میں بیٹھی سج رہی تھی۔
مہ ناز ایک فرما نبردار بیٹی تھی جسے خاموش جلتے رہنے کی ماں نے نہایت سختی سے تلقین کی تھی ۔اُسے بتایا گیا تھا کہ رسم ورواج کی ہرجائز وناجائزکے سامنے جھک جانے ہی میں تیری اور تیری تمام جنس کی فلاح وبہبود ی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ مہ ناز بچپن سے آج تک کبھی بھی کسی بات میں ضد یا سرکشی کا خیال دل میں نہ لائی تھی۔
لیکن آج وہ بہت بے قرار تھی ۔ وہ اپنی آزادی کے یہ چند آخری لمحوں کو غنیمت تصور کر رہی تھی۔
آخر وہ وقت بھی آیا کہ عورتیں اُسے حجلہِ عروسی کی طرف لیکر روانہ ہوئیں۔
سلطان خان کا نکاح گاؤں کے مولوی صاحب نے پڑھا ۔لوگ اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوگئے۔
عورتیں خراماں خراماں مہ ناز کو لیے جارہی تھیں۔ مہ ناز فوراً پلٹ کر اپنی ماں سے چمٹ گئی ۔ جیسے کوئی خوفناک جانور اُسے کھانے کیلئے آگے بڑھ گیا ہو۔
’’ہائے میری بیٹی ‘‘کہہ کہ ضعیف ماں زورقطار رونے لگی ۔عورتیں سہم گئیں ۔بچے خوف زدہ ہوگئے۔ گانے بند ہوگئے ۔ہنسی رک گئی۔ رونے کی آواز سن کر مہ ناز کا باپ آگے بڑھا ۔ اُس نے مہ ناز کی ماں کو دھتکارتے ہوئے کہا : ’’ہوش میں آؤ مہ ناز کی ماں‘ دوہزار روپیہ معمولی چیز نہیں۔ معلوم نہیں ہم غریب ہیں؟۔ نادان ،تم نہیں جانتی کہ بلوچی جرگہ کی رو سے ایک تنومند نوجوان بلوچ کا خون بہا صرف ڈیڑھ ہزار روپیہ ہے اور ہمیں تو مہ ناز کے لئے دوہزار روپیہ ہاتھ آرہے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔خاموش ۔اس سے زیادہ اور کیا خوشی ہوسکتی ہے کہ سلطان خان جیسے امیر کی دامادی کا شرف ہمیں حاصل ہوگا۔‘‘
ماں کی ناراضگی ۔ سنگ دل باپ کا جبر لڑکی کی چیخ ۔یہ سب سلطان خان دور سے سُن رہا تھا۔ وہ شرم محسوس کررہا تھا ۔ دولت کے نشے میں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ یہ وقت بھی جلد گزر جائیگا ۔میں اپنے عروسِ نوکو جلد ہی خوش کر لوں گا۔
اور پھر وہ سوچنے لگا کہ اس کام میں اُس کی زیادتی بھی تو نہیں ۔یہ لوگ اُسے کیوں نفرت وحقارت سے دیکھتے ہیں انہوں نے اس سودے کا نقد روپیہ اد ا کیا تھا ۔ پھر وہ گنہگار کیوں ٹھہرے ۔اس نے اپنے بوڑھے پن کی کمی کو بالوں خضاب لگانے سے کسی حد تک پورا بھی کردیا تھا ۔ اس کے بدن پر قیمتی لباس بھی بڑے شاندار ہیں۔
سلطان خان شرمندگی اور ندامت سے سرخم کئے چپ چاپ بیٹھا تھا۔ عورتیں مہ ناز کو لئے ہوئے حجلہ عروسی میں داخل ہوگئیں ۔
یکا یک مہ ناز نے نقاب منہ سے ہٹادی ۔ بوڑھے سلطان خان کے چہرے کی جھریوں پر اس کی نظر پڑی ۔ ایسا معلوم ہورہاتھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن زبان میں گویائی نہیں۔
آنکھوں آنکھوں میں اس نے بوڑھے سے رحم کی درخواست کی ۔وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی کہ اے بوڑھے شخص ۔میں ہر گز تجھے نہ چاہ سکوں گی ۔ تو مجھ سے کوئی سُکھ نہ اٹھا سکے گا۔ تو بے رحم ہے تیری نگاہیں بے رحم ہیں ۔قیامت کے روز میں ضرور تجھ سے بدلہ لیکر رہوں گی۔ کیونکہ تونے اپنی دولت کے زور سے مجھے خریدنا چاہا تو میرے باپ کے برابر ہے۔
مہ ناز کا جسم سر سے پاؤں تک کانپ رہا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں بے تحا شا آنسو اُمڈے چلے آرہے تھے ۔ اس کی ایک چیخ لگی ۔ اور وہ فرش پر بے ہوش ہو کر گری۔
حجلہ عروس میں سناٹا چھا گیا ۔ عورتیں خاموش ومبہوت کھڑی تھیں ۔ایسا سناٹا، ایسی اُداسی جسے بلاشبہ قبرستان کی ویرانی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
دوسرے دِن صبح سویرے جب لوگ سلطان خان کومبارکباد دینے آئے۔ تو واپسی پر مہ ناز کا جنازہ کندھوں پر قبرستان تک لیتے گئے۔
غریب مہ ناز ہمیشہ کے لیے آغوش لحد میں جا سوئی۔
دنیا والوں نے اپنی ذلیل ذہنیت سے اُس معصوم روح کو وقت سے پہلے اس دنیا سے اٹھا دیا۔
آہ کب تک ایسی بے کس ہستیاں نشان�ۂ ظلم و ستم بنیں گی؟۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے