شِکِستہ لَشکَروں کی تِشنِگی ہوں
میَں صحراو¿ں کے ساحِل پر پڑی ہوں

ہمیِشہ جو رہے وہ نیِستی ہوں
بَقا کے دائروں میں گ±ھومتی ہوں

تِرے سِینے میِں ہوں محوِ سفر میَں
خلاءہوں اور تجھ مِیں پھیلتی ہوں

میَں اِس لمحے سے پہلے جی اٹھی تھی
مَیں اِس لمحے سے پہلے مَر چکی ہوں

یا ہو±ں آواز وحشی شورِشوں کی
یا ہَستِ بیکَراں کی خام±شی ہوں

یا نَخلِستان جیسی مَرگ ہوں میں
یا خ±ون اور پِیپ پیتی زندگی ہوں

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے