مارچ 2017
اِس بارہمیشہ کی طرح مارچ کا شمارہ عورت پر نہیں تھا بلکہ گوادر کے کتب میلے پر تھا جو کہ ظاہر ہے کہ الگ اہمیت کا حامل تھا۔ شونگال:’’ یہ شمارہ عورت ایڈشن نہیں ہے‘‘۔ ایک بہت ہی ہلکے پھلکے اور نہایت ہی خوبصورتی سے سفر کے احوال سے آغاز کرتے ہوئے قاری کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتے ہوئے گوادر تک لے گئے اور پھر وہاں کے کتب میلے اور اس کی جذیات کو اس انداز میں لکھا کہ یوں لگا ہم ہی تو وہ تھے جب دانشور اور ادیب بابا عبداللہ جان پر بات کر رہے تھے تو ہم پہلی صف میں بیٹھے تھے۔
احمد سلیم صاحب نے بابا عبداللہ جان کی ادبی زندگی پر ایک بہت زبردست مضمون لکھا جس میں انھوں نے بڑی تفصیل سے ان کے کئے گئے تراجم ، طلوع اور ماہنامہ بلوچی سے وابستگی، ان کی تصانیف، اور تنقید پر بات کی ۔ ایک بات جو مجھے اس مضمون سے معلوم ہوئی وہ یہ کہ بابا عبداللہ جان نے بلوچی کتابوں پر تبصرے اور تنقید بھی کئے ہیں۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے اپنے مضمون سیاست میں بابا عبداللہ جان کے اس رخ یعنی سیاست پر اس دور سے لکھا کہ جب بابا اسلامیہ کالج پشاور میں زیرِ تعلیم تھے جہاں اساتذہ نے ان کو ایک نئی سوچ دی ۔ اور پھر یوں ہوا کہ آخر دم تک وہ اپنے اصولوں کی جنگ لڑتے رہے ۔ ایک ایسا مضمون کہ جس نے بابا کی سیاست کے ہر گوشے کو قاری پر وا کیا۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن کے دو مضامین شامل تھے جس میں ایک تو ،، گوادر، ادب اور سمندر ،، تھا جس میں انھوں نے گوادر کے کتب میلے کی تفصیل بڑی اچھی طرح بیان کی جب کہ اپنے دوسرے مضمون ’’ خواتین ‘‘ میں انھوں نے بتایا کہ بابا عبداللہ جان نے کس طرح ہمیشہ عورت کی فلاح ، اس کے حقوق کی بات کی ۔ سمو راجہ ونڈ تحریک کا بھی ذکر کیا گیا جو بابا کی ایک دیرینہ خواہش تھی۔ انھوں نے ہمیشہ عورت کی برابری کی بات کی۔
بیرم غوری صاحب نے اپنے خوبصورت مضمون ’’صحافت‘‘ میں بابا عبداللہ جان کی صحافتی زندگی کے کارنامے بتائے جس میں لٹ خانہ کے سٹڈی سرکلز سے لے کر ہمارا بلوچستان کی پوری کہانی کا بیان ہے۔
بلوچستان یونیورسٹی میں مقامی زبانوں میں ایم اے شروع کرانے کا سہراہو یا سٹڈی سینٹر کا قیام سب بابا عبداللہ جان کے سر سجتا ہے۔ انھوں نے عورتوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ذہنی تربیت کی اہمیت پر زور دیتے تھے ۔ یہ سب پروفیسر سحر انصاری صاحب نے اپنے مضمون ’’ تعلیم‘‘ میں نہایت خوبصورتی سے سمیٹا ہے۔
ماہتاک سنگت میں گوادر ڈیکلریشن کو بھی شائع کیا۔
سنگت پوہ زانت کی رپورٹ حال احوال میں شامل تھی جب کہ کتاب پچار میں ماہتاک سنگت کے فروری کے شمارے کا جائزہ تھا جب کہ دوسرا مضمون منشاء فریدی کا نویدِ صبح کے نام سے ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے فرید ساجد کے دو اشعار کی تشریح کی ہے یا ان اشعار کے تناظر میں ہمارے معاشرے کی حالت بیان کی ہے۔ نویدِ صبح ان کا مجموعہِ کلام ہے کچھ واضح نہیں ہوا۔
’’گلوبل مسائل‘‘ کے نام سے اپنے مضمون میں اعظم زرکون نے دنیا کے مسائل بتائے ہیں کہ دنیا ماحولیات، جنگوں، غربت،تعلیم، جبری مشقت، فرقہ ورانہ تشدد اور جنسی تفریق جیسے مسائل سے دوچار ہے جن کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔
بالاچ قادر نے اپنے مضمون میں مادری زبانوں کی ضرورت پر زور دیا جیسا کہ عرصے سے ہم یہ چاہتے ہیں اور بہ آوازِ بلند کہتے ہیں کہ تعلیم مادری زبان میں ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بلوچی زبان ایک قدیم زبان ہے اور اس پر غیر ملکی مصنفین نے بھی کافی لکھا۔
ملک کے ایک ہزار کلومیٹر کے ساحل میں سے۷۷۸ کلو میٹر ساحلی پٹی گوادر اور لسبیلہ پر مشتمل ہے۔مچھلیوں کے 50اقسام میں38 بلوچستان میں ہیں جب کہ سالانہ پیداوار 6 لاکھ میٹرک ٹن ہے۔ نسیم بلوچ کا ’’ساحلِ بلوچستان ‘‘ مختصر سا مضمون ہے لیکن اچھا ہے۔
ایوب بلوچ صاحب کا ایک بہت اہم موضوع پر مضمون Role of intellectuals کے نام سے تھا۔ جس میں انھوں نے دانشوروں کا معاشرے میں کردار پر بحث کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم خود میں برداشت ورواداری پیدا کریں۔ انسانی حقوق کی پاسداری کریں اور سوال کرنے کی حوصلہ افزائی کریں خصوصاًجب سوال نوجوان طبقے کی طرف سے ہو۔
غلام نبی ساجد صاحب کامضمون غلام قادر بزدار’’ ( مرحوم) ‘‘ ایک بہت خوبصورت مضمون ہے جس میں بتایا کہ در اصل تصوف کے گھن چکر میں ہمارے نوجوانوں کو ڈال کر کھوکھلا کر دیا گیا یا پھر رہبانیت کے ذریعے انھیں فرار سکھایا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ’’ اپنے اپنے ایمانیات کی حفاظت کرتے ہوئے بھی کیوں نا عالمِ اسباب میں سائنسی فکر کو اپنایا جائے‘‘ ۔ اور میرے خیال سے یہی سب سے اہم بات ہے۔ یہ ساجد صاحب کا ایک بہت مزیدار مضمون تھا۔
اب آتے ہیں ،قصہ، کی جانب۔ تو سب سے پہلے بات کرتے ہیں بابو عبدالرحمان کرد کے ’’ یہ دنیا والے‘‘کی۔ یہ افسانہ ایک نہایت اہم موضوع پر تھا لیکن بہت جلدی جلدی میں بس سب کچھ سمیٹا گیا۔
اویس معلوم نے اپنے افسانے ’’ مقدس یادوں میں ڈوبتا خواب‘‘ تانا بانا اس خوبصورتی سے بنا کہ مزا آگیا ۔حقیقت کو خواب سے بڑی خوبصورتی سے جوڑا گیا ۔ منظر کشی بھی خوب تھی۔ اچھا افسانہ تھا۔
بارکوال میاخیل نے بریکنگ نیوز کے نام سے پشتو افسانہ لکھا جو آج کل کے حالات کا آئینہ دار ہے کہ کہیں خود کش دھماکے ہو رہے ہیں تو کہیں ٹارگٹ کلنگ ۔ یہ افسانہ بھی ایک ایسے ہی واقعے سے شروع ہوا جس میں ایک نامور شخص کو قتل کیا گیا۔مختلف چینلز کے نمائندے تازہ خبریں دیتے ہیں اور پھر آخر میں وہ نمائندہ خود بھی ایک ایسی ہی خبر بن جاتا ہے۔ ایک اچھی کہانی تھی ۔
بات شاعری کی کی جائے تو اس دفعہ کے شمارے کے حصے میں بہت حسین شاعری آئی کہ جی باربار پڑھنے کو چاہا۔ نظم زہرا بختیاری نژاد؛ احمد شہریار کی سب سے زبر دست رہی۔ ایک ٹکڑا پڑھیں اور مزے لیں؛
میں گھر کی کھڑکی کھولتی ہوں
تو گلی سے تمھاری خوشبو آتی ہے
میری دیوانگی کا ایک حصہ
گلی میں رہ جاتا ہے۔
اور پھر پڑھئے پابلو نرودا؍سلمی جیلانی کی نظم:
تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو
گر سفر نہیں کرتے
گر مطالعہ نہیں کرتے
گر زندگی کی آوازیں نہیں سنتے
گر خود کو نہیں سراہتے۔
سبین علی کی نظم ،، ادھوری نظمیں (سپیشل بچے)
بہت اچھی تھی۔
غزل اس دفعہ محسن چنگیزی ااور وصاف باسط کی زبردست رہی۔
محسن چنگیزی کہتے ہیں ؛
یہ منحرف ہے پرندوں کی دوستی سے بہت
ہے اس شجر پہ برا وقت آنے والا کوئی
وصاف کہتے ہیں؛
روز جاتے تھے بہت دور تلک ہم دونوں
پر یہ معلوم نہیں میں کہاں ہوتا تھا
اس کے علاوہ ڈاکٹر فاطمہ حسن، بلال اسود ،ثروت زہرا کی بھی بہت خوبصورت شاعری تھی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے