سالانہ کانفرنس،حیدر آباد

ہم ذکر کر چکے ہیں کہ آل انڈیا بلوچ کانفرنس نے اپنی ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ (28ستمبر1933)میں چار رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی کہ وہ دسمبر کے آخر میں اگلی سالانہ کانفرنس کے سلسلے میں مقام کے فیصلے کے لیے خیر پور کے والی سے مذاکرات کرے۔حسبِ فیصلہ یہ کمیٹی نواب آف خیر پور سے ملی اور فیصلہ ہواکہ کانفرنس کا اگلا جلسہ 25سے 28دسمبر 1933کو حیدر آباد سندھ میں ہوگی۔’’ہز ہائی نس نے اس کانفرنس کی صدارت کا وعدہ کیا‘‘۔(1)۔

اسی طرح ہمیں ایک میمورنڈم ملا جو13نومبر 1933کو ایس پی ژوب لورالائی نے اے جی جی بلوچستان کے سیکریٹری کو بھیجا۔ اس میں روزنامہ انقلاب کے 9نومبر1933کے شمارے کے حوالے سے ہزہائی نس نواب آف خیر پور سٹیٹ کی طرف سے انڈیا میں رہنے والے بلوچوں کے نام اپیل کی خبر بھیجی:
’’یہ وقت ہے جب انڈیا کی ہر کمیونٹی ، عمومی مشترک اصلاحات سے قبل ، اپنے داخلی تنظیم کے لیے جدوجہد کر رہی ہے تاکہ وہ ہر لحاظ سے اپنے حریفوں سے آگے گزرنے کی پوزیشن میں ہو۔
’’بلوچ جو کہ بہت سے معاملات میں بہت زیادہ پسماندہ پوزیشن میں ہیں، انہیں بھی جہاں جہاں وہ پیچھے ہیں اپنی کمیاں پوری کر کے اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔
’’ان معاملات پر غور کرتے ہوئے میں پرزور اپیل کرتا ہوں کہ اس کانفرنس کے دوسرے جلسے میں جوکہ 26سے 28دسمبر 1933کو منعقد ہورہا ہے ، بلوچ دور نزدیک سے اس میں بھر پور شرکت کر کے اسے کامیاب بنائیں۔
’’ اس بات کا اضافہ کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ یہ کانفرنس ایک حکومت مخالف کانفرنس نہیں ہے ، اور اس کی صدارت میں کروں گا‘‘۔ (اسی کی کی ویس وٹائے یار تیرے ملنے نوں!!)
چنانچہ دو تین ماہ تھے۔ اور سہ روزہ کانفرنس بڑی تھی۔ لہذا سخت کام کی ضرورت تھی۔ اور پارٹی کا ترجمان اخبار ’’البلوچ ‘‘اس معاملے میں بہت ہی کار آمد ہتھیار تھی۔
اِس البلوچ کے19نومبر 1933 کے صفحہ 6پر چوکھٹے میں ،خوبصورت نقش ونگار بنا کر یہ پمفلٹ نما ، اشتہار موجود ہے :

’’بلوچستان و آل انڈیا بلوچ کانفرنس حیدر آباد سندھ کو کامیاب بناؤ
تمام بلوچ وبلوچستانیوں سے
جناب مستطاب ہزہائی نس میر علی نوار خان والی ریاست خیرپور کی پُر زوراپیل

’’اس دور ترقی وتمدن میں جبکہ دُنیا کی ہر ایک قوم اپنے کو منظم وترقی یافتہ اور مہذب ومتمدن بنا کر دولت اور عزت وآبرو کیساتھ زندہ رکھنے کے لیے سرگرم کار ہے،نیز جبکہ ہندوستانی اقوام بھی مجوزہ نئے اصلاحات کے عمل میں لائے جانے سے پہلے ہی سے اپنی تنظیم وترتیب اور اصلاح حال کی خاطر نہایت کوشاں ہیں، لہذا ایسے نازک وقت اور اس قدر اہم دورِ زمانہ میں ہمارے بلوچ وبلوچستانی قوم وقبائل (جوکہ دیگر قوموں سے پست ہیں ) کے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ اپنی شخصی اغراض ، بلوچی ضدیت اور بغض وکینہ کو بالائے طاق رکھ کر بہ یک نعرہِ تکبیر محب ومانوس بن کر اپنی قوم وقبائل کی اصلاح اور ترقی وتعالی کے لیے جان ومال سے سعی وکوشش فرمادے۔
’’چنانچہ ان امور کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان وآل انڈیا بلوچ کانفرنس کے دوسرے سالانہ اجلاس کا انعقاد اس سال حیدرآباد سندھ میں تاریخ 26، 27،اور 28دسمبر 1933ہونا قرار پایا ہے ۔گذشتہ کانفرنس کے موقعہ پر بعض خود غرض اشخاص نے یہ افواہ پھیلائی تھی کہ بلوچ کا نفرنس سرکار انگریزی کے خلاف ہے ، مگر کانفرنس کی کارروائیوں سے صاف ظاہر ہوا کہ یہ سب کچھ بیجا تہمتیں اور بے بنیاد افواہیں تھیں۔ اس کے علاوہ گذشتہ کانفرنس کی طرح آئندہ کانفرنس بھی اینجانب کی زیرِ صدارت ہونیوالی ہے ۔ جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ کانفرنس کسی بھی حالت میں سرکار انگریزی کے خلاف نہیں ہوسکتی۔ لہذا میں بلوچانِ ہند وسندھ اور بلوچستانی قوم وقبائل کی خدمت میں پُر زور اپیل کرتا ہوں کہ وہ بہ تعداد کثیر تشریف لا کر اپنی شرکت سے کانفرنس کو نہایت درجہ کامیاب او راپنے بلوچ وبلوچستانی قوم وقبائل کو دیگر اقوامِ عالم کی نظروں میں سرخرو و نیک نام بنائیں۔
***
اسی شمارے کے اسی صفحہ پر کونے میں بہت ہی خوبصورت ڈیزائن میں یہ اشتہار موجود ہے:

چلو حیدرآباد چلو
بلوچستان و آل انڈیا بلوچ کانفرنس کوکا میاب بناؤ
26،27،28دسمبر 1933میں حیدرآباد سندھ میں مجتمع ہو کر اپنی اور اپنی آئندہ نسلوں کی فلاح وبہبود کے لیے ایک ایسی راہِ عمل سوچو جس سے تمہاری قوم دنیا کی نظر وں میں معزز وممتاز ہو کر اس کی پرانی شاندار روایات پھر زندہ ہوجائیں۔
پیر بخش شہداد زئی
کراچی

اس سلسلے میں ایک اور اشتہار البلوچ (26نومبر 1933) میں یوں ہے :
بلوچستان آل انڈیا بلوچ کانفرنس کو کامیاب بناؤ
چلو حیدر آباد چلو
بلوچ وبلوچستانیوں کو مژدہ بتریک و تہنیت
ہمارے ترک ، ایرانی،عرب اور مصری مسلمان بھائی تمہارے اسلاف کی تاریخی شاندار روایات سے پوری واقفیت رکھتے ہوئے تمہاری اس بیداری پر تبریک و تہنیت کی تاریں بھیجنے کے لیے مستعدو آمادہ ہیں بشر طیکہ تم نے بہ توفیق اللہ عزوجل اس کانفرنس کو اعلیٰ اور عظیم الشان پیمانے پر کامیاب بنایا)
پس اٹھو اللہ اکبر ، یا شاہ مردان یا چار یار کے نعروں سے مرحوم میر غلام شاہ کلہوڑے کے قلعہ کو گونج اٹھاؤ۔ چلو ، چلوحیدر آباد اور اپنے کو ایسے تبریک و تہنیت کا مستحق بناؤ۔
شہدادزئی پبلسٹی سیکریٹری
آل انڈیا بلوچ اینڈ بلوچستان کانفرنس
اسی طرح 26نومبر ہی کے شمارے میں آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے سیکریٹری جنرل غلام قادر کی ایک مضمون نما تحریر چھپی تھی:
’’اس امر کا پہلے ہی اعلان کیا جاچکا ہے کہ کانفرنس کے دوسرے اجلاس کا انعقاد سال گذشتہ کی طرح جناب ہزہائینس میر صاحب آف خیر پور سندھ کی صدارت میں بتاریخ 26، 27، 28دسمبر 1933،ا مسال حیدر آباد سندھ میں قرر پایا ہے ۔ چونکہ یہ تمام ہندوستان کے بلوچ اور سارے بلوچستانی قوم وقبائل کیلئے ایک نہایت اہم ، اصلاحی ، معاشرتی اور تعلیمی تحریک ہے ، لہذا ہم پُر زور اپیل کرتے ہوئے امید واثق رکھتے ہیں کہ ہمارے بلوچ وبلوچستانی بھائی صاحبان ہر گوشۂ ہند وسندہ وبلوچستان سے جوق در جوق تشریف لا کر اپنی شمولیت سے کانفرنس کو ایک عظیم الشان پیمانے پر کامیاب بنا کر اپنی قوم کی گذشتہ شان و شوکت اور اسلاف کی مایہ ناز روایات کو دوبارہ زندہ کر دکھائیں گے ۔
’’کانفرنس کی ضروری تنظیم و ترتیب کیلئے معزز ارکان کی ایک غیر رسمی میٹنگ بلائی گئی جو کہ زیر صدارت خان صاحب اللہ بخش گبول صاحب وائس پریذیڈنٹ کانفرنس و شرکت جنابان خانصاحب خان محمد خان صاحب ،جناب غلام قادر صاحب جنرل سیکریٹری کانفرنس بتاریخ 19ماہِ حال (19نومبر)ڈاک بنگلہ حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس میں استقبالیہ کمیٹی کے ارکان مقرر کیے گئے اور چیرمین جناب حاجی میر حسین بخش خان ٹالپر صاحب منتخب ہوئے۔ یہ اجازت جناب مستطاب نور محمد صاحب بی اے ایل ایل بی وکیل حیدر آباد سندھ کانفرنس کا منعقد کیا جانا مسلم بورڈنگ ہاؤس حیدرآباد سندھ میں قرار پایا ۔ وکیل صاحب موصوف کی اس اجازت ومعاونت کا ہم تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔
’’جناب مستطاب ہز ہائینس میر علی نواز خان صاحب ودیگر معزز ڈیلیگیٹوں کے جائے قیام کیلئے شہر میں چند بنگلوں کا بندوبست کیا گیا ہے۔
نیز قرار پایا کہ صاحبان موصوف کراچی میں تشریف لیجا کر وہاں کے بلوچ باشندگان میں کوئی مصالحت ومفاہمت کی صورت پیداکریں ، کیونکہ وہاں کی دو پارٹیوں میں کچھ باہمی کشیدگی محسوس کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ایک وفد مشتمل برجناب خانصاب گبول وخانصاحب خان محمد خان اورحاجی میر حسین بخش خان بغرض فروخت ڈیلیگیٹ ٹکٹ وفراہمی فنڈ واعانت سارے سندھ میں گشت کرنے کے لیے مقرر ہوئے ۔
معذرت : تنگیِ وقت وزیادتی کام کے سبب یہ ممکن نہیں ہو سکے گا کہ اس طرح کے وفود ہندوستان اور سندھ وبلوچستان کے تمام حصوں میں بھیجے جائیں ، اس لیے ہم اُمید کرتے ہیں کہ ہر وہ بلوچ وبلوچستانی جس کو قومی احساس اور فلاح وبہبود مدنظر ہوتے ہوئے اپنی کانفرنس کی حد درجہ کامیابی ملحوظ خاطر ہو۔خود رضاکارانہ آگے بڑھ کر حتی الامکان اپنے چندہ و اعانت پیش کر کے کارکنان کا نفرنس کی ہمت افزائی فرمائیں تاکہ اس کی دستور العمل کی سرانجام دہی اور عملی کارروائیوں میں کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہ آنے پائے۔
’’ نہایت خوشی و مسرت اور حد درجہ افتخار کا موقع ہے کہ ہزہائینس میر علی نواز خان صاحب والی ریاست خیر پور نے اپنی قوم کی زبوں حالی و پسماندگی کو محسوس کر کے ازراہِ ئطف و کرم اپنے صعیف و ناتوان بلوچ وبلوچستانی بھائیوں کی فلاح وبہبود اور ترقی وبلندی کیلئے سرگرم کار ہوئے ہیں جس کے لیے ہم آپ کی خدمت میں ہدیہ تشکر پیش کیے بغیر نہیں رہ سکتے‘‘۔
***
شکر ہے ہمیں اور یجنل سورس مل گیا ہے جس سے اہم آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے حیدرآباد کانفرنس کی تیاریوں کے بارے میں بہت کچھ کہہ سک رہے ہیں۔
پیر بخش خان شہدادزئی کی جانب سے’’ البلوچ ‘‘کی3دسمبر 1933میں ایک اور پر مغز اور جذبات سے بھر پور مضمون شائع ہوا:
بلوچستان و آل انڈیا بلوچ کانفرنس حیدر آباد سندھ
26،27، 28دسمبر 1933

’’ہمارے بلوچ وبلوچستانی بھائیو ! تم نے قانونِ قدرت کی کونسی خلاف ورزی کی ہے جس کی پاداش میں تم سزا بھگت رہے ہو ، جو دنیا کی دیگر اقوام پست ترین حالتوں سے ترقی کرتے ہوئے کمال تک پہنچ گئے اور تم اپنی گذشتہ ترقی اور عزت واحترام کی حالت اور اپنی فاتحانہ شجاعت اور شہامت کو بھی قائم نہ رکھ سکے اور تنزل کرتے ہوئے انتہائی ذلت میں جاگرے۔
’’تم نے کونسی خطا کی جو ہندوستان کی اچھوت قومیں بھی ترقی کر کے مہذب اور متمدن بن کر عالیشان مخلوق میں آرام اور چین کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور تم کو جو اول المسلمین قوم ہو اب تک اپنی ذلیل جھونپڑیوں میں نانِ خشک بھی پیٹ بھر کر کھانے کیلئے میسر نہیں ہوتی ۔خدارا بتاؤ کہ تم نے ایسا کونسا بڑا گناہ کر کے رب کعبہ اور اس کے برگذیدہ حبیب محمد رسول اللہ صلعم کو اپنے سے ناراض کیا ہے کہ دیگر اقوام وملل کے بیشتر افراد عالم وفیلسوف ڈاکٹر وڈکٹیٹر ، جج وبارسٹر اور ماہرین سیاست بن کر تمہارے ہی وطنِ مالوف میں تم پر حکومت کریں، اور تم اس قدر جاہل، مظلوم اور ذلیل وخوار بن گئے ہو کہ جب حکام تم سے پوچھتے ہیں کہ تم کیا حقوق چاہتے ہو یا جو مظالم تم پر توڑے جاتے ہیں ان کا بیان اظہار کرو توتم مندرجہ ذیل کے جواب دے کر اپنی جمود وجہالت اورزبوں حالی کا اعلان کرتے ہوکہ ’’واجہ چہ ماچیاپڑ سئے ، مابلوچن ماگنوکن، ماہچ نزانیں ۔ واجہ وتے ،ہنچوکہ تئی خیالا کیت بکن ‘‘۔
یعنی صاحب ہم سے کیا پوچھتے ہو ۔ہم بلوچ ہیں ہم بے وقوف ہیں ، ہم کچھ نہیں سمجھ سکتے۔ آپ مختار ہیں ، جیسا خیال میں آئے ویسا کرو‘‘ آہ ! واویلا!!
بسوحت عقل زحیرت کہ این چہ بو لعجبی است
’’اے براد رانِ قوم ووطن ! میرے ناقص خیال میں تمہاری غفلت وجہالت اور باہمی نفاق و شقاق اور بغض وحسد ضدیت اور تمہاری بے جاکبر اور نخوت و رعونت ہی نے تمہیں دنیا کی نظروں میں ذلیل وخوار اور بے مقدار کر رکھا ہے ۔ اور اگر تم نے اپنی حالت اور موجودہ ذہنیت کی جلدازجلد اصلاح نہ کی تو وہ وقت دُور نہیں کہ تم قومی حیثیت سے خدانخواستہ تباہ وبرباد ہو کر دنیا کے مہذب ومتمدن اقوام کے نزدیک اچھوت قوموں سے بدتر بن جاؤ گے۔
وائے ناکامی متاعِ کار واں جاتارہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
’’ہم اپنے زعمِ باطل میں کچھ بھی سمجھیں ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے فقرہ کو بار بار رٹتے ہوئے اسلاف کی شجاعت وجوانمردی کی داستانیں سُناتے پھریں لیکن :
نازیم گرکنوں بجوانمردی سلف
باورزما کسے نہ کند داستان ما
دُنیا کے لوگ ہمیں مدارج ارتقا میں وہی درجہ دیں گے جو ہماری موجودہ حالت کے مطابق ہوگا۔ وہ ہماری قومی غفلت اور جہالت وجمود اور ذلت وزبوں حالی کو دیکھ کر اب ہی سے ہمیں ایک پست اورذلیل قوم سمجھنے لگے ہیں، وہ اپنے اچھوتوں کو تعلیم وتربیت کر کے ان کو ترقی دے رہے ہیں اور ان کی جگہ ہم ہی سے پُر کرنے کیلئے خالی کرار رہے ہیں۔ ہم نے بار ہا غیر اقوام کے افراد کو ہمارے سردارانِ قبائل کی جاہلانہ ذہنیت اور وحشیانہ وضع وقطع اور بیجا کبرو نخوت ورعونت پر ہنسی اُراتے اور مذاق وتمسخر کرتے دیکھا ہے ۔
پس اے ہمارے بلوچ وبلوچستانی بھائیو! ہمارے انفرادی قیل وقال اور سعی وکوشش سے کچھ نہیں بن سکتا ، لہذا ہمیں مجتمعا ومتحداً کوئی تدارک وچارہ جوئی عمل میں لانی چاہیے تاکہ ہمارے اسلاف کے نام ضائع نہ ہوں ۔ بلکہ تاابدزند رہیں، اور ہماری حالت دُنیا کی نظروں میں معزز وممتاز ہو۔ اسی مقصد اور اس طرح کے تدارک وچارہ جوئیوں کی نسبت جمع ہو کر تبادلہِ افکار اور غورو خوض کرنے اور اپنی قوم قبائل کیلئے کوئی راہِ نجات اور اسباب ترقی تعالی اور فلاح و بہبود دستیاب کر لینے کی خاطر خدا کے فضل وکرم سے چند قومی دردرکھنے والے بزرگ اور اکثر بیدار مغز نوجوان سرگرم کار ہیں ۔کیونکہ انہی مقاصد اعلیٰ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے قافلہ کے سالارِ معظم اور مردِ بلوچستان وقائد اعظم بلوچ وبلوچستانیان جناب نواب زادہ محمد یوسف علی مگسی (دام اللہ تعالی وکثر اللہ امثالہ)نے یہ اصلاحی تحریک شروع کر کے بلوچستان و آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی بنا ڈالی ہے تاکہ زعمائے قوم اور بلوچ و بلوچستانی روشن خیال وبیدار مغز نوجوان ہر سال ایک جگہ مجتمع ہو کر اپنی اور آئندہ نسلوں کی ترقی وبلندی اور فلاح وبہبود کیلئے ایسی راہِ عمل سوچیں جس سے ہماری خوابیدہ قوم دوبارہ بیدار ہو کر اپنی پُرانی شاندار روایات کو پھر زندہ کر سکے ، اور مدارجِ ارتقاء میں کوئی ایسادرجہ حاصل کرے جس سے وہ دیگر اقوام کا ازہرحیث مقابلہ سابقہ کر سکے۔۔
’’امسال بلوچستان وآل انڈیا بلوچ کانفرنس کا منعقد ہونا (تاریخ 26،27،28دسمبر) مسلم بورڈنگ ہاؤس حیدرآباد سندھ میں قرار پا یا ہے۔ بتوفیق اللہ عزوجل ۔آنچہ کند ہمت مرداں کند۔
چلو ! حیدر آباد چلو!! اپنی اسلامی شاندار روایات کو پھر زندہ کر کے رب کعبہ جل جلالہ اور یثربی سالارِ انبیا ء (محمد ﷺ کہ خورشید افلاک بود) کو اپنے سے راضی کرو۔
بھائیو! اگر خوبیِ دنیا وآخرت چاہتے ہو تو امسال چلو حیدر آباد چلو!‘‘
***
دسمبر کے اوائل میں روزنامہ انقلاب (8دسمبر 1933صفحہ 3)نے ایک بھر پور اداریہ لکھا:’’حیدرآباد سندھ میں بلوچستان کانفرنس‘‘۔ اس میں بہت زور شور سے اس بیداری کی تعریف کی گئی:
’’ ہر مسلمان بلکہ ہر منصف مزاج انسان کا دل یہ دیکھ کر مسرت سے لبریز ہوجاتا ہے کہ آخر مدتِ دراز کے بعد بلوچستان کے باشندوں میں بھی زندگی اور بیداری کی لہر پیدا ہورہی ہے ۔ اس سے پیشتر اہل بلوچستان کی ایک کانفرنس منعقد ہوچکی ہے ۔ اور اب پھر اعلان کیا گیا ہے کہ 28,27,26دسمبر کو حیدرآباد سندھ میں ہزہائینس میر صاحب خیر پور کے زیر صدارت ایک آل انڈیا بلوچ کانفرنس کاانعقاد قرارپایا ہے ۔اگر چہ ابھی بلوچستان کی حدودکے اندر تحریر و تقریر کی آزادی مفقود ہے لیکن سندھ میں بلوچستانیوں کے ہفتہ وار اخبارات بھی شائع ہور ہے ہیں۔ غلام قوم مل کر بیٹھتے ہیں ۔ اپنی قوم کی ترقی وفعالی کی تجویزیں سوچتے ہیں اور کانفرنسوں کے ذریعہ سے بھی اپنے خیالات قوم تک پہنچا رہے ہیں۔ بلا خوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس تمام حرکت وبیداری کا سہر ا نواب زادہ محمد یوسف علی خان مگسی کے سر ہے ۔ جوتاریک خیالی اور جہالت کے اس وسیع خارزار میں جسے بلوچستان کہتے ہیں عروج وترقی کے ایک گلِ نورس کا عَلَم رکھتے ہیں۔ بلوچستان کے سرداران قبائل رجعت پسندی ، جہالت ، جمود اور وحشت کے اعتبار سے دنیا جہاں میں ضرب المثل تھے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہی لوگوں میں سے ایک ایسا فرد پیدا کردیا جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنی قوم کی فلاح وبہبود کے لیے سعی وجہد میں بسر ہورہا ہے ۔ اور یہ اسی کے خلوص اور جذبہ صادق کا اثر ہے کہ آج بلوچستان کے گوشے گوشے میں زندگی کے آثار نظر آرہے ہیں۔
یہ کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ بلوچوں جیسی اولو العزم اور شجاع قوم محض جہالت کی وجہ سے اس قدر پست و ذلیل ہوگئی کہ اسے اپنے مذہب مقدس سے کوئی واسطہ نہ رہا ۔ اس کی معاشرت اسلامی رنگ سے محروم ہوگئی۔ اس سے حق گوئی اور حق پرستی کے محاسن صلب کر لیے گئے۔ اور ایک قوم کی قوم جس کی تاریخ بڑے بڑے کارناموں سے لبریز تھی، حیوانوں اور وحشیوں کی زندگی بسر کرنے لگی ۔ کیا اس قوم کے افراد زمانے کی رفتار سے بالکل متاثر نہ ہوں گے ، اور بدستور اپنی جہالت پرقانع رہیں گے ؟ ۔ہمیں یقین ہے کہ اب بلوچستان کا ایک ایک فرد احساس ذلت سے بہرہ مند ہوچکا ہے ۔ اور اپنی حالت کو درست کرنے کے لیے مضطرب و بیقرار ہے ۔ اگر ہمارا یہ خیال صحیح ہے تو بلوچستان کے ہر فرزند کا فرض ہے کہ آنے والی کانفرنس میں شامل ہو ۔ذاتی مناقشات اور قبائلی اختلافات کو طاق پر رکھ دے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ متحدد متفق ہو کر قوم کی ترقی و بیداری کی تحریک کو تقویت پہنچائے۔ ہندوستان بھر کے مسلمانوں کی آنکھیں اب اپنے بلوچ بھائیوں کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ اور وہ نہایت بے تابی سے اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب بلوچستان بھی ہندوستان کے دوسرے حصوں کی طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہو کر اسلامی ہند کے لیے طاقت وقوت کا باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے بلوچستانی بھائیوں کو مخلصانہ خدمت ملت کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔(2)
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آل انڈیا بلوچ کانفرنس اپنے اس سالانہ کانفرنس کو بھی جیکب آباد کانفرنس کی طرح بہت سنجیدہ لے رہی تھی۔وہی تیاریاں ، وہی ہلچل، وہی جوش وہی خروش۔ اخباری بیانات ہیں ، اخباری اشتہار ہیں، پمفلٹ پوسٹرہیں، اور کارنر میٹنگیں ہیں۔
’’حیدر آباد میں 26سے 28 دسمبر 1933 کو منعقد ہونے والی اگلی آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے پوسٹر کوئٹہ پشین اور سبی اضلاع میں آزادانہ تقسیم ہور ہے ہیں جس میں بلوچوں کو اس میں شرکت پر زور دیا جا رہا ہے ۔ اشتہار دینے والوں کے نام ہیں:
’’خان عبدالصمد خان اچکزئی ، میر حاجی حسین بخش ٹالپر،اللہ بخش گبول ، میر بندہ علی ٹالپر، خان محمد خان ، غلام قادر بلوچ جنرل سیکریٹری کانفرنس‘‘۔(3)
ایک بدبختی جو ہماری موجودہ نسل اور ایک صدی پہلے کی سیاسی نسل میں مشترک ہے ، وہ ڈکٹیٹر شپ ہے ۔ اور اُس ڈکٹیٹر شپ سے نمٹنے کی ہے ۔ مندرجہ ذیل دوپیراگراف پڑھیے اور دیکھیے کہ کیا ہم بھی ایسا نہیں کر رہے ؟۔
یوسف عزیز مگسی نے انگریز پولٹیکل ایجنٹ کلات اور خود اے جی جی کو اِس کانفرنس میں شرکت کی دعوت بھیجی ۔ جس کا جواب پولیٹیکل ایجنٹ قلات نے 23دسمبر1933کو لکھا۔ میر صاحب کا خط تو میں حاصل نہ کرسکامگر انگریز پولٹیکل ایجنٹ کا جواب اُن جاسوسی اور خفیہ دستاویزات میں ملی جو بلوچستان آر کائیوز میں محفوظ ہیں۔ پولٹیکل ایجنٹ نے اپنے خط کی کاپی ایجنٹ ٹودی گونر جنرل بلوچستان کوبھی بھیجی تھی ۔ خط یوں ہے:
’’میں آپ کے 9دسمبر کے خط کی وصولیابی کی اطلاع شکریہ کے ساتھ دے رہا ہوں۔ جس کا جواب اُس وقت نہ دے سکا اس لیے کہ میں اے جی جی کے ساتھ لسبیلہ کے دورہ پر تھا۔ میں اُن بہتریوں اور اصلاحات کے بارے میں سننا چاہتا ہوں جو آپ اپنے تمن میں متعارف کر رہے ہیں ۔ اور اُس موقع کو خوش آمد یدکہوں گا جب خو ددیکھوں جو کچھ آپ کر رہے ہیں ۔میں پر امیدہوں کہ ان سردیوں میں سبی سے جھل آپ کے پاس آؤں گا ۔
’’مجھے اے جی جی کی طرف سے بھی اُس خط کی وصولیابی کی اطلاع دینے کو کہا گیا جو آپ نے انہیں لکھا تھا ۔جہاں تک اس ماہ کے اواخر میں حیدرآباد میں آل انڈیا بلوچ کانفرنس اٹنڈ کرنے کی آپ کی تجویز کا تعلق ہے تو مسٹر کیٹر نے مجھے آپ کو اُس قول کے یاد دلانے کا کہا جو آپ نے ہزہائی نس مرحوم خان ( خان اعظم خان)کو دی تھی جب آپ کو سردار مقرر کیا گیا تھا ۔ وہ یہ تھی کہ آپ اپنے تمن سے باہر کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے ۔ اس کا یقیناًیہ مطلب تھا کہ آپ بلوچستان سے باہر سیاسی تحریکوں کی سرگرم مدد نہیں کریں گے ۔ اب آل انڈیا بلوچ کانفرنس کو کسی صورت میں بلوچستان کی تحریک نہیں سمجھا جاسکتا۔ یہ مکمل طور پر پنجاب اور سندھ میں ابتدا اور منظم ہوئی ہے ۔ اور ماسوائے آپ کے اور چند دیگر کے بلوچستان میں ایک شخص بھی اس سے دلچسپی نہیں رکھتا ۔ بلکہ اس کے برعکس مقبولِ عام احساس بلاشبہ دوسرے صوبوں کی مداخلت کے خلاف ہے ۔
’’ اس سلسلے میں مسٹر کیٹر یہ سننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ آپ حیدرآباد کانفرنس میں اپنی حاضری کے بارے میں فارن سیکریٹری سے بات کریں ۔ مگر وہ واضح کرتا ہے کہ مسٹر مٹکاف کے ساتھ نجی گفتگو کے دوران ادا کیے گئے ریمارکس کسی صورت میں اے جی جی کی ایک ایسی راہ پہ منظوری نہ ہوگی جس سے آپ نے پہلے ہی بچنے کا واضح طور پر وعدہ کر رکھا ہے ‘‘۔
ہائے ، قسمت ایک صدی بعد بھی اُس فکر سے وابستہ لوگ اسی احتیاط و احتیاج کے محتاج ہیں ۔سماج ایک ذرّہ بھی آگے نہیں بڑھا۔
مگر، احتیاط اپنی جگہ ، پرانقلاب کا چوما ہوا دل بجز بزدلی سب کچھ ہوسکتا ہے ۔ مست ؔ کے بقول دھمکیوں ، جھڑکیوں سے دیوانے کہاں منع ہوسکتے ہیں؟۔ مگسی صاحب کانفرنس میں شرکت کی خاطرسرداری تک چھوڑنے کی دھمکی دے دی۔(1) یوسف اسی جوش وخروش کے ساتھ بلوچ کانفرنس کے اس سالانہ سیشن کی انتظام کاری ، شرکت داری ، مالی کفالت، اور دانشورانہ پہلوؤں میں نمایاں ترین شخص ہی رہا۔

حوالہ جات

۔1۔ ژوب لورالائی ایس پی کی پولٹیکل ایجنٹ کو روزنامہ ’’انقلاب‘‘ کے 21اکتوبر1933کے حوالے سے رپورٹ ۔ بلوچستان آرکائیوز کوئٹہ۔
۔2۔ اداریہ ،روزنامہ انقلاب لاہور۔ 8دسمبر1933صفحہ 3
۔3۔رپورٹ منجانب ایس پی کوئٹہ پشین بجانب سیکریٹری اے جی جی ۔ 26دسمبر1933 بلوچستان آر کائیوز۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے