مجھے ادب وغیرہ سے کوئی خاص دلچسپی نہیں کیو ں کہ میں ہمیشہ سے سائنس کا طالب علم رہا ہوں اور سائنس کے طالب علموں کو عام طور پر اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ ان باتوں میں وقت ضائع کرتے پھریں۔ کافکا کی یہ کہانی بھی میں نے اتفاق سے پڑھ لی تھی۔ ہو ایوں کہ میں ایک سرکاری کام کے سلسلے میں امریکہ گیا ہوا تھا۔ دوہفتے کا دورہ تھا۔ واپسی پر ایک ہفتے کے لیے میں اپنے بھائی کے ہاں جا ٹھہرا جو بیس برس سے امریکہ کا شہری ہے۔ اس نے میری خوب آؤ بھگت کی، گھمایا پھرایا اور جب میں ائر پورٹ کے لیے روانہ ہونے لگا تو ایک نیا نکور آئی فون مجھے تھما دیا۔
’’راستے میں جب فلمیں دیکھ دیکھ کر تھک جاؤ، تو اسے کھنگال لینا۔میں نے اس میں کئی دلچسپ پروگرام ڈال دیے ہیں ، اور 100کتابیں بھی ڈاؤن لوڈ کر دی ہیں۔‘‘
’’100 کتابیں؟‘‘،میں نے حیران ہو کر پوچھا
’’ہاں ہاں۔ ان میں ہر طرح کی کتابیں ہیں، ٹاکنگ ڈکشنریاں، پاپولر وزڈم بکس اور عالمی ادب کے شہپارے۔‘‘
میں نے قدرے تعجب سے اسے دیکھا اور کچھ نہیں کہا۔
مجھے بھلا ان کتابوں سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی، میں تو ایک سائنس دان ہوں، ایک بڑے تحقیقی ادارے میں ملازم ہوں جہاں ایک خاص قسم کی پروٹین بنائی جاتی ہے۔ یہ پروٹین انسانی دماغ پر تیزی سے اثرا نداز ہو کر اس کی کارکردگی کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ ہمارا ادارہ پہلے تو حکومت کے زیر انتظام تھا پھر آہستہ آہستہ اس کے منفعت بخش پہلو نے نجی کمپنیوں کو متوجہ کیا اور حکومت نے اپنے مالی خسارے سے نجات پانے کے لیے اس کے حصص نجی کمپنیوں کو فروخت کر دیے۔ یوں تجارتی مقاصد اس کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے لگے اور پروٹین کی کوالٹی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔یہ اثرات پروٹین کے صارفین تک پہنچے اور ان کی دماغی کارکردگی متاثر ہونے لگی۔ اس کے نتیجے میں پورے ملک کی معیشت زبوں حال ہو گئی۔
لیکن اپنی نوکری کی تفصیلات کا میں بعد میں ذکر کروں گا۔ پہلے کافکا کی کہانی کی بات ہو جائے۔
ہاں تو ہوا یوں کہ جب میں ائر پورٹ پر لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے کے بعد بالآخر جہاز میں داخل ہوا اور اپنی نشست تلاش کرکے اس میں دھنس گیا تو ایک تیز اور ناگوار بو نے میرے دماغ کو تقریباً شل کر دیا۔ ادھر ادھر دیکھنے پر معلوم ہوا کہ دائیں طرف کی نشستوں پر ایک خاندان براجمان تھا جن کے ساتھ چھوٹے چھوٹے دوتین بچے تھے۔ ان بچوں کی ماں اپنے سب سے چھوٹے بچے کو نشست پر لٹا کر اس کا ڈائپر تبدیل کر رہی تھی۔ دوسرا بچہ بار بار اپنی سیٹ سے اچھل کر باہر نکلنے کی کوشش کرر ہاتھا جسے اس کا باپ بڑی مشکل سے پکڑے ہوئے تھا کیوں کہ مسافر گیلری سے گزر رہے تھے۔ آخر جب وہ اچھلتے ہوئے بچے کو قابو کرنے میں بالکل ناکام ہو گیا تو اس نے خالص برطانوی لہجے میں چلّا کر کہا:
Sit Properly
اور پھر ایک لمحے کا انتظار کرنے کے بعد خالص پنجابی لہجے میں بولا، ’’ نئیں تے لپڑ ما راں دا
اس دھمکی کے ساتھ ہی غالباً اس نے خفیہ طریقے سے اس کی گدّی پر ایک ہاتھ جما بھی دیا تھا کیوں کہ بچہ گلا پھاڑ پھاڑ کر رونے لگا تھا۔ڈائپر کی بد بو کے ساتھ ساتھ اس کی چیخیں بھی میرے اعصاب پر خراشیں ڈالنے لگیں۔ میں نے اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے پہلو بدلا اور دھیان کسی اور طرف لگانے کی کوشش کی۔ کانوں میں ہیڈ فون لگائے لیکن موسیقی سننیپر طبیعت آمادہ نہ ہوئی، سامنے سکرین پر کسی چیز نے میری توجہ اپنی طرف نہیں کھینچی۔ شدید بیزاری اور کوفت نے مجھے اندر سے چبھنا شروع کردیا تھا۔ یوں ہی بے دھیانی میں آئی فون سے کھیلتے کھیلتے میں نے اسے کھول کر دیکھنا شروع کیا اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد میں کافکا کی کہانی میٹا مورفسس پڑھ رہا تھا۔ ۔۔۔وہی مشہور کہانی جس کا مرکزی کردار ایک صبح خود کو ایک رینگنے والے کاکروچ نما کیڑے میں تبدیل ہوا دیکھتا ہے۔
اب نجانے یہ ماحول کا اثر تھایا کہانی کی اثر آفرینی تھی۔ ۔۔ یا کچھ اور۔۔۔
نجانے کیا ہوا کہ میں نے اس کہانی کا گہرا اثر لیا۔ جوں جوں میں کہانی میں آگے بڑھتا جاتا تھا، ایک ڈر سا میرے وجود میں اترتا جارہا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے یہ کہانی نہیں، حقیقت ہے، حقیقت بھی گریگر کی نہیں، میرے اپنے وجود کی۔ آج نہیں تو کل مجھے بھی جلد ہی اس تجربے سے گزرنا ہوگا۔
اب آپ کہیں گے، کہ شاید کہانی نے میرے ذہن کو متاثر کر دیاتھایا پھر میرے گردوپیش کے ناگوار ماحول نے میری خود آگاہی اور خود اعتمادی کو متزلزل کر دیا تھا اور میں کہانی کی تکلیف دہ صورت حال سے ڈر کر اس کے سامنے سپر انداز ہو گیا تھا، لیکن آپ نہیں جانتے کہ اصل وجہ کیا ہے؟
اصل وجہ تک پہنچنے کے لیے آپ کو میرے ساتھ واپس میرے دفتر تک چلنا ہوگا۔
ابھی میں نے ذکر کیا تھا کہ میں سائنسی تحقیق کے ایک ادارے میں ملازم ہوں۔ یہ ادارہ اب نیم سرکاری ہو چکا ہے اور کچھ ہی عرصہ پہلے اس کی سربراہی ایک نئے ایم ڈی کے سپرد کی گئی ہے۔ اور یہ نیاایم ڈی۔۔۔۔ اب میں آپ کو کیا بتاؤں۔۔ کہ یہ نیا ایم ڈی کون ہے؟
بل کہ شاید کون کا لفظ بھی اس کے لیے مناسب نہ ہو، آپ یہ پوچھ سکتے ہیں کہ یہ نیا ایم ڈی کیا ہے؟
نہیں نہیں، آپ غلط سمجھے! میں از راہِ تحقیر اسے کون سے کیا میں تبدیل نہیں کر رہا۔
دراصل یہ نیا ایم ڈی۔۔۔
کیسے کہوں، اس کا خیال آتے ہی میری طبیعت مالش کرنے لگتی ہے۔کانوں میں شائیں شائیں ہوتی ہے اور معدے میں موجود ہر چیز پلٹ کر حلق کی طرف یوں اچھلتی ہے جیسے کوئی خون خوار کتّا جاتے جاتے پلٹ کر حملہ آور ہونے لگتا ہے۔
ہوسکتا ہے آپ کو یقین نہ آئے اور آپ اسے میرا وہم قرار دیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو میری ذہنی حالت پر شبہ ہونے لگے اور آپ کہیں کہ مجھے مالیخولیا ہو گیا ہے۔
لیکن میں سچ کہتا ہوں
دراصل ہمارا نیا ایم ڈی انسان نہیں، ایک امیبا ہے۔
امیبا۔۔۔امیبا سمجھتے ہیں ناں آپ؟
اگر نہیں سمجھتے تو ذرا اسے گوگل کر کے دیکھئے۔ امیبا کے سپیلنگ ہیں Amoeba۔
"O”اس میں سائلنٹ ہے۔صرف نظر آتا ہے، یعنی لکھا جاتا ہے،بولا نہیں جاتا۔یہ دراصل ایک علامتی نشان ہے۔ ایم ڈی کا علامتی نشان۔
ہاں تو آپ امیبا کے بارے میں تو جانتے ہی ہیں ناں؟
یہ ایک پلپلا اور لجلجا سا وجود ہے جس کی کوئی متعین ساخت نہیں ہوتی۔ اپنی کھال کے اندرسمٹا ہوا ایک تھلتھلاتا سا لوتھڑا ۔ جس کے چاروں طرف اس کے بازو نکلے رہتے ہیں۔ یہ بازو بھی کسی خاص شکل یا جسامت کے نہیں ہوتے، جس طرف امیبا چاہتا ہے یہ بازو ادھر کو نکل آتے ہیں اور لمبے ہوتے جاتے ہیں۔ امیبا کے جسم میں ہڈی نہیں ہوتی اس لیے اس کا کوئی مخصوص پیکر نہیں ہوتا۔
عام طور پر لوگ اسے بالکل سیدھا ساداسمجھتے ہیں،یونی سیلولر جو ہوا۔
لیکن اس کا کیا علاج کہ میں جب بھی ایم ڈی کے دفتر میں داخل ہوتا ہوں مجھے اس کی ایک نئی شکل دکھائی دیتی ہے۔ وہ اپنے بازو ہر بار ایک نئی سمت سے نکال کر لاتا ہے اور انھیں میرے گرد لپیٹ دیتا ہے۔ میں اپنے اندر ہی اندر سکڑنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ اس کے لجلے لمس سے بچ سکوں، مجھے لگتا ہے وہ کسی آکٹوپس کی طرح مجھے اپنے شکنجے میں کس کر توڑ پھوڑ دے گا۔ میں جتنااس کے لمس سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں اتنی ہی تیزی سے وہ اپنے لیس دار بازو میری طرف بڑھاتا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے میں زور سے چیخوں۔۔۔۔
نہیں نہیں ! آپ غلط سمجھے، مجھے امیبا سے ڈر نہیں لگتا۔
گھن آتی ہے۔
ابھی کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے کہ مجھے ایک ضروری کام سے ایم ڈی کے دفتر میں جانا پڑا۔
دوپہر کا وقت تھا اور ایم ڈی کے دفتر کے باہر ملاقاتیوں کا ایک جمِ غفیر منتظر تھا۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو اندر بھی کچھ لوگ حلقہ بنائے ایم ڈی کے گرد بیٹھے تھے اورانھیں اپنی وفاداری کا یقین دلا رہے تھے۔
’’سر! آپ کو دیکھ کر مجھے ایک گھنے سایہ دار پیڑ کا خیال آتا ہے، جب سے میں آپ کے سائے میں آکر بیٹھا ہوں ، میری زندگی میں ایک عجیب سا سرور ، لطافت اور گہرائی پیدا ہوگئی ہے۔ آپ میرے آئیڈیل ہیں سر!‘‘
ایم ڈی صاحب نے اظہار مسرت کے طور پر اپنے جسم کے کسی نامعلوم مقام سے ایک لیس دار سیّال کی بوچھاڑ ان کی طرف پھینکی۔
’’ایم ڈی صاحب، میرے لیے تو بہترین دوست ہیں، سب سے گہرے اور رازدار دوست۔ میں اپنی ہر بات ایم ڈی صاحب سے ہی شئیر کرتی ہوں!‘‘
ایک نوجوان لڑکی نے سر ایک طرف جھکا کر پر اسرا ر سی مسکراہٹ ان کی طرف پھینکی۔ اس پر ایم ڈی صاحب نے کسی اصیل مرغ کی طرح اپنے خیالی پر پھلا لیے اور تن کر بیٹھ گئے۔
’’میرے لیے تو ایم ڈی صاحب بالکل میرے سگے بھائی جیسے ہیں۔بل کہ کبھی کبھی تو لگتا ہے سگے بھائی سے بھی بڑھ کر ہیں۔ ویسے تو یہ مجھے بھابھی کہتے ہیں مگر میں تو خود کو ان کی بہن ہی سمجھتی ہوں۔‘‘ ایک ادھیڑ عمر کی بی بی نے ساڑھی کا پلو اٹھاتے ہوئے اٹھلا کر کہا۔
ایم ڈی صاحب نے پسندیدگی سے انھیں دیکھا۔
’’میرے تو جی بڑے صاحب سے برسوں پرانے تعلقات ہیں۔ میرے دل میں تو ان کا بڑا احترام ہے۔‘‘
ایک اور صاحب نے بڑے جذبے سے اپنی وفاداری کا یقین دلایا اور ان کے دوتین ہم نواؤں نے مصرعہ اٹھایا۔
’’بڑے صاحب نہ ہوتے تو یہ ادارہ تو تباہ ہی ہو گیا تھا۔سر! آپ نے یہاں آکر سائنسی تحقیق کو ایک نئی شان بخشی ہے۔ ‘‘
’’میری نئی کتاب کا انتساب آپ ہی کے نام ہے سر!‘‘
’’آپ کی وجہ سے یہاں سائنس کی دنیا کے رخشندہ ستارے جمع ہو گئے ہیں !‘‘ انھوں نے ہاتھ گھما کر ایک گلیکسی سی بنائی اور اک اشارے میں وہاں بیٹھے ہوئے سب لوگوں کو لپیٹ لیا۔‘‘
ایم ڈی صاحب خوش ہوئے۔
ان کے بازو اپنے عقیدت مندوں کی طرف بڑھنے لگے۔
میں نے غور سے دیکھا ان سب کی ہڈیاں پگھل چکی تھیں اور وہ امیبابن چکے تھے۔
بے شکل و صورت، بے پیکر، بے رنگ!‘‘ اس دن میں واقعی خوف زدہ ہو گیا اور میں نے ان کے دفتر سے دوڑ لگا دی۔
دفتر کے باہر بیٹھے عملے نے مجھے دوڑتے ہوئے دیکھا تو دنگ رہ گئے اور آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔
ایم ڈی صاحب نے اس واقعے کا بہت برا مانا اور میرا نام اپنے معتوبین کی فہرست میں لکھ دیا۔
لیکن اس کا کیا علاج کہ وہ اپنے معتوبین اور ممدوحین سے ایک جیسا رویہ ہی روا رکھتے ہیں۔ ان کے دفتر میں داخل ہوتے ہی وہ اپنے وجود سے ایک چپچپا سا سیّال خارج کرتے ہیں جو آنے والے کی پوری شخصیت کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔پھر آکٹوپس کی طرح ان کے بازو ملاقاتی کے گرد حمائل ہو جاتے ہیں۔ انھی بازؤں کی مدد سے وہ اپنے ملاقاتیوں کی ریڑھ کی ہڈی پگھلا دیتے ہیں اور انھیں امیبا میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
اس دن سے میرے دل میں خوف بیٹھ گیا ۔مجھے لگتا ، ایم ڈی صاحب کے دفتر میں جاتے ہی میر ی ریڑھ کی ہڈی پگھل جائے گی اور میں بھی امیبا میں تبدیل ہو جاؤں گا۔ جیسے گریگر۔۔۔۔
رفتہ رفتہ یہ خیال میرے دل میں اتنی شدت سے جاگزیں ہو گیا کہ اس نے میرے ذہن کو شل کر دیا ، میں اس خیال کو جھٹکنے کی جتنی کوشش کرتا ، یہ اتنی ہی شدت سے مجھ پر حملہ آور ہوتا ۔ یہاں تک کہ میں اس خیال کے پنجے تک دیکھنے لگا جو میری آنکھوں میں اتر آتے تھے۔
اب میں ایم ڈی کے دفتر میں جانے سے کترانے لگا۔ جب تک کوئی خاص ضرورت یا مجبوری نہ ہوتی، میں اس دلدل میں قدم نہ رکھتا ۔
لیکن ایم ڈی سے گریزکا نتیجہ اچھا نہیں تھا۔
ان دنوں ایم ڈی صاحب نئی بھرتیاں کرنے میں مصروف تھے۔انھوں نے تمام قواعد و ضوابط کو پس پشت ڈال کر صرف ان لوگوں کو چن لیا جن کی ریڑھ کی ہڈی پگھل چکی تھی ۔ ان کی کابینہ مکمل ہو گئی اوراس تحقیقی ادارے میں ہر طرف امیبا نظر آنے لگے۔
زمین پر رینگتے ہوئے۔۔۔
دیواروں پر زگ زیگ میں چلتے ہوئے۔۔۔۔
لجلجے، لیس دار، تھلتھلاتے ہوئے وجود۔
مجھ جیسے اکا دکا پرانے لوگوں کے لیے تو سانس لینا بھی دشوار ہو گیا۔ ہر ایک کو اپنی ریڑھ کی ہڈی اپنا جرم محسوس ہونے لگی تھی۔
اپنا آپ اس ماحول میں اس قدر اجنبی اور نامانوس سا لگتا تھا۔
کام کرنے کے لیے ورکشاپ میں داخل ہوتے تو ہر مشین کی ہتھی پر کوئی نہ کوئی امیبا چڑھا بیٹھا ہوتا اور اپنی امیبائی استعدادپر اتراتا نظر آتا۔
تجربہ گاہوں کے ماحول میں عفونت اور سڑاند پیدا ہونے لگی۔
تحقیق کا ذوق ماند پڑتا گیا ۔
انسانی ذہن کو متاثر کرنے والی پروٹین کیاسے کیا بن گئی۔۔۔۔
(کوالٹی کنڑول کے شعبے کی سربراہی بھی تو ایک امیبا کے ہاتھ میں تھی۔۔۔ اگر اسے ہاتھ کہا جا سکے۔۔۔)
آخر ہم باقی ماندہ لوگوں نے، جنھیں خود اپنے پاؤں پرسیدھا کھڑے ہونے کی خواہش تھی،مل بیٹھ کراس صورت حال سے نجات کے رستے تلاش کرناشروع کر دیا۔ایک دوسرے سے بات چیت کی، ادھر ادھر اپنے ہم درد تلاش کیے اور انھیں اپنی مشکل سے آگاہ کیا۔ لیکن آپ کو پتہ ہے پھر کیا ہوا؟
ہر ایک نے ہماری کہانی الف سے یے تک سنی،ہم سے ہم دردی کا اظہار کیا، پروٹین کی گرتی ہوئی کوالٹی اور اس کے انسانی ذہن پر رونما ہونے والے منفی اثرات کا رونا رویا۔لیکن ان سب باتوں کے بعد صورت حال سے نمٹنے کی ترکیب ہر ایک نے ایک ہی بتائی،
’’تم بھی امیبا بن جاؤ‘‘
یہ اس نئی پروٹین کا پہلا اثر تھا۔
ستم تو یہ کہ میرے کئی ساتھیوں نے اس تجویز کو قبول بھی کر لیاہے۔
اب میں رہ گیا ہوں۔
میری ذہنی اذیت اور کرب کا کون اندازہ کر سکتا ہے۔
ہر روز جب میں سو کر اٹھتا ہوں توخود کو مضطرب و بے چین پاتا ہوں۔
سب سے پہلے اپنے جسم پر ہاتھ پھیر کر دیکھتا ہوں اوراپنی ریڑھ کی ہڈی کو محسوس کرتا ہوں۔
اسے محسوس کر کے مجھے ایک عجیب سی الجھن ہوتی ہے۔
جیسے یہ ہڈی مجھے چبھ رہی ہو!!!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے