ایک پرانی رسم

گاؤں کے جوہڑ سے اکیلی
پا نی بھرنے جاتی ہوں
آتے جاتے نادیدہ آنکھوں سے
ڈرتی جاتی ہوں
اپنے لرزتے اورالجھتے لہجے سے
اماں ابا کو باہر کے وحشت کے قصے سناتی ہوں
شک کی بنا پر
تھپڑ گھونسے کھاتی ہوں
بھائی کے غصے سے اس کے سرخی مائل
آنکھوں سے ڈرتی جاتی ہوں
مشکیزہ رکھ کر پھر جلدی
جنگل سے لکڑی لینے چلی جاتی ہوں
بیگانی ہوجاتی ہوں
جانے کیا ہوجاتا ہے
رستوں میں رہ جاتی ہوں
جیسے ایک بہت پرانی جینے کی
اک رسم نبھائے جاتی ہوں ۔۔۔!!!۔

المیہ 

آج
مارکیٹ میں
اس قدر ہجوم تھا باتوں کا
میں کافی دیر تک
اس شور شرابہ کی
زد میں رہا
بڑی مشکل سے
اپنا آپ چھڑا کر
گھر نکل آیا ۔۔۔!۔
گھر پہنچ کر
عجیب حیرت سی ہوئی
ادھر ادھر ٹٹولتا رہا
کھڑکی دروازے
او ردالان میں تلاش کرتا رہا
مگر کہیں نہ ملا۔۔۔
میں باتوں کے ہجوم میں
اپنا آپ کہیں چھوڑ آیا تھا

انکاری

کچھ بھی جان لو اس کو
نہ کوئی دلیل اس کی
نہ کوئی سبب اس کا
جب ہوئی ہے پابندی
ہوگیا ہوں میں باغی ۔۔۔!!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے