اپریل2017

سنگت پڑھنے کی ایسی لت پڑی ہے کہ جوں ہی مہینے نے ابھی اپنے سفر کا آغاز بھی نہیں کیا ہوتا کہ سنگت کا انتظارشروع ہو جاتا ہے۔ مہینے کا چاند گھٹتا جاتا ہے اور انتظار کا چاند بڑھتا چلا جاتا ہے۔ سو ہمارا انتظار ختم ہوا اور اپریل کا ماہتاک سنگت میرے ہاتھ تک پہنچ گیا تو جناب ادھر سنگت ملا اور ادھر ہم نے پڑھنا شروع کر دیا۔ اور ہمیں کیسا لگا تو وہ بتاتے چلیں۔
شروع کرتے ہیں شونگال سے جو’پاپولر افکار‘ کے نام سے تھا ۔
وقت رکا نہیں ، چل رہا ہے، دھیما دھیما ہی سہی ۔ اس مضمون میں لکھا ہے کہ ،’’ ہر عوامی حساس معاملے کو پاپ میوزک کی طرح اندر سے کھوکھلا کر کے اس کے چھلکے ہی کو مقبول بنایا جاتا ہے۔‘‘تعلیم جو شعور دیتی ہے، یہی شعور عورت کو غیر محسوس اندا ز میں منظم کرے گا اور منظم کیے جا رہا ہے۔ دھیمی چال سے اور کچھوے کی یہی چال بالآخر ہر حساس معاملے کو Pop کرنے والوں کے نعرے خود Pop Corn بن کر پھٹ جائیں گے، لیکن یہ سب وقت مانگتا ہے ۔ یہ کوئی حساب کی طرح جمع تقسیم کر کے نہیں بتایا جا سکتا کہ فلاں وقت پر اتنے ماہ یا سال بعد یہ کچھ ہو جائے گا۔فیصلے تو خود وقت کا تعین کر کے وارد ہو جاتے ہیں۔ عورت اپنا ونڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہو کر رہے گی۔الغرض ہمیشہ کی طرح شونگال بہت اچھا تھا۔
’’ انگئی ؛ مزاہمتی نسوانی چیخ‘‘ بارکوال میاخیل نے پشتو کی ایک صنف انگئی پر لکھا ہے ۔ اس صنف سے بہت کم لوگ واقف ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے معنی فریاد ، چیخ ، گونج کے ہیں ۔ عورت خو دپر ہونے والے ظلم کو انگئی کی صورت میں سماج پر وا کرتی ہے۔ بارکوال نے اپنے مضمون میں مختلف ظالمانہ رسوم سے متعلق انگئی کی مثالیں بھی دی ہیں۔ بہت اچھا مضمون ہے۔
عورتوں کا عالمی کردار اور ہمارا سماج؛ جی ہاں رونا تو یہی ہے، ڈاکٹر عطا اللہ صاحب کہ ہم صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی طور پرقبائلیت کا شکار ہیں اور جب ذہنی قبائلیت سے نجات پائیں گے تو ہی کامیابی حاصل کریں گے۔ آزاد ذہن کے ساتھ جو تحریک چلے گی ،اسے کامیابی سے کوئی نہیں روک سکتا۔
’’ میر مٹھا خان مری‘‘ 1912ء میں پیدا ہونے والے شاعر خضر، در گالِ اقبال کے مصنف، مست توکلی اور رحم علی کو روشناس کرانے والے بزرگ اور ہمارے بزرگوں کے بھی استاد میر مٹھا خان مری کے بارے میں ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی ایک خوب صورت تحریر۔
اگلا مضمون دراصل بورخیس کے ایک انٹرویو کا بلوچی ترجمہ ہے۔بورخیس سے دلچسپی رکھنے والے بلوچی کے قارئین کے لیے یہ خاصے کی چیز ہے۔اسے شاہی بلوچ نے ترجمہ کیا ہے۔ لیکن اس کا ماخذ نہیں بتایا گیا کہ یہ کہاں سے ترجمہ کیا گیا، یا انٹرویوکس نے لیا ہے۔ کیوں کہ سوالات پوچھنے والوں میں دو نام دے گئے ہیں۔بورخیس کا مختصر تعارف بھی ہوتا تو یہ قارئین کے لیے زیادہ مفید ہوتا۔
دوسرا بلوچی مضمون حنیف المراد کا ہے جو عبداللہ جان جمالدینی کی حیات و خدمات کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ گوادر میں ہونے والے ادبی میلے میں عبداللہ جان کے سیشن میں پڑھا گیا۔ اس میں ماما عبداللہ جان کی شخصیت اور ان کے کام کو مختصر مگر جامع اندازمیں پیش کیا گیا ہے۔
کسی بھی زبان کو مرنے سے بچانے کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے کہ اس زبان پر کام کیا جائے اور اس لحاظ سے اس کے لیے سب سے بڑا میدان ادب کا ہے۔ ڈاکٹر غلام محمد کھیتران کا مضمون ’’ کھیترانی زبان‘‘ ہمیں بتاتا ہے کہ کھیترانی میں ادب پر کام کرنے کی بے تحاشا ضرورت ہے کیوں کہ زندہ زبانوں کو مرنے سے بچانا بہت ضروری ہے۔
شاہ عبدالطیف ؛ ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کا خوب صور ت الفاظ ، مزیدار فقروں سے مزین ایک حسین مضمون جو صرف پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مزہ آگیا پڑھ کر۔ آپ بھی چند ایسے ہی فقروں کا لطف لیجیے:
’’عشق کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ یہ ایک ایسی قوتِ متحرکہ ہے کہ جامدو ساکت روح کی طرح جامد و ساکت سماج بھی لہروں کے تھپیڑوں کے نشانے پر آجاتا ہے۔ جنگ کا میدان گھر بن جاتا ہے اور گھر عشق کی عبرت کا نشان‘‘۔
اور یہ پڑھیے’’ اُسے اب شہہ مرید ہی کی طرح کسی برہنہ کندھے کو دیکھنے کی ضرورت نہیں رہی تھی کہ اس کے بارہ کے بارہ بند دوڑ چکے تھے۔‘‘
اثیر عبدالقادر شاہوانی کا ایک کافی طویل مضمون مُلا محمد حسن براہوئی کی شخصیت اور ان کی شاعری پر ایک بہت اچھا مضمون لکھا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ بلوچستان کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر تھے اور انھوں نے چار زبانوں فارسی، بلوچی ، براہوی اور اردو میں شاعری کی ہے۔ ان کا زیادہ کام فا رسی زبان میں ہے۔ یہ مضمون ابھی جاری ہے، دیکھتے ہیں کہ وہ مزید کس طرح ملا محمد حسن کی شخصیت کے مختلف گوشوں کو سامنے لاتے ہیں۔
پوہ زانت میں ہی ایوب بلوچ صاحب کا انگریزی میں مضمون ہے جس میں انھوں نےPIA کی ایک ایئر ہوسٹس کے انسان دوست رویے کے بارے میں لکھا ہے کہ کس طرح اس نے ایک مریض کو کراچی کے برے حالات میں بھی ہسپتال بھیجنے میں مدد کی۔
حال احوال میں اس بارآل پاکستان ادبی کانفرنس کی رپورٹ شامل تھی جو کہ لاہور میں منعقد ہوئی تھی جب کہ کتاب پچار میں چار تبصرے شامل تھے جن میں ایک تو مارچ کے سنگت کا جائزہ تھا۔ جب کہ دوسرا عابدہ ہی کا مضمون ’’ عورت تحریک‘‘تھا جو دراصل مضمون ہی تھا دو کتابوں کے حوالوں کے ساتھ ۔ یہ در اصل کسی کتاب پر تبصرہ نہیں تھا لیکن اسے کتاب پچار میں رکھا گیا۔
تیسرا تبصرہ دانیال طریر کی کتاب’ خواب کمخواب‘ پر منیر فیاض نے نہایت خوب صورتی سے کیا۔ اس سلسلے کا ایک اور تبصرہ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے وحید نورکے پہلے مجموعے ’’ سکوت بول پڑا‘‘ پر کیا۔
اور اب چلتے ہیں قصہ کی جانب۔ اس ماہ کے سنگت میں قصے اور شاعری کا حصہ بہت زبردست رہا۔ قصے میں ، میں سب سے پہلے جس افسانے کا ذکر کرنا چاہوں گی وہ ہے اسرار شاکر کا ،’’ دو شادیوں کے بیچ، بے پناہ محبت اور موت کا حال‘‘۔ بہت ہی خوب صورتی سے کہانی کا تانا بانا بُنا کہ ایک دل نشین شاہکار تخلیق ہوا۔ عورت کی محبت کے عجیب رخ کواس قدر خوب صورتی سے دکھایا گیاکہ بس مزا آگیا کہ اپنے محبوب کے ساتھ کوئی شراکت گوارا نہیں کہ اس شراکت کے بدلے وہ اس کی موت کو بھی قبول کرنے کے لیے تیارکہ اس کا محبوب مرے بھی تو بھی صرف اس کا ہو کر۔گو کہ یہ ایک سخت رویہ ہے عورت کا لیکن بس ہے۔حسین الفاظ اور جملوں کا مرقع تھا یہ افسانہ۔
ماہتاک کا دوسرا افسانہ جو لطف دے گیا، وہ س۔ م۔ ساجد کا ’اوور ٹائم‘ ہے۔ ایک غریب خاندان کی غریب لڑکی کی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا جو اپنے شب و روز کو بدلنے کے لیے محنت مزدوری کرنے لگتی ہے اور وہیں گارمنٹ فیکٹری میں محبت کے گھن چکر میں گھر جاتی ہے۔ اسی محبت کے ہاتھوں فریب کھاتی ہے اور فریب دینے والی اس کی اپنی ساتھی ہوتی ہے جو اوور ٹائم کے نام پر اس بندے سے ٹائم لیتی ہے۔
عورت کی اپنی ایک شناخت ہے ۔ وہ ایک مکمل انسان ہے۔ ایسے میں اس کے نام کے ساتھ باپ یا شوہر کے نام کے لاحقے سابقے کیوں لگانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے۔ اس کی اپنی شناخت کو معاشرہ تسلیم کیوں نہیں کرتا؟ یہی کہانی ہے ،’’ امراۃ کی پہچان‘‘ کی جسے سلمی جیلانی نے بڑی خوب صورتی سے نبھایا ہے۔
امر جلیل کے دو سادہ مختصر مگر بہت اچھے افسانے سنگت کا حصہ رہے جنھیں ننگر چنا نے ترجمہ کیا۔ ان میں ایک ’’سندھیوں کا اتحاد‘‘ اور دوسرا افسانہ’’ میں وڈیرہ نہیں ہوں‘‘۔
دلِ زندہ، سمیرا کیانی کا قصہ تھا جس کی شروعات بہت اچھی تھی لیکن چھپنے کے مراحل میں یہ کہانی پوری چھپنے سے رہ گئی۔ نامکمل کہانی بیٹے اور بیٹی میں فرق کے حوالے سے معاشرے کے رویے کی عکاسی ہے۔
اب چلوں گی اپنے پسندیدہ حصے کی جانب۔ جی ہاں بالکل ٹھیک سمجھے آپ، شاعری!
رخسانہ صبا کی طویل نظم’’ جہاں گرد‘‘ پڑھیں تو دل کی ایک عجیب کیفیت ہو جاتی ہے جو بس بیان نہیں کی جا سکتی۔ آپ بھی ایک ٹکڑا ملاحظہ کریں ۔
مجھے آج بھی گلا ہے
جہاں گرد! تم نے ہمیشہ
ان آنکھوں میں تعبیر کے صرف سپنے سجائے
مری نیند کے دام سستے لگائے
آمنہ ابڑو کی نظم ’’ شازیہ کی بیٹی‘‘ بھی لاجواب ہے۔
ثبینہ رفعت کی شاعری کی تو کیا ہی بات ہے۔ وہ کہتی ہیں؛
کیوں نہ
خدا مانوں تمھیں
اتنا دور ہو کے بھی
ساتھ ساتھ رہتے ہو
شبنم شکیل کی نظم ’’ موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والی‘‘ بھی اچھی رہی۔
سعدیہ بلوچ کہتی ہیں؛
دلوں میں جنمی محبت
جس کو سینے کے لیے
سانسوں کی گرمی دی تھی
جس کے حلق میں
چونچیں بھر بھر کے ارمان ٹھونسے تھے
اس کے پر نکل آئے ہیں
اب یہ نہیں ٹکے گی
آؤ دل بڑا کر کے
اسے گھونسلے سے آزاد کر دیں
اس کے علاوہ نور محمد شیخ کی نثری نظم ’’ عورت: سدا روشنی دینے والی شمع‘‘ بھی زبردست رہی ۔
فاطمہ حسن کہتی ہیں؛
خیمہ برف میں
حدتِ عشق سے
پرسکوں ہو سکوں
اس کی قربت ملے
ایسی شدت ملے
واہ ڈاکٹر صاحبہ کیا کہنے ۔ مزے کی نظم ہے۔
احمد شہریار کی نظم’’ فوسل‘‘کا ذکر نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔اچھی نظم ہے۔
شاعری کے حصے میں زہرہ نگاہ، نسیم سید،وصاف باسط ، ثروت زہرہ اور مندوست کی بھی شاعری شامل تھی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے