ہجرتیں زمینوں پر ہوتی ہیں
اور گھر روحوں میں بن جاتے ہیں
مٹی سے پہلی ہجرت آنکھوں میں تو خشک ہوجاتی ہے
لیکن دل میں ہمیشہ برستی ہے
ریل کا ڈبہ پہلا گھر تھا شاید،
ہر بار نئے مکان میں جا کہ اسیگھربنانے میں محنت نہیں
محبت خرچ ہوتی ہے!۔
جن سے ریل کا ڈبہ نہ چھوٹتا ہو ان سے گھر کب چھوٹتے ہیں؟
چلتے چلتے پٹڑی بدلتے وقت لگنے والے جھٹکے کی شدت
جانتے نہیں ہو ناں ؟
گول گھومتی ہوئی وہ پٹڑی جو دوسری سمت جارہی ہو
کبھی کبھی اس کا دکھ بھی لگ جایا کرتا ہے!
رات کے ڈھائی بجے روہڑی کے سٹیشن پہ
آتی صدا ‘‘مجھے اک پل چین نہ آئے سجنا تیرے بنا’’
بیس سال تک یاد رہتی ہے!
دھیمی دھیمی سردی میں جمنے والے آنسوؤں کا دکھ
چلچلاتی دھوپ میں پگھلتا ہے
اکثر ریل کی سیٹی کانوں کو اندھا کردیتی ہے
اور آنکھوں کو بہرہ !
پھر بدلتا ہوا منظر چہرے پہ ہاتھ رکھنے سے نہیں چْھپتا
پلیٹ فارم پر کھڑے سات جنموں کے وعدے
الوداعی ہاتھ اٹھا کر رخصت کرنے لگیں
تو ڈبے میں بیٹھے سات لوگ ایک دوسرے سے نظریں نہیں چراتے
دکھ اپنی جگہ پر رہتا ہے،لیکن خوشی کا راستہ نہیں روکتا
سارے دکھ اور سارے سکھ محبتوں کے نہیں ہوتے
پلیٹ فارم سے ریل تک
ریل سے گھر تک
اور گھر سے آسمان تک کی
ہجرتیں اپنے دکھ اپنے ساتھ لاتی ہیں!!!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے