نام کتاب   :           سپارٹیکس

مصنف    :          ہاورڈ فاسٹ

مترجم      :            محمد مری

ناشر       :          سنگت اکیڈمی کوئٹہ

تبصرہ    :             حنا جمشید

                ہاورڈ فاسٹ کا ناول ”سپارٹیکس“ سلطنتِ روم کے اُن غلاموں سے تعلق رکھتا ہے جنھوں نے تاریخِ انسانی میں سب سے پہلے غلامی کے خلاف مزاحمت کی، خون بہایا اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ لیکن روم کے اشرافیہ اور حکمران طبقات کے سامنے جھکنے سے انکار کیا اور اپنے حقوق کی جنگ خود دلیری سے لڑی۔ سپارٹیکس عظیم سلطنتِ روم کا وہ پیدائشی غلام تھا جسے زبردستی اغواء کر کے روم لے جایا گیا اور غلامی کے ساتھ ساتھ قتل کرنے کی بھی تربیت دی گئی تھی تاکہ وہ اشرافیہ کے لیے تفریحِ طبع کا ساماں فراہم کرے۔

                یسوع مسیح کی پیدائش سے کوئی ایک  ہزار سال قبل اٹلی کے جنوب میں یونانی آباد تھے جبکہ مرکز میں ایک غیر آریائی آبادی ایطرسکانی سکونت پذیر تھے جنھوں نے مختلف آریائی قبائل کو زیرِ نگیں کیا ہوا تھا۔ چھٹی صدی قبل از مسیح میں جب ایطرسکان بادشاہوں کی بادشاہت ختم ہوئی تب روم، جو اٹلی کا دارلحکومت تھا،اشرافیہ کی سرزمیں بن گیا،جہاں اشرافیہ کے زیرِ نگیں محکوم طبقہ، ظلم و استحصال کی چکی میں پستا رہا۔  یہ محکوم لوگ صدیوں تک اپنی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے رہے اور آخر کار کامیاب ہوئے۔

                ۰۴۲ قبل از مسیح میں جب سسلی کو فتح کر کے اُسے رومیوں کا مفتوحہ علاقہ قرار دیا گیا تب خزانے اور زرخیز زمینوں کے ساتھ ساتھ روم کو بے شمار غلام بھی ہاتھ آئے۔ اب حالات یہ تھے کہ روم میں غلاموں کی کثرت تھی۔ اشرافیہ کے ہر طبقے کے پاس غلاموں کی پوری فوج تھی،  جن کی جان،مال، عزت، آبرو سب حاکموں کی ملکیت تھا،جنھیں ڈھنگ سے کھانا تک میسر نہ تھا۔ اُن کے پاس اپنی قوت کے اظہار کا صرف ایک ہی طریقہ تھا۔۔بغاوت!

                اٹلی کے انہی کشیدہ حالات کے تناظر میں، ۳۷ قبل از مسیح میں سپارٹیکس کی قیادت میں، وہ عظیم بغاوت ہوئی جو تاریخ میں امر ہوگئی۔ جس نے آقا اور غلام کے معنی بدل ڈالے۔ سپارٹیکس جو ایک غلام کی اولاد ہونے کی وجہ سے اپنے بچپن میں ہی ایک سونا نکالنے کی کان میں زبردستی لایا گیا۔ کیونکہ:

”چٹان کے اندر سونے کی موڑ کھاتی ہوئی رگوں کے پیچھے پیچھے گرمی، گرد اور جسمانی مشقت کے لیے مصر یا ایتھوپیا سے کسی کسان کو ملازم رکھنا ممکن ہی نہ تھا۔ عام غلام ایک تو مہنگا پڑتا دوسرا یہ کہ وہ مر جلدی جاتا۔ چنانچہ ایسے مقام پہ قیدی بنائے گئے، سپاہی لائے جاتے جنھیں جنگ نے فولاد  بنا دیا تھا، یا پھرگردنوں میں جکڑی آہنی زنجیروں کے بوجھ کے ساتھ زبردستی وہ بچے لائے جاتے جو خود غلاموں کی اولاد ہوتے۔ ظاہر ہے ایسے حالات میں صرف وہ ہی زندہ بچ سکتا تھا جو زیادہ سخت جان ہوتا۔۔“]ص۶۸[

                سونے کی کان میں غلاموں کے ساتھ ہونے والے ظلم اور زیادتی کو سپارٹیکس اپنے دل پر بار ہا محسوس کیا۔ کہیں اس کے پیاروں نے اُس کی نظروں کے سامنے بھوک اور پیاس سے بلک بلک کر جان دی تو کہیں آقاؤں کے کوڑے، ان کی سیاہ جھلسی ہوئی چمڑیوں کو جگہ جگہ سے ادھیڑ ڈالتے۔ وہ اپنے دل میں بار بار ایک ہی بات دہراتا کہ غلامی دنیا کا سب سے بڑا دوزخ ہے۔

”اس وقت اچھی خاصی سردی ہے، پر غلام ننگے ہیں۔ ان کے قابلِ رحم، تشدد زدہ اور سورج کی چلچلاتی شعاعوں سے سیاہ،جنسی حصوں تک کو ڈھانپنے کے لیے کپڑے نہیں۔ وہ سامنے کی طرف اپنے بازو باندھے کانپ رہے ہیں۔ اُسے غصہ آنے لگتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ ہر چیز برداشت کی جاسکتی ہے مگر یہ چیز بالکل ناقابلِ برداشت ہے، جب اپنا ستر ڈھانپنے کے لیے ہمیں کپڑے کا چیتھڑا تک نصیب نہیں تو ہم میں اور جانوروں میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔۔ نہیں ہم تو جانوروں سے بھی نیچ ہیں کیونکہ جب رومیوں نے اس سرزمین پر قبضہ کیا تو جانوروں کو تو چھوڑ دیا مگر ہمیں چُن چُن کر کانوں تک گھسیٹ لائے۔۔“]ص۰۰۱[ ناول میں غلاموں کی حالتِ زار کا بیان اور وہ مناظر بہت دردناک ہیں، جہاں غلام بھوک اور ظلم سے مجبور جانوروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کی کسمپرسی کی حالت قابلِ ترس ہے۔

                ”غلاموں کے لیے یہ کالے پتھر کی بڑی بڑی سلوں سے بنائے گئے بیرک تھے۔ جہاں کوئی روشنی نہ تھی۔۔ کئی دہائیوں کی گندگی اس فرش پر سڑ کر سخت ہو چکی تھی۔ اگر یہاں اندر کوئی مسئلہ ہو جاتا، تو خراک اور پانی روک لیا جاتا۔۔ تب غلام پالتو جانوروں کی طرح پیٹ کے بل رینگتے ہوئے  باہرآجاتے۔ جب اندر کسی کی موت ہو جاتی تب بھی وہی لاش کو باہر لاتے۔ پر جب کبھی کوئی بچہ لمبی بیرک میں بہت آگے اندر مر جائے اور کسی کو اُس کا پتہ نہ چلے تو اُس کی لاش کی سڑاند بالآخر اُس کا پتہ بتا دیتی۔۔“]ص۲۹[

                اور تب جب اُسے روم کی اشرافیہ کی تفریح کے لیے بنے خصوصی خونی اکھاڑوں میں خرید کر لایا جاتا ہے، جہاں دو غلاموں کو اُس وقت تک لڑنے کے لیے چھوڑا جاتا ہے جب تک کہ اُن میں سے ایک دوسرے کا خون نہ کر ڈالے، وہ  گلیڈی ایٹر تو بنتا ہے مگر اپنے ہی ہاتھ سے اپنے ساتھیوں کی جان نہیں لے پاتا۔ یہی وہ وقت تھا جب اُس نے اپنے ساتھ مزید ساتھیوں کو ملا کر پہلے اُس اکھاڑے کو برباد کیا اور پھر سلطنتِ روم سے آزادی کی ایک خونی جنگ کا اعلان کر دیا۔

”سپارٹیکس جانتا تھا کہ اگر یہ غلام بھاگ بھی جاتے تو بھی جانوروں کی طرح چَر کر زندہ رہنے پر مجبور ہوجاتے، پھر انھیں ایک ایک کر کے شکار کر لیا جاتا اور صلیب پر چڑھا دیا جاتا۔ یہ دنیا بنی ہی اس ڈھنگ سے تھی کہ غلام کے لیے کہیں بھی کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ جب وہ سپاہیوں کو اپنی طرف دوڑتا ہوا دیکھ رہا تھا، تب اُسے اس سادہ حقیقت کا اچھی طرح علم ہو گیا تھا کہ اب چھپنے کے لیے نہ تو کوئی جگہ  تھی اور نہ گھسنے کے لیے کوئی بل۔ اُس کے لیے اب دنیا کو بدلنا اشد ضروری ہو چکا تھا۔۔“]ص۷۹۱[

                اور پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب  غلاموں کی یہ جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچتی ہے اور دنیا کی ہر جنگ کی طرح طاقت ور فاتح قرار پاتا ہے اور سلطنتِ روم کے چھ ہزار غلاموں کو تسبیح کے دانوں کی مانند چوراہوں پر کھڑی صلیبوں پر میخوں سے گاڑ دیا جاتا ہے۔  ناول کا یہ وہ مقام ہے جہاں قاری اور روم کے عام شہری دونوں کے دلوں میں،ان غلاموں کے لیے ہمدردی پھوٹتی ہے۔ لیکن وہ ایک بے بسی کی کیفیت میں مبتلا نظر آتا ہے۔

                ”لوگ گلیڈی ایٹر کو مرتا دیکھنے کے لیے یہاں آئے تھے۔۔وہ ایک عجیب شخص تھا جس نے خود پہ مایوسی مسلط کر رکھی تھی۔ وہ یہ دیکھنے آئے تھے کہ کیا یہ خاموشی توڑی جا سکتی ہے؟ پھر جب میخیں توڑنے کے دوران بھی یہ مایوسی نہ توڑی جا سکی تو بھی وہ منتظر کھڑے رہے کہ آخر یہ کب ٹوٹے گی۔۔۔ اور یہ ٹوٹ چکی۔ یہ درد اور تکلیف کی ایک وحشتناک چیخ تھی۔۔یہ ایک غیر ملکی زبان تھی، کچھ نے کہا اُس نے خداؤں کو پکارا تھا۔کچھ دوسروں نے کہا اُس نے اپنی ماں کو پکارنے کی آواز دی تھی۔۔۔ جبکہ حقیقت میں وہ بے بسی سے چیخا تھا:’سپارٹیکس۔۔ ہم کیوں ناکام ہوئے؟“]ص۹۹۲[

                ہاورڈ فاسٹ نے کہانی کو بھرپور طریقے سے ایک ناول کی چوکھٹ میں ترتیب دیا ہے۔ کہانی کا پلاٹ صرف جنگ اور مزاحمت کے قصوں سے عبارت نہیں بلکہ یہاں وہ پاکیزہ محبت بھی دکھائی دیتی ہے جو سپارٹیکس اور اُس کی بیوی ورینیا کے مابین پروان چڑھی۔ جو خود ایک غلام تھی۔یہ جنگ کے ساتھ ساتھ عشق و محبت کی ایک لازوال کہانی بھی ہے۔

”سپارٹیکس نے کہا:انسان کے پاس تھوڑی سی قوت ہوتی ہے، تھوڑی سی امید اور تھوڑی سی محبت۔ یہ خاصیتیں ایسے بیج ہیں جو تمام انسانوں میں بودیے گئے ہیں۔ مگر اگر وہ انھیں محض اپنے آپ تک رکھتا ہے تو یہ بیج جلد گل سڑ کر مر جاتے ہیں۔۔۔ اس کے برعکس اگر وہ اپنی  توانائی، امید اور محبت دوسروں کو دیتا ہے تو یہ بے پناہ ذخیرہ کبھی ختم ہی نہیں ہوتا۔“]ص۵۱۳[

                سپارٹیکس کی فکری و نظریاتی محبوب بیوی ورینیا کو جب، غلاموں کی بغاوت کچل دینے اور سپارٹیکس کو مار ڈالنے کے بعد گرفتار کیا گیا تب تک وہ سپارٹیکس کے بیٹے کو جنم دے چکی تھی۔ اُس کے حسن اور جنگ میں اُس کی بہادری اور سپارٹیکس کے شانہ بشانہ لڑنے کے قصوں سے مرعوب ہو کر سلطنتِ روم کے عظیم کمانڈر انچیف نے اسے اپنی محبوبہ بنانا چاہا اور اُس کے قدموں میں زروجواہر کے ڈھیر لگا دیے۔ جسے اُس نے محض اِس لیے ٹھکرا دیا کہ اب سپارٹیکس کے بعد اس کی زندگی میں کسی دوسرے کی جگہ ہی نہ بچی تھی۔ اس کی اِسی وفاداری سے مرعوب ہو کر جو اُس وقت کی روم کی اشرافیہ خواتین میں مفقود تھی، گراکس نامی روم کے سب سے دولتمند آدمی نے اُسے یوں خراجِ تحسین پیش کیا کہ اُسے کمانڈر کے محل سے اغوا کروا کر روم سے کوسوں دور بھجوا دیا اور خود، خودکشی کر لی۔

کارل مارکس جیسے فلسفی نے سپارٹیکس کو اپنا  ہیرو قرار دیا اور اسے ’’قدیم انسانی تاریخ کا سب سے شاندار شخص اور عظیم جرنیل قرار دیا۔ جو اپنے کردار میں پاک اور قدیم پرولتاریہ کا حقیقی نمائندہ تھا۔“ ہاورڈ فاسٹ نے اپنے اس ناول میں اُس دور کو نہ صرف زندہ کر دیا ہے بلکہ سپارٹیکس کی زندگی کی کہانی کو ایسے دلچسپ اور موثر پیرائے میں بیان کیا ہے کہ قاری سلطنتِ روم کے مظالم کو اپنے تخیل کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور اپنے دل کے نرم حصوں میں اترتا محسوس کرتا ہے۔ خاص کہ اُس وقت جب اس عظیم بغاوت کو کچل دیے جانے کے بعد، اور بے دردی سے سپارٹیکس کو گوشت کے ٹکڑوں میں منقسم کر دیے جانے کے بعد اُس کے ساتھوں غلاموں اور ان کی قیادت کرنے والے اُس جیسے طاقت ور گلیڈی ایٹرز کو زندہ صلیبوں پہ ٹھونک دیا گیا۔ جہاں ان کی ہتھیلیوں اور پیروں سے نکلنے والے خون کو لوگوں نے دردناک اور  عبرت ناک نگاہوں سے دیکھا اور جن کی گدھوں سے نوچی گئی لاشوں کو انھوں نے برسوں یاد رکھا۔ اس لیے نہیں کہ آئندہ وہ ایسی بغاوت سے دور رہیں گے بلکہ اِس لیے کہ وہ اپنے ہیرو کا قصہ اپنی نسلوں کو منتقل کریں گے۔

                یہی وجہ تھی کہ تاریخ کے ان بوسیدہ پنوں میں سپارٹیکس کا نام امر ہو گیا۔جرمن کمیونسٹ پارٹی کا پہلا نام سپارٹے سسٹ لیگ رکھا گیا۔ اسی طرح ۰۷۹۱ کی دہائی میں آسٹریا میں فاشسٹ مخالف تنظیم کا نام بھی اُسی پر رکھا گیا۔ مشہور کمیونسٹ چے گویرا بھی سپارٹیکس کا بہت مداح و معترف تھا۔

                بلوچستان سے شاہ محمد مری، مظلوم اور محکوم طبقے کی آواز ہیں۔ انھوں نے اس ناول کو آسان اورموثر پیرائے میں اردو زبان کے قالب میں ڈھالا۔ کہیں کہیں تو ترجمہ اتنا رواں اور سہل ہے کہ تخلیق کا گماں ہوتا ہے۔ اسی طرح جہاں جہاں سلطنتِ روم کی اشرافیہ کے ہاتھوں مفلس اور نادرا طبقات کا استحصال نظر آتا ہے،وہاں محسوس ہوتا ہے کہ ظلم کے خلاف یہ تقاریر اور مزاحمتی بیانات سپارٹیکس کے ہی نہیں بلکہ ہاورڈ فاسٹ اور خود شاہ محمد مری کے دلوں کے بھی ترجمان ہیں۔

                سپارٹیکس کی زندگی اور جدوجہد پہ لکھے گئے ہاورڈ فاسٹ کے اِس ناول کا، ۰۶۹۱ تک دنیا کی تقریبا ۲۸ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا تھا۔ آج بھی یہ ناول اتنا ہی مقبول ہے جتنا کہ اپنے عہد میں رہا اور جس کی صرف ایک بنیادی وجہ یہی تھی کہ یہ ناول دراصل انسانی غلامی اور انسانی حقوق کے استحصال کے خلاف، سپارٹیکس کی عملی جدوجہد اور مزاحمت کی حقیقی کہانی پر مبنی تھا اور ہم جانتے ہیں کہ ایسی کہانیوں کو کبھی زوال نہیں!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے