(حصہ اول)

دانیال طریر!۔
اُس شام جب
سمندر سیپیوں کا لباس پہنے ٹہل رہا تھا
اور ریت پر شام کے جوتے کے نشان تھے
’’تم نے کہا‘‘
سمندر کے مقدر میں آوارگی لکھی ہے
’’ میں نے کہا‘‘
تمھاری طرح
تم سورج کی طرف پیٹھ کیے ہنسے
اور نیم غنودہ منظر کی اوٹ میں چلے گئے
میں واپسی کے راستے پر تمھارا منتظر رہا

دن گزرے
اب میں ہوں اور سمندر کا شور
جو اکثر تمھارا نام لے کر مذاق اڑاتا ہے

(حصہ دوم)

دانیال طریر!۔
سناہے
خدا کے دائیں طرف والے مکان میں
وقت گزاری کے لیے ڈائری دیکھتے ہو
جس میں رخصت کی آخری دعائیں درج ہیں
جو قندیلؔ نے گفٹ پیپر میں پیش کیں
اور بلال ؔ پھول
جو تم نے عجلت میں نہیں سونگھے تھے

سنا ہے خواب
تم سے ہم کلام ہوتے ہیں
جو چراغ کی مدہم روشنی میں داستان سناتے ہیں
پرانے دنوں کی
اور تم انصاف کے آخری دن کی امید دیتے ہو

سنا ہے تم نے
دروازے کے باہر نیم پلیٹ تبدیل کرلی ہے
اور واپس نہ آنے کا فیصلہ کیاہے
افسوس،افسوس،افسوس۔۔۔۔۔۔!!!۔

اور سنگ مرمر کے شیشوں پہ
ایسے سجنے لگ جاتی ہے
جیسے رنگوں کی "سٹیری نائٹ”۔۔۔!۔
رات میں تارے گرتے گرتے
محلوں میں آ جاتے ہیں
جہاں شاہ جہاں کی گود میں سوئی
"تاج محل” کی دیوی
صدیاں بیت جانے کے بعد بھی جاگ رہی ہے
اور اک اک سر میں
” دیپک راگ” الاپ رہی ہے
"بلیو روم” کے مدھم رنگ
"لاسٹ سپر” کے کالے دل والے
بارہ لوگوں کی دھڑکنوں جیسے نہیں!۔
اوپر اشارہ کرنے والی انگلی
"سیس ٹائن چیپل کی سیلنگ” میں آدھے ترچھے لوگوں کی انتھک بھیڑ جاری ہے
"جنت کے دروازے” سے
وہی دیوی ” وینس ڈارف” جھانک رہی ہے
جسکو پتھروں میں چھوڑ آئے تھے
ایسی غاروں کے اندر
رنگوں سے جادو ہوتے تھے
ہاتھوں کے نقشوں سے
لمحوں میں تخلیق ہونے والی پینٹنگز
مدتوں بعد بھی زندہ ہیں
خاموشی کو آواز دے کر
مردہ سانسوں کو پیوند لگائے ہیں
شاہکاروں کو زنجیر چڑھا کے
لٹکا کے
تاریخ میں رکھ کربیٹھ گئے ہیں
اور اپنی عظمت بھول گئے ہیں!!!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے