بہ قول دلاورعلی آزر

شعر وہ لکّھو جو پہلے کہیں موجود نہ ہو
خواب دیکھو تو زمانے سے الگ ہو جاؤ

شعرِ آشوب گاہ میں نئی آوازوں کا وارد ہونا کسی رحمتِ خاص سے کم نہیں۔ نئے نئے مضامین نئی نئی زمینوں میں کاشت کرنا بہ ظاہر سہل مگر جانکاہ مرحلہ ہے کہ کسی بھی منزل پر پہنچنے کے دو ہی راستے ہوا کرتے ہیں ایک فلاح اور دوسرا گمرہی کا ۔کچھ نوجوان اس کی تہہ سے آشنا نہیں ۔نیا شعر کہہ دینے کے معنی یہ نہیں کہ نئی لفظیات جمع کی اور اوٹ پٹانگ مضمون پیش کر دیا۔ یہاں چند شعراء کے کچھ شعر پیش کرنا چاہوں گا۔

میں دیکھتا تھا برابر عمل کا ردِ عمل
دبی ہوئی تھی سڑک شور بس کے اندر تھا
احمد افتخار

اک خواہش ہے ننھی منے لمحے جتنی
اور پورا کرنے کو پورا سال بڑا ہے
بلال اسود

تمھارے پاس سبھی کچھ ہے یعنی ہم بھی ہیں
ہمارے پاس فقط رنجِ رائیگانی ہے
فریحہ نقوی

کوئی نادان محاسن پہ کرے ہجو بیاں
کوئی اندھا ہی ترے حسن پہ تنقید کرے
قاضی دانش صدیقی

ہجر ناسور ہے چپ چاپ ہی جھیلو اس کو
آہ و زاری سے خطرناک بھی ہو سکتا ہے
انجیل صحیفہ

سر سبز رہے زخمِ جنوں جس کی بدولت
اک ربط تو قائم ہے عدوئے دل و جاں سے
سیماب ظفر

منزلوں کو پل میں پیچھے چھوڑتا جاتا ہوں مَیں
راستے بھی خوف کھاتے ہیں مری رفتار سے
اورنگ زیب

ایک ہی آگ میں جلتے ہیں یہاں ہم دونوں
میرا کردار پتنگا ترا کردار چراغ
آرب ہاشمی

حرفِ علت کی طرح گر گئی سانسیں اپنی
ایسی ترتیب سے رکھے گئے اوزانِ حیات
اسیر ساگر

شاید آپ تک میری بات پہنچ چکی ہو، نہیں تو معذرت، یہ سارے شعر ایک ہی تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں یہ تمام شعرا ایک دوسرے کے ہم عصر بھی مانے جاسکتے ہیں یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہر نوآموز پہلے غزل کا روگ ہی کیوں پالتا ہے۔
غزل اردو کی روایت ہے ،امیر خسرو، ولی دکنی، میر تقی میر، حیدر علی آتش، میرزا غالب، داغ دہلوی، یاس یگانہ چنگیزی سے لے آ کر احمد مشتاق، ظفر اقبال، رسا چغتائی، انور شعور تک اور اس کے بعد آج کے نوجوان کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والی صنف غزل رہی ہے۔ غزل ہماری سماعتوں کی ضرورت ہے۔
میں یہاں بہ حیثیت قاری نوجوان نسل کے خوب صورت شاعر نوید فدا ستی کے پہلے مجموعہ ہائے غزل "دل جہاں دریا ہوا”کا خیر مقدم کرتا ہوں نوید فدا ستی کے چند اشعار دیکھیے۔
کہ جس سے شعر میں معنی کا التوا ہی نہ ہو
سخن کے باب میں وہ تجربہ قبول نہیں

اے شبِ ہجر گزر جا کہ دمِ رخصتِ خواب
میری آنکھوں میں کھٹکتی ہے تری تاریکی

دل نے بازارِ تمنا سے پری کی خاطر
پھول ہی پھول چنے جب بھی خریداری کی

سنوار کر جو خد وخال رکھ دیے اس نے
سو اک دراز میں سب صورتیں پڑی ہوئیں ہیں

کس نے کھولی ہے میری الماری
میں نے رکھے تھے کاغزات یہاں

نوید فدا ستی کا نکتہ نگاہ محدود ہرگز نہیں ہے وہ دنیا کواپنی آنکھ سے دیکھنے کا قائل ہے۔ اس کے یہاں مضامین کا تنوع اپنے مکمل ابلاغ کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔
وہ لکھنے کو محض لکھنا نہیں گردانتا ،نہ شاعری برائے شاعری کا قائل ہے ،اس کی حالتِ زار اس بات پر دلالت ہے وہ ایک مکمل اضطرابی روح لئے ہوئے ہے جو غزل کے میدان میں اپنی شناخت اپنے معاصرین سے بالکل جدا رکھنا چاہتا ہے ۔وہ اس جست جو میں سر گرداں بھی ہے اور کسی حد تک کام یاب بھی۔

دیوار میں مستور ہے تصویر تمہاری
میں ڈھونڈ رہا ہوں کہ آئینہ کہاں ہے

پاگیزگی سے شعر عبارت ہے دوستو
کب شاعری میں اپنی غلو چاہیے مجھے

سرِ آب رواں مارا ہے اس نے
مجھے پیاسا کہاں مارا ہے اس نے

ڈرا نہیں ہوں میں مقتل کی راہ سے ہرگز
سبک ہوا ہوں لہو میں خرام کرنے کو

میں حافظ کو سمجھتا ہوں سو مجھ پر
ثمر قند و بخارا آئینہ ہے

الگ تھلگ ہوں میں اپنے قبیلے سے یکسر
یہ مرتبہ ترے انکار پر ملا ہے مجھے

باہر سے بہت خوش نظر آتا ہوں مگر میں
بیمار ہوں اندر سے شفا دیجئے مجھ کو

اوپر درج کئے اشعار کا بہ غور مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوجائے گا کہ نوید فدا ستی کتنا مختلف سوچنے اور لکھنے کا عادی ہے۔ یہ اشعار اس کے معاصرین سے بالکل علیحدہ ہیں۔ اس کے علاقے کے مکان اس قدر روشن اور پرکشش ہیں کہ قاری محض دیکھتا نہیں ٹھہر کر اندر تک کی سیر کی سعی کرنے لگتا ہے۔
نئی ردیف اختراع کرنا ہنر مندی نہیں ہنر مندی ردیف کو مختلف شیڈز میں لکھنا ہے جو نوید فدا ستی نے کر دکھایا ہے مصرع نثر سے قریب کس طرح ہو سکتا ہے یہ "دل جہاں دریا ہوا” کے مطالعہ سے آپ بہ خوبی جان سکتے ہیں اس کے مصرعوں میں ردیف الگ نہیں رکھی ہوئی بل کہ نگینے کی طرح جڑ کے سامنے آئی ہے۔ میری دعا ہے اس ربِ کائنات سے کہ جس نے نوید فدا ستی کو سخن ور پیدا کیا کہ اس کی غزل کی بارگاہ میں حاضری قبول ہوسلامت با کرامت تا قیامت۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے