سکوت کو چیر کر اترتے
قطرہ قطرہ حروف
ذہن میں نمو پاتے ہیں
تو میں نظموں کو جنم دیتی ہوں
خیال کی بالیدگی
کبھی ایک جملے
کبھی ایک نظر
اور کبھی ایک لمس کی منتظر رہتی ہے
سرخ کو کاسنی ہونے کے لیے
نیلا ہمیشہ درکار رہتا ہے
تخلیق تمہارا حق ہے
اور میری ذمہ داری!۔
نظر کی دوری
سماعت کو بانجھ کردیتی ہے
نظمیں جننے لیے ضروری ہے کہ
ہمیں پستے کے درخت کی طرح
ایک ساتھ لگایا جائے
ورنہ جلد ہی دنیا میں یہ ذائقے دار خوشنما پھل
نایاب ہوجائے گا!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے