چار مجھ ایسے کٹر سندھی ایک جگہ کھانا کھارہے تھے،اور سندھ کی سیاست پر گفتگوکررہے تھے۔چاروں ہی بڑے جوش اور جنون میں تھے۔
جس جوان کا نام قاسم تھا،اس نے کہا،’’ ان کی اتنی مجال کہ ہمارے سامنے ڈینگیں مارتے ہیں!‘‘
احمد نے کہا،’’نہ صرف ڈینگ مارتے ہیں بلکہ ہمارادم نکال رہے ہیں۔‘‘
صدیق نے بوٹی چباتے ہوئے کہا،’’ انہوں نے ہماری ناکہ بندی کردی ہے،ہماری بات چیت پر بھی پابندی لگادی ہے۔‘‘
قدیر نے بھی منہ کھولا،’’ ہم پر یوں چھاگئے ہیں کہ جیسے فاتح ہوں۔ہماری ہر چیزپر اپنی مرضی مسلط کررہے ہیں۔زبان،ثقافت،ادب،ہم پر اپنی ہرچیز تھوپ رہے ہیں۔‘‘
’’ لیکن یہ سب کچھ کیوں اور کس طرح ہورہا ہے؟‘‘
’’ کیوں کہ وہ چالاک ہیں۔‘‘
’’ وہ اٹکل باز ہیں۔‘‘
’’ میں سمجھتا ہوں کہ وہ ابن الوقت ہیں۔‘‘
’’ آپ بلکل ٹھیک فرمارہے ہیں۔‘‘ قاسم نے کہا،’’ لیکن خامی تو ہمارے اندر بھی ہے۔‘‘
’’کون سی خامی؟‘‘
’’ ہم متحد نہیں ہیں۔‘‘
’’ تو پھر متحد ہوجاتے ہیں۔‘‘
’’ ہاں،ہمیں آپس میں متحد ہونا چاہیے۔اتحاد میں قوّت ہے۔‘‘
اس درمیان صدیق بوٹی چباکر اٹھا۔وہ ہاتھ دھونے کے لیے کمرے سے باہر نکل گیا۔
’’صدیق بھی ایک نمبر کا شوباز ہے۔‘‘ احمد نے کہا۔
دیگر دو نے بھی احمد کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’ واہیات ہے۔‘‘
’’ مجھے تو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔‘‘
اس دوران صدیق ہاتھ دھوکر واپس آگیا۔پھر احمد ہاتھ دھونے باہر گیا۔
قاسم نے کہا،’’احمد بھی نا بڑی سطحی طبیعت والا ہے۔‘‘
ہاں، سولہ آنے صحیح کہتے ہو۔‘‘
’’ اسے تو جُوتے پڑنے چاہییں۔‘‘
احمد ہاتھ دھوکرلوٹ آیا ۔ قاسم ہاتھ دھونے کے لیے باہر گیا۔
قدیر نے کہا،’’ قاسم کو اپنے آپ کے متعلق بڑی خوش فہمی ہے۔‘‘
’’ حالانکہ ہے وہ ایک ٹکے کا آدمی۔‘‘
’’ اپنے آپ کو لیڈر سمجھتا ہے۔ہونہہ! واہیات۔‘‘
قاسم واپس آگیا۔قدیر ہاتھ دھونے باہر گیا۔
صدیق نے کہا،’’قدیر بھی اپنے آپ کو کوئی بڑی چیز سمجھتا ہے۔‘‘
’’ بڑی عیاشیاں کرتا ہے۔‘‘
’’ ہے تو کنگال آدمی۔‘‘
’’ اتنی اکڑکیوں دکھاتا ہے!‘‘
قدیر ہاتھ دھوکر لوٹ آیا۔
پھر وہ چاروں میرے ایسے کٹر سندھی جوان چائے پینے کے لیے بیٹھ گئے۔
صدیق نے کہا،’’ ہاں،تو اتحاد کیسے پیدا کیاجائے؟‘‘
’’ اتحاد ہے، مضبوط اتحاد ہے۔کون کہتا ہے کہ ہم آپس میں متحدنہیں ہیں۔‘‘
’’ بالکل۔تبھی تو ہم ایک ہی میز پر کھاناکھانے کے بعد چائے پینے کی تیاری کررہے ہیں۔‘‘
چاروں کٹر سندھی جوان پہلے تو ہنسے پھر کورس کی آوازمیں کہا،’’ ہم اپنی بات تھوڑی کررہے ہیں،ہم چاروں تو آپس میں اتحاداور اتفاق کے سبب فولاد بنے ہوئے ہیں۔ہم تو دوسروں کی حالت پر افسوس کررہے ہیں۔‘‘

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے