محاذِ عشق پہ ضد اپنی ہار دیں صاحب
یہ کچا خول انا کا اتار دیں صاحب
یہ بار بار میں پھر کیوں یہاں وہاں دیکھوں
ٹکیں بھی آپ مجھے بھی قراردیں صاحب
ہے خوب آئینہ آگے کھلی ہوئی زلفیں
مرے دنوں کے بھی گیسو سنواردیں صاحب
کبھی کبھی تو مرے دل کی راہ پر بھی چلیں
یہ خود سری بھی کبھی خود پہ وار دیں صاحب
ہمارے واسطے جب آپ سب سے روٹھے ہیں
ہمیں منانے کا بھی اختیار دیں صاحب
یہ شہر اپنا ہے تو کام کے علاوہ بھی
بلاجواز یہاں دن گزار دیں صاحب
پھر آپ چاند ہوئے دوست بن گئے ہالہ
دعائے نور کا خود کو حصار دیں صاحب
یہ کچی ہستی کے بھوکے ہیں جلد باز بھی ہیں
انہیں یہ بیر بھی کچے اتار دیں صاحب
عجیب لائیں گے ہم سب وضاحتیں اپنی
نصیبِ رو بروئی ایک بار دیں صاحب

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے