نہیں ، کچھ نہیں ہے کہیں
کوئی میں ہوں نہ تو
اب نہ آزار ہے ، آرزو بھی نہیں
خاک امروز سے
شہر نو روز تک
بس دھواں ہے دھواں
جس میں آنکھیں سلگتی ہیں ، تکتی نہیں
دھول اڑتی ہے ہر سو
یہاں سے وہاں تک …

مگر ۔۔ کوئی بارش سی تھی
ان دلوں میں کبھی
کوئی مہکار تھی ۔۔۔۔۔۔.
نم آنکھوں کی تہ میں اترتی ہوئی نیند تھی
اور خواب تمنا کی کروٹ سے
ہلچل تھی ، بستر کی شکنوں میں تھی ۔۔۔
روشنی تھی کہیں
جس میں رستہ دکھائی بھی دیتا تھا
چلتا بھی تھا
کوئی دالان تھا
پھول مہکے ہوے ، رنگ بہکے ہوے تھے کبھی
مہرباں رخ سے جھڑتے ہوے پھول
قدموں میں گرتے ہوے ۔۔
ہر طرف دل میں گرہیں لگاتی
ہوا چل رہی تھی

اب نہ ہاتھوں کی گرمی ، نہ دل کی تپش ۔۔
ابر اندیشہ چھایا ہوا ہے
برسنے کو ہے
اور مٹی پکڑتی ہے
پاتال کی سمت کھینچے چلی جا رہی ہے ۔۔۔
آرزو کے ہر اک لفظ پر
اور موجود و رفتہ کے رخ پہ
غبار نفی بن کے چھاتی چلی جا رہی ہے

سفر کیا ہوا
یہ دماغ اب کسے ؟
اب تو ہم کو پوھنچنا ہے اس حد تلک
جس کی حد ہی نہیں
اس مکان ابد تک
جو کس کا نہیں
جو کسی کا نہیں !؟

اور طے یہ ہوا
کچھ نہیں ، کچھ نہیں ہے مرا
میرے اطراف میں
خواب کو دیکھ لیتا ہوں
اب خواب میں ..

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے