شمع فروزاں: مہکتی یادوں کا گلدستہ
کتاب : شمعِ فروزاں
مصنف: عبداللہ جان جمالدینی
صفحا ت : 80
مبصر : عابدہ رحمان
بابا عبداللہ جان نے اپنی کتاب’ شمعِ فروزاں‘ میں حالات و واقعات کے تانے بانے کو اس خوب صورتی سے جوڑا ہے اور اس مہارت سے انھوں نے شخصیات کو موتیوں کی صورت جگہ جگہ پرو کرایک حسین شاہکار بُن لیا کہ پڑھتے ہوئے لطف آگیا۔
کتاب جو شمعِ فروزاں سے شروع ہوئی، وہ شمعِ فروزاں کہ جس کی روشنی چاروں اَور پھیل کر ہر شئے کو منور کر رہی ہے۔ بابا عبداللہ جان لکھتے ہیں کہ قبائلی معاشرے کی طاقتوں نے ایک حاجی محمد مراد صاحب کی زندگی کا چراغ گُل کر کے یہ سمجھ لیا کہ وہ ظلمتوں کو تا ابَد قائم رکھنے میں کامیاب رہے ،مگر یہ ان کی بھول تھی کہ روشنی کا یہ علَم ان کے بیٹے ڈاکٹر شاہ محمد مری نے تھام کرانسان دوستی اور علم پھیلانے کا جو مشن لے کر چلے، فطرت ان کے اس عمل میں ان کے ہم قدم ہے۔
کتاب ’’شمعِ فروزاں‘‘ کا اصل موضوع تو بابا عبداللہ جان نے ڈاکٹر شاہ محمد مری کو بنایالیکن انھوں نے بے شمار ایسی شخصیات کا ذکر اپنی تحریر میں کیا کہ جنھوں نے انسانیت کی بڑی خدمت کی اور جن کا ذکر کیا جانا بڑا ضروری بھی تھا۔با با عبداللہ جان کی کوئی بھی تحریر پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم کسی بہت ہی خوب صورت اور صحت افزا مقام پر گئے ہیں ۔ ٹہلتے ٹہلتے کہیں دور جا نکلے ہیں اور راستے میں درخت تو کبھی پھول، پہاڑ تو کبھی آبشار ہمیں شخصیات اور واقعات کی صورت نظر آتے ہیں اور ہم ان سے محظوظ ہوتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی ڈاکٹر امیرالدین کا ذکر آجاتا ہے تو کبھی ڈاکٹر شاہ محمد مری کا،کبھی سی آر اسلم صاحب سامنے آجاتے ہیں تو کبھی پروفیسر مجتبیٰ حسین صاحب، کبھی جمال شاہ، اکرم دوست اور فریال گوہر کے آرٹ کے رنگ بکھرے نظر آتے ہیں تو کبھی فہمیدہ ریاض کی شاعری کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔لیکن یہ بات طے ہے کہ جن جن کا بھی ذکر بابا عبداللہ جان کے قلم نے کیا وہ سب جنونی تھے، جنونی ہیں اپنے کام کے معاملے میں، خود سے سے کمٹمنٹ کے معاملے میں۔۔۔! کمٹمنٹ، انسانیت کی خدمت!
بابا عبداللہ جان نے اپنی بیماری کے ابتدائی دور میں دوستوں کی خواہش پرماہنامہ ’نوکیں دور‘ میں اپنی یاداشتیں ’لٹ خانہ‘ کے نام سے لکھنا شروع کی۔ یہی دور تھا جب تمام چاہنے والے بابا عبداللہ جان کے پاس آتے، گپ شپ کرتے، مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی ۔ اس محفل کو جمعہ پارٹی کا نام دیا گیا ،سرکاری چھٹی اتوار طے پائی تو جمعہ پارٹی، سنڈے پارٹی بن گئی ۔ بابا اپنی کتاب میں بڑے مزے میں کہتے ہیں ،’’ملا پھر اسے مشرف بہ اسلام کرنے کے لیے جمعہ کی تعطیل میں بدلنے پربضد ہیں ۔ دیکھئے ہماری جمعہ پارٹی جو اتوار پارٹی بن گئی، کب مشرف بہ اسلام ہو کرپھر جمعہ پارٹی بن جائے۔ہم ملا
نہیں، ہمیں آم کھانے سے غرض ہے نہ کہ پیڑ گننے سے۔‘‘
بابا عبداللہ جان نے ’شمعِ فروزاں‘ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کانفرنس میں کراچی اور لاہور کے جمہوریت پسند مصنفین کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا جس میں بلوچستان کے ادیبوں اور دانش وروں نے شرکت کی تھی۔
’شمعِ فروزاں‘ میں قلم کی بات کی گئی، کتاب کی بات کی گئی ، انسانیت کی بات کی گئی لیکن اس انداز سے کہ ذہن پر بوجھ نہ ہو اور قاری خصوصاً نوجوان قاری تک بات پہنچ جائے۔ وہ کہتے ہیں،’’ بد بخت ہے وہ انسان جو قلم بھی رکھتے ہیں ، کتاب بھی پڑھ سکتے ہیں مگر انسان ترقی ، امن اور محبت سے نابلد ہیں۔‘‘
پھر ایک اور جگہ بابا کہتے ہوئے نظر آتے ہیں :’’ انسانی معاشرہ اور اس میں جو ویلیوز ہیں، وہ کنجی ہے انسانی فکر و عمل کی۔ زندگی جسے کہتے ہیں وہ نتیجہ ہے زندگی کی ارتقاکا۔ اس میں انسان نے Myth ، مذہب، زبان ، تحریر، جنگ، نفرت، محبت، ہنر، ادب، تہذیب۔۔۔ نہ جانے کیا کیا سیکھا اور ان کی ترقی ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں زبان و تحریر سب سے بہتر ترقی ہے۔‘‘
کتاب کی ابتدا بھی ڈاکٹر شاہ محمد مری سے ہوئی اور اختتام بھی انہی شخصیت کے نام سے۔ بابا عبداللہ جان نے لکھا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے ’نوکیں دور‘ شروع کر کے شورش بابو کی یاد تازہ کر دی اور پھر مزید خوب صورت انداز میں موجودہ ماہتاک ’سنگت ‘شروع کیا۔’ سنگت ‘جو پاکستان کے علاوہ ہندوستان میں بھی پڑھا اور پسند کیا جاتا ہے۔ ’شمعِ فروزاں‘ میں بابا عبداللہ جان لکھتے ہیں کہ ،’’شاہ محمد مری کھوجی طبیعت رکھتے ہیں اور اپنی اس خوبی کی وجہ سے ہی انھوں نے مختلف موضوعات مچھیرے، کوئلے کے کانوں کے مزدور، عورت کی تاریخ پر تحقیق کی اور ان کی تحریریں ان موضوعات پر سامنے آئیں۔‘‘
بابا عبداللہ جان کی حسین تحریر کا انت ان الفاظ میں ہوتا ہے کہ،’’ڈاکٹر شاہ محمد مری ایک سچے انسان ہیں۔ سچ اور سچائی کے بارے میں سوچتے ہیں،سچ کو پسند کرتے ہیں، سچ سنتے ہیں، سچ بولتے ہیں اور سچ لکھتے ہیں۔ لہٰذا اگر انھیں’ شمعِ فروزاں‘ نہ کہوں تو بڑی زیادتی ہوگی۔‘‘
بابا عبداللہ جان نے اپنی اس مختصر کتاب میں بہت کچھ بہت اچھی طرح سمیٹا ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے