سنگت ‘میرا ہمدرد
فرید مینگل
آج کے اس ہیجان زدہ دور میں علم و شعور کے راستے زاویے،وسیلے اور راستے محدود و معدوم ہوتے جارہے ہیں۔آج سنسنی خیز خبروں،حیرت زدہ کرنے والے انکشافات،بحریہ ٹاؤن زدہ رسالوں،تبدیلی کے نام پر باتھ ٹب میں ڈوب مرنے والے صحافیوں اور اندر کی عوام دشمن خبر دینے والے ہیلی کاپٹرزدہ دانشوروں کا دور دورہ ہے۔یہ سارے فضائل و تبرکات ان علاقوں کے ہیں جہاں ترقی علم و ہنر،بحث و مباحث اور سیاست و مذہبی تجارت اپنے عروج پر ہیں۔ یہ ان عظیم صحافیوں اور دانشوروں کا حلقہ ہے جہاں مہینوں ’’کیوں نکالا‘‘ پر بحث و مباحثہ اورطنز و مزاح ہوتا ہے۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ غربت زدہ،بھوک کے مارے،بد بخت و بدقسمت وسائل سے بھر مار اور چھوٹی چھوٹی آنکھوں والے چینیوں کی مکروہ سامراجی نظر کاشکار بلوچستان کا کیا حال ہوگا۔
جہاں پچھلی ڈیڑھ دہائی سے لوگ ننگی بھوک سے لڑ رہے ہیں،گولیوں سے بھاگ رہے ہیں،مذہبی جنونیت کا شکار ہوکر ایک ساتھ سیکڑوں جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔نوجوان لاپتہ اور صحافی قتل ہو رہے ہیں، خواتین اور بچے بھیک مانگ رہے ہیں۔ اس بلوچستان میں ایک نیا سی پیک نامی کالا ’’ڈریگن‘‘ ہزاروں مصیبتوں کا ایک جامع پیکیج لاچکا ہے۔ اب آپ اس صوبے کی پسماندگی،لاشعوری اور بزگی کا خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
مگر اچھائی کہاں رکتی ہے،وہ تو فلورنس نامی شدید تباہ کار طوفانوں میں بھی اپنی چنگاری بجھنے نہیں دیتی۔وہ پھر سے سب کچھ اچھا کرنے کی امید لیے سینہ چاک کیے لڑتی جاتی ہے،سنبھلتی جاتی ہے، آگے بڑھتی جاتی ہے۔
بلوچستان کے اس طوفان زدہ تباہ و برباد زدہ ماحول اور 7 دہائیوں پر مشتمل اندھیرے میں امید کی کرن لیے علم و نور اور شعور و آگہی کی شمع 22 سال سے ہاتھ میں تھامے ’’سنگت رسالہ‘‘ آگے بڑھ رہا ہے۔ جی ہاں سنگت رسالہ بیک وقت جہالت سے لڑتا ہے،سامراج کو آنکھیں دکھاتا ہے،مظلوموں کی آواز بنتا ہے،قبائلیت کو للکارتا ہے،سردار کو انکار کرتا ہے،اور سرکار کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کرتا ہے۔
’سنگت‘پاکستان کی بالعموم اور بلوچستان کی بالخصوص زبانوں کا نمائندہ ہے، محافظ ہے۔سنگت میں سندھی ادیب ننگر چنا لکھ سکتا ہے،براہوی میں غمخوار حیات تحریر چھاپ سکتا ہے،پشتو میں عابدہ رحمان لکھ سکتی ہے اور بلوچی میں عبداللہ شوہاز اپنی رائے پیش کر سکتا ہے۔
’سنگت ‘ہمیشہ سے سامراج مخالف اور جنگ مخالف رہا ہے۔وہ ایٹمی دھماکوں پر خون و خوف و تباہی کے بیوپار واجپائی اور نوازشریف کی مذمت کرتا ہے،افغانستان پر حملے کو ناجائز و انسان دشمن کہتا ہے،عراق کی تباہی کو غیر قانونی اور قبیح جانتا ہے، فلسطین پر بمباری کو خونخوار کہتا ہے اور شامی عوام کی درپدری کو انسانیت کی توہین سمجھتا ہے۔
’سنگت‘ دنیا بھر کے اچھے انسانوں کا مداح ہے۔وہ چے گویرا کا ساتھی اور پلیٹ فارم ہے، فیڈل کاسترو کا نمائندہ اور ماؤ کا ہم خیال ہے۔ وہ کامریڈ سوبھو کی فکر اور شاہ لطیف کے فلسفے کاشارح ہے۔ ’سنگت ‘ایدھی کی موت پر نڈھال ہوتا ہے،کاسترو کے لیے ماتمی کونٹھ بچھاتا ہے،شاویز کی موت پر آنسو بہاتا ہے اور عبداللہ جان جمالدینی کی جدائی پر روتا ہے، گڑ گڑاتا ہے، آنسو بہاتا ہے۔’سنگت‘ ہمیں یوسف عزیز مگسی، گل خان نصیر،غوث بخش بزنجو، سی آر اسلم، بابو عبدالکریم شورش ،حبیب جالب، نرودا اور گورکی سے آگاہ کرتا ہے۔
’سنگت ‘مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کا مخالف ہے،وہ بھٹو کی نام نہاد اسلامی سوشلزم کا پردہ چاک کرتا ہے،افغانستان میں فساد کی مخالفت کرتا ہے اور مودی کی مذمت کرتا ہے۔
’سنگت‘ بلوچستان کے اس تاریک دور میں بلوچستان کے ماتھے پر چمکتا واحد قیمتی ستارہ ہے جو ہر برائی سے لڑتا ہے،اچھائی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے،شعور بانٹتا ہے،علم و آگہی،امن و محبت کا درس دیتا ہے، انسانیت کا پرچار کرتا ہے۔
جیسے کہ ماما عبداللہ جان جمالدینی کہتے ہیں: ’’سنگت میں سماجی،سیاسی،نظریاتی، سائنسی اور انسان دوستی کی بہت ہر دل عزیز تحریریں اور باتیں ہوتی ہیں‘‘۔
تو اب میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ’ سنگت‘ عالمی امن کانمائندہ اور عالمی سامراج کا بدترین مخالف ہے۔’سنگت‘ انسانیت برابری، محبت، امن،انصاف اور عوامی رائے کی بالادستی کا نمائندہ ہے۔
’سنگت‘ بلوچستان کابیش قیمت سرمایہ ہے۔
*****

میراسنگت
تمثیل حفصہ
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ بہت کچھ کہنا چاہتے ہو پر مناسب لفظ نہیں ملتے۔انسان خود سے بڑے قد کے لوگوں کو کیسے دیکھتا ہے، یہ مجھ پر بارہا بیتا۔ جب نگاہ اٹھائی تو اونچائی ناپنا بس سے باہر لگا۔’سنگت‘ اور سنگتی لکھاریوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔میں 2016 سے سنگت سے جڑی ہوئی ہوں۔میری پہلی نظم اسی میگزین میں چھپی۔مجھے پہلی بار سراہنے والے ساتھی بھی یہیں ملے۔اس لیے سنگت سے مجھے بہت زیادہ عقیدت ہے۔یہ میرے لیے ایک گھر کی طرح ہے۔ یہاں کا ہر فرد میرا اپنا ہے اور ایسا اپنا جیسے میں انہیں صدیوں سے جانتی ہوں۔لیکن ان کے لیے کچھ کہنا بہت مشکل ہے میرے لیے ۔خاص طور پر ماما (ڈاکٹر شاہ محمد مری) کے لیے…سچ یہ ہے کہ مجھے چھپنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، خصوصی طور پر شاعری کے حوالے سے۔ میں نے زیادہ وقت ہمیشہ اپنے آرٹ کو دیا۔لیکن ماما واحد ہیں جن سے محبت کا تعلق ہے ۔ ان کے ہونے کی جو سرشاری ہے، وہ بیان سے باہر ہے۔ وہ ایک برگد کے درخت کی طرح ہیں۔ ان کی چھاؤں سے میں نے کبھی کسی کو محروم نہیں دیکھا۔
2018 سے میرا تعلق سنگت سے اور مضبوط ہوا۔ میرے پانچ سرورق سنگت کا حصہ بنے۔لیکن یہ کسی کڑے امتحان سے کم نہیں تھا ۔ماما کو اپنے آرٹ سے قائل کرنا آسان نہیں، نہ سرورق پر چھپنا ۔جب ماما کو کام بھیجتی وہ سوالوں کا انبار کھڑا کر دیتے۔ ان کو مطمئن کرنا بڑا جان جوکھم کا کام ہے۔لیکن میرے مختلف کام کو بھی ماما کی محبت ہمیشہ حاصل رہی ۔ان کی وجہ سے یہاں رہنے کا اعزاز حاصل رہا۔
میری خاموش طبع کو دیکھا جاتا تو میں کبھی سنگت گروپ کا حصہ نہ رہتی، پر اپنے تو وہی ہوتے ہیں جو خاموشی کے پیچھے لفظوں کو سن سکیں۔ اسی وجہ سے میں آج تک سنگت گروپ کا بھی حصہ رہی۔ میرے کام کو آپ سب نے بہت سراہا اور اس پہ باقاعدہ ڈسکشنز بھی ہوتی رہیں، جس سے مجھے میرے ہونے کا احساس اور پختہ ہوا، اعتماد بڑھا۔آپ سب جو سنگت کا حصہ ہیں،مجھے بے حد عزیز ہیں۔ 2018 میں خواتین کے شمارہ کی نچارچ ہونے کا جو اعزاز ملا ،وہ ہم سب کے لیے بہت اہم اقدام تھا۔
عابدہ رحمان میری بہت عزیز بہن ،جتنا منفرد لکھتی ہیں ان کا واقعی سنگت سے ویسا رشتہ ہے جیسے اس میگزین کا حق ہے۔ڈاکٹر عطا اللہ اور عابد بھائی تو اتنے خوبصورت لوگ ہیں جن کی خوبصورتی آپ لفظوں میں بیان نہ کر سکیں۔ ان کی محبت اور محنت نے سنگت کو ایک جامع اور مضبوط ساخت دی، ان کی لگن اور محبت ہی نے سنگت کے موجودہ معیار کے تعین میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
میرا تعلق شاعری سے زیادہ رہا تو سب سے پہلے سنگت میں شاعری کو دیکھتی ہوں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ سنگت میں شاعری کا معیار ہر شمارے میں بہتری کی طرف بڑھ رہا ہے۔یہاں چھپنے والے چند اہم نام افضل مراد، منیر رئیسانی، وحید نور، محسن شکیل، نوشین قمبرانی، قندیل بدر، انجیل صحیفہ، بلال اسود، وصاف باسط، سلیم شہزاد، رضوان فاخر، آمنہ آبڑو وغیرہم جو بلوچستان کی شاعری کا خاصہ ہیں ،بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ باقی فہرست لمبی ہے شاعری کی اور مضامین کی۔
سنگت سے اپنی بے انتہا محبت جو چند لفظوں میں لکھنے کی کوشش کی جو بہت ہی نامکمل ہے لیکن میں لفظوں سے زیادہ رنگوں میں اور خاموشی میں بولتی ہوں ،امید ہے میری محبت پہنچے گی اور مجھے سنگت کا حصہ ہونے کا اعزاز حاصل رہے گا۔ سب کے لیے سلامتی کی دعائیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے