اخروٹ بادام، خوبانی اور آلوچے کے پیڑوں تلے کافر لڑکیوں کے پرے تھے۔ رنگ برنگ گھیردار موتیوں جڑے فراکوں میں جیسے شوخ رنگ گلاب سجے ہوں آبشاروں کے برف چور سے دُھلے ہوئے یونانی ایرانی تیکھے نقوش جگ مگ رنگتیں،جیسے عنابی آلوچوں پر سفید دُھند لپٹی ہو۔ رس بھرے عنابی گودے سے سخت بدن جیسے موتیا رنگ خوبانیوں کے گلابی شیڈ، باداموں کی ساخت اوڑھے اخروٹ کے تیل سے مچ مچاتی سنہری موتی چور آنکھیں۔

”تمہارے ساتھ ایک تصویر بنوانے کے ہزاروں ڈالرہونے چاہئیں۔“

رابرٹ نے فرزین کے گال کو شہادت کی پور اور انگوٹھے کے پیٹ میں بھر کر ہلکے سے چٹکی لی، جیسے پھول کی کٹوری کے زردانوں میں پوریں ڈوب گئیں، جیسے ریشم کے تار   ُچھو گئے ہوں۔ گلاب کے پیالے میں بھری شعلہ رنگ حدت بھڑک گئی جیسے سنہری روپہلی تتلیوں کے پروں کی ست رنگی افشاں جھڑ گئی ہو۔ رابرٹ کا کیمرہ کھٹ کھٹ کئی رول بنا گیا۔

جھاگیں اُڑاتے نامعلوم سمتوں سے اُترتے آبشاروں، جھرنوں کے برفیلے پانیوں میں منعکس کوئی جل پری۔

ہرے، لال،پیلے موتیوں جڑا گھیردار،ہرا، لال فراک لہراتی برفیلے پانیوں کی سڑک پر بھاگتی ہوئی سنڈریلا۔ خوبانی آلوچوں کے پیڑوں پر منڈلاتی سنہری پروں والی تتلی بانس کی تیلیوں سے بنی لمبوتری ٹوکری پشت پر لگائے کھڑی کوئی دیومالائی، دیوی بادام کے سفید پھولوں کے گھر میں بسنے والی گل بکاولی۔

رابرٹ پروفیشنل فوٹوگرافر تھا۔ اُسے یقین تھا یہ سب تصویریں اُدھر یورپ کی آرٹ گیلریوں میں جب نمائش

اُن کے بس میں ہوتا تو اس وادی کو دُنیاکے عجائبات میں درج کروا دیتے اس زندہ دھڑکتے ہوئے عجوبوں کے سامنے احرامِ مصر، تاج محل، دیوارِ چین ابوالہول، کتنا مردہ اور بدشکل ہیں۔ یہ سولہ سترہ برس کی کیلاشی لڑکیاں ہیں کہ قیمتی انٹیکس ہیں۔ کتنی نادر و نایاب کتنی قدیم تاریخی داستانی اساطیری بناکسی فاصلاتی بعد اورکھوٹ کے سچی اور حقیقی ورنہ عجوبات میں تو کئی کئی مرمتیں تاریخی جھوٹ اورآلودگیاں شامل ہو چکی ہوتی ہیں لیکن یہ واحد انٹیکس ہیں جو ہر دَور میں نئے، تازہ، نوخیز۔کلاسیک فضا میں سانس لیتے دھڑکتے ہوئے نوادرات۔ یہ یونان والے سپین اور چین والے اس نادر کلچر کو محفوظ رکھنے کو کتنے پریشان ہیں، یہاں کسی جدید ایجاد کو گھسنے نہیں دیا گیا، نہ ٹیلی ویژن، نہ ٹیلی فون، نہ کالج، نہ یونیورسٹی اگر یہ ڈھائی تین ہزار نفوس پر مشتمل قدیم کلچر جدید ترقیوں سے ہم آہنگ ہو گیا تو پھر اپنی نوعیت کے واحد جیتے جاگتے سانس لیتے، اس عجائب گھر کو دیکھنے کون آئے گا۔ ہر خطے، ہر قوم کی کبھی ایک قدیم تاریخ اور تہذیب تھی لیکن وہ سب تو وقت کی تبدیلیوں سے ہم آمیز ہوتی چلی گئیں لیکن اس تہذیب کو دُنیا والے پتھر کے مٹھ میں قید رکھنا چاہتے ہیں، لیکن دہشت گردی کی جنگ نے اس وادی کے کلچر کو کتنا مفلس کر دیا ہے۔ سیاحوں نے اب دِلّی اور آگرہ کا رُخ کر لیا ہے یہاں کے بچے انگریزی کے رٹے ہوئے جملے اب بھولنے لگے ہیں۔ ٹورسٹ گائیڈ وادی کے ویران داخلی دروازوں پر دریائے کنہار میں ڈوبتی اُبھرتی سیاہ چٹانوں کی تنہائی میں سوگوار اُونگھتے رہتے ہیں۔ انگریزی میں گھڑی گھڑائی وادی کی تاریخ پر گرد جمنے لگی ہے۔ این جی اوز اپنے دفتر سمیٹ رہی ہیں۔ سپین اور یونان والوں کے ہیلتھ سنٹر اور سکول ویران پڑے ہیں جو خود تو راکٹوں میں سوار ہوتے ہیں لیکن ان کیلاشیوں کو اپنی قدیم نسل قرار دے کر ممیوں کی طرح پریزرو کرنا چاہتے ہیں۔لیکن اب ان کی حکومتوں نے انھیں دہشت گردی کے خطرے کے پیشِ نظرواپس بلا لیا ہے۔ اب بمبوریت کا یونانی طرز کا سکول اور میوزیم بند پڑا ہے۔ کیلاشی لڑکیاں وزنی اور تکلیف دہ لباسوں کا بوجھ اُٹھائے خاموش ویران رستوں میں سجی توہیں لیکن ڈالر نچھاور کرنے کو اب غیرملکی سیاح نہیں آتے، بس کالجوں، یونیورسٹیوں کے ٹرپ اور اِکّا دُکّا کنگلا سیاح بھولے بھٹکے چلا آتا ہے۔ آج بھی لاہور سے آنے والے کسی یونیورسٹی کے ٹرپ نے کیلاشی ڈانس دیکھنے کا اہتمام کروایا تھا جو ٹورسٹ گائیڈ سے تین ہزار میں طے پایا تھا۔ دو ہزار ٹورسٹ گائیڈ کے ہزار روپیہ انتظام کروانے والی عورت کو مِلا تھا اور ان بیسوؤں ناچنے والی پریوں کو نجانے کیا مِلا ہو گا جو ایک دوسری کے گلے میں بانہیں ڈالے پھولوں کی مالا بنی نیم دائرے میں گھنٹوں گھومتی رہی تھیں۔ رابرٹ کیمرہ پکڑے تہ در تہ سیڑھیاں پھلانگتا سب سے اُوپر والی نشستوں پر جا بیٹھا تھا، جہاں سے پورے منظر کو کیمرے میں محفوظ کیا جا سکتا تھا۔ بمبوریت کے اس یونانی طرز کے اوپن ایئر ڈانسنگ ہال کی پتھریلی نشستوں پر بیٹھے تماشائی تالیاں پیٹتے۔ ہیجان خیز آوازیں نکالتے اس متھ، رومانس اور ناسٹلجیا کے جزیرے میں گم ہو چکے تھے۔ کیلاشی لڑکے جین اور ماڈرن شرٹس میں ملبوس مجمع میں موجود پنجابی لڑکیوں کو کیمروں میں اُتار رہے تھے۔ شاید اُن کے لیے یہ ایک منفرد کلچر تھا، جسے محفوظ کر لینا چاہیے تھا۔

گھروں کی کھڑکیوں سے کیلاشی بچے اور مرد ڈرے شرمائے جھانکتے تھے جن کے زِینوں اور چھتوں پر یونیورسٹی کے لڑکے لڑکیاں دندناتے پھرتے تھے جیسے یہ گھر نہ ہوں پبلک پراپرٹی ہوں دھونکائے ہوئے مکانات غلیظ چیتھڑوں اور روئی اُگلتے لحافوں اور کالک زدہ برتنوں سے بھرے ہوئے پتہ نہیں ان کی تصویریں کیوں نہیں یہ سیاح بناتے، رنگ برنگ بیٹز جڑی ٹوپیوں اور فراکوں میں کھلتی یہ یونانی نقوش والی حسین لڑکیاں جب رقص کا کوئی انداز تبدیل کرتیں تو تماشائی تالیوں کے رِدھم میں خود رقص میں شامل ہو جاتے۔ اس وقت کیلاشی لڑکے پنجابی لڑکیوں کو اپنے کیمروں میں اُتار رہے تھے اور پنجابی لڑکے کیلاشی لڑکیوں کے حسن سے پاگل ہو رہے تھے ایک جیسے یورپی طرز کے لباسوں میں ملبوس پنجابی اور کیلاشی لڑکوں میں تمیز کرنا مشکل تھا۔زری جو اُدھر اسلام آبادکے ایک کالج میں ماس کمیونیکشن میں ماسٹرز کر رہی تھی وہ رقص کے دائرے سے نکل کر تہ در تہ پتھریلی نشستیں ٹاپتی زِینے چڑھنے لگی۔ جڑاؤ ٹوپی کی لمبی ٹیل لہراتی گھیردار فراک میں ہوا بھرتی ہوئی غبارہ سا پھلاتی پیلے موتیوں کی اَن گنت لڑیوں میں چھپی صراحی دار گردن کے اطراف باریک میڈھیوں کو گوندھے لمبی سیاہ چوٹیاں بے شمار کیمروں کے فلش ہر ہرقدم پر نچھاور ہوتے چلے گئے۔

رابرٹ ماہر فوٹوگرافر تھا۔ بے شمار رول بنتے چلے گئے۔

”تم نے کتنی تصویریں بنالی ہوں گی اب تک۔۔۔“

عام کیلاشی لڑکیوں کے برعکس جنھوں نے سیاحوں سے انگریزی کے چند جملے سیکھے تھے۔زری پڑھی لکھی اور شستہ انگریزی بول سکتی تھی۔

رابرٹ کے چہرے پر مخصوص جاپانی مسکان آمیز خوش اخلاقی پھیل گئی۔

”کم از کم سو۔“

”کتنے کی بک جائیں گی۔“

سامنے دائرے میں ناچتی پریوں میں سے فرزین باہر نکل رہی تھی۔ رابرٹ نے اُسے ہاتھ ہلایا۔

”پندرہ ہزار کی تو بک ہی جائیں گی نا۔“

”Of course, sure“

رابرٹ فرزین کے مختلف پوزز فوکس کرنے کھڑا ہو گیا۔ چھتوں زینوں پر بھرے پنجابی لڑکے بے تحاشا تالیاں پیٹنے لگے۔

اب فرزین زینے چڑھنے لگی تھی۔ہر زینے پر تالیوں کی گونج کے ساتھ سینکڑوں فلش جل بجھ رہے تھے جیسے مس یونیورس تاج پہنے اسٹیج پر کیٹ واک کرتی ہو اور ہزاروں کیمروں کی روشنیوں کا فوکس اُسی پر ہو۔

”یہ جو تمہاری طرف کھینچی چلی آ رہی ہے جس کی ہزاروں تصویریں تم بنا چکے ہو تم ساری سمولی کو اپنے ساتھ کیوں نہیں لے جاتے پھر عمر بھر اس کی تصویریں بناتے اور بیچتے رہنا صرف پندرہ ہزار میں۔۔۔ پندرہ ہزار میں تو اس کی ایک ایک تصویر بک جائے گی ہے نارابرٹ۔۔۔تم چاہوتو میں کچھ کم بھی کروا سکتی ہوں۔“

رابرٹ کی جاپانی آنکھیں مچ گئیں جیسے فرزین کے مختلف پوزز کے کئی رول اندر ہی اندر لپٹ گئے ہوں ڈانسنگ اسٹیڈیم کے چہاراطراف پھیلے مکانات کی چھتوں پر کھڑے کیلاشی لڑکے پنجابی لڑکیوں کی تصویریں بنا رہے تھے اور پنجابی لڑکے کیلاشی لڑکیوں کے ایک ایک پوز کو بااندازِ ہزار محفوظ کیے چلے جا رہے تھے۔ نشیب میں اُترتے زِینوں سے ایک کیلاشی لڑکی کمر سے بانسوں کی تیلیوں سے بنی لمبوتری ٹوکری باندھے اُوپر چڑھی جس میں چند ماہ کا ایک بچہ بیٹھا تھا جیسے تازہ سیب درخت سے توڑ کر نقش و نگار بنا ٹوکری میں سجا دیا گیا ہو۔ پورے مجمع نے بھرپور تالیاں بجائیں جیسے کوئی کمال کا سین شوٹ ہوا ہو۔ کھڑکیوں میں کھڑی مینڈھیاں گندھاتی خوبانی کے ڈھیر چھتوں پر سوکھنے کو بچھاتی چارے کے گٹھڑ کمر پر لادے دُنیا کی حسین ترین عورتیں ہزاروں فلش چمک گئے۔ تماشائی اب بمبوریت کی اس بستی کے بازار میں خریداری کرنے لگے تھے جہاں چھوٹے چھوٹے کھوکھوں میں کیلاشی ٹوپیاں فراک، جوتے، مالائیں،کنگن سجے تھے جن کے مرد دُکان دار جین شرٹس پہنے، گھڑیاں عینکیں لگائے بھاؤ تاؤ کر رہے تھے۔ کیا کلچر سنبھالنے کی ساری ذمہ داری صرف عورتوں پر ہی آن پڑتی ہے۔ چند لڑکیاں ادھر پشاور اور اسلام آباد کے کالجوں میں پڑھ رہی ہیں۔ اُنھیں بھی گلیشیرز پگھلنے کے موسموں میں جب سیاحوں کے قافلے یہاں اُترتے ہیں اس کلچرڈ پلیس پر واپس آنا ہوتا ہے۔ خوبصورت لینڈسکیپ کے شوکیسوں میں مورتیاں سی سجنا ہوتا ہے۔

کئی پڑھی لکھی کیلاش لڑکیاں یہ سوال این جی اوز سے کیا کرتی ہیں۔ آخر اُن کی کوئی پرائیویسی، ذاتی گھر کی حدبندی کیوں نہیں ہے، جہاں داخل ہونے سے پہلے اجازت طلب کی جائے، یہ وزیٹرز بنا کسی پیشگی اطلاع کے ان کے گھروں میں کیوں دھاوا بول دیتے ہیں۔ یہ کافرلڑکیاں جو اپنے نازک، نفیس جسموں پر کتنے ہی قدیم اور کلچرڈ لوازمات کا بوجھ اُٹھائے آنے والوں کے رستوں میں سجی رہتی ہیں۔ یہ جو پیلے باریک موتیوں کی مالائیں صراحی دار گردن کی زینت ہیں کبھی اس پھندے کو ہٹا کر دیکھئے توکتنے زخم ہیں جو اس خوبصورت گلو بند کی دَین ہیں جن کی تیاری میں مہینوں خرچ ہو جاتے ہیں۔ یہ جو گز گز لمبی مینڈھیوں کو گوندھنے میں صبح شام میں تبدیل ہو جاتی ہے اور جب مہینوں بعد دُھلنے کے لیے یہ کھلتی ہیں تو لڑکیوں کی چیخیں لہو رنگ آلوچوں سے لپٹتی ہیں۔ رنگ برنگ موتیوں، شیشوں نلکیوں سے بوجھل بھاری فراکوں سے چھٹتی ہمک پانیوں میں گھری اس وادی میں جیسے رُکی غلاظتیں رواں ہو جاتی ہیں۔یہ ریمبور کی بستی جس کے دیودار کی لکڑی کے فریموں میں جڑے درودیوار، برسوں کی میل میں اَٹے ہیں چونکہ یہ کسی عظیم کلچر کے نقوش ہیں۔شاید انھیں اسی شکل میں محفوظ رکھنا ضروری ہے ان کی بوسیدگی، کہنگی اور گندگی کی حفاظت بھی لازم ہے۔ عجائب گھروں کی توجدید تراش خراش قدیمی نوادرات سنبھالے ہوئے ہے لیکن ان زندہ نوادارت کے شوکیس اور الماریاں اس قدر غلیظ کیوں ہیں۔ کتنے ڈانسنگ ہال اور شتاخان(معبدگاہ) بنائے گئے ہیں لیکن اُن گھرو ں کی غلاظت اور کہنگی شاید اس کلچرکی قدامت کی شہادت کے لیے برقرار رکھنی ضروری ہے۔

دریائے کیلاش پر جھولتے پل کے دونوں اطراف ریمبور کی وادی میں پھیلی ان غلیظ رہائش گاہوں کے عقب میں وہاں کے سردار کی ہواباز بیٹی الکشن بی بی کا محل کھڑا ہے جو اس کلچر کے بچاؤ کے لیے دُنیا بھر کے وزٹ کر چکی ہے۔ عالیشان محل کے اِردگرد پھیلی غلیظ چیتھڑوں اور بدبودار لحافوں بھری ان قبر نما کوٹھریوں کی حفاظت کا دُنیا کو دورہ سا پڑا ہے۔ رابرٹ نے دُور پہاڑیوں پر بنے عالی شان شتاخان اور ڈانسنگ ہال کو کئی زاویوں سے شوٹ کیا۔ وہ ہر روز اپنے کمرے میں آ کر ان تصویروں کو لیپ ٹاپ پر محفوظ کرتا ہے ہر ہر تصویر کو بیسوؤں زاویوں سے پرکھتا ہے تو اُسے محسوس ہوتاہے اب اُس کا کام یہاں پر مکمل ہو چکا ہے اب اس سیاح کو کوئی دوسری سرزمین کھوجنی چاہیے لیکن پھر اگلے روز اس وادی کے کچھ ایسے نظارے سامنے آ جاتے جو اُس پر پہلے کھلے ہی نہ تھے اور فرزین اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں پوچھتی ہے۔

”آج کے یہ فوٹو کتنے میں بک جائیں گے۔ پندرہ ہزار تو مِل ہی جائیں گے نا۔“

دونوں شانوں سے پشت تک جھولتی میڈھیاں گندھی چوٹیوں کی ستار پررابرٹ اُنگلیاں بجاتا ہے۔

”پندرہ ہزار تو ان دو سانپوں کی ایک تصویر کی قیمت ہے۔ ڈارلنگ۔۔۔“فرزین سمجھتی ہے کہ اس انگریزی لفظ کا مطلب ہے ”پیاری“ گویا وہ فرزین سے محبت کا اظہار کر رہا ہے۔

بمبوریت کے قبرستان میں تابوتوں میں کھلی پڑی پرانی ہڈیاں اور کھوپڑیاں بدبو چھوڑ رہی تھیں۔

نئے مردوں کو اب زمین میں دبانے کا رواج ہو چلا تھا کیونکہ جب یہ کیلاشی تین دِن تک آخری رسومات کے بعد میّت کو اُس کی اشیاء کے ساتھ کھلے تابوت میں چھوڑ کر جاتے تو ادھر باہر سے یہ مسلمان آ کر اُن کے کپڑے، برتن، چارپائی،کھانا چرا کر لے جاتے سو اَب ہر شئے مردے کے ساتھ ہی دفن کر دی جاتی ہے۔ سوائے اُن چند پرانی کھوپڑیوں اور ہڈیوں کے جواب خاک بن رہی ہیں اس کلچرڈ قبرستان سے سب کچھ چرالیا گیا ہے۔ رابرٹ نے کئی سنیپس لیے قبرستان کے داخلی رستے پر اُبلتے چشمے کے کنارے کیلاشی بچے بیٹھے تھے جن کے آلوچوں جیسے گال پرانی میل سے اَٹے تھے۔ پانیوں میں ڈوبی اس وادی میں دھونے نہانے کا شعور ان این جی اوز نے شاید اسی لیے نہ دیا تھا کہ کہیں قدیم کلچر دُھل نہ جائے۔

فرزین کا گھر چہاراطراف جھنکار سی گرتی آبشار میں کشتی کی طرح ڈولتا تھا۔ برف کے موسموں والی کوٹھری کے اطراف میں بنے چبوترے پر لیپ ٹاپ رکھے رابرٹ اُسے سینکڑوں تصویریں دِکھا رہا تھا۔ہر منظر فرزین کے مرکز سے پھوٹتا تھا جیسے کیلاش کا سارا حسن، سارا اچنبھا، سارا رومان اسی سوتے سے رواں ہو۔

فرزین کو ان تصویروں کی کاریگری، قدروقیمت سے کیا آگاہی۔۔۔ لیکن رابرٹ جاپانی لہجہ انگریزی میں ان تصویروں کی تعریف کرتے ہوئے بچوں کی طرح کھلکھلاتا تھا جیسے تصویروں میں سے سکوں کی جھنکار نکلتی ہو۔

فرزین نے باہر کی دُنیا کبھی نہ دیکھی تھی۔ اُردو بولنا بھی نہ جانتی تھی لیکن ان غیرملکی سیاحوں سے انگریزی کے کئی جملے سیکھ گئی تھی وہ انھی جملوں میں اس جاپانی فوٹوگرافر تک اپنا مافی الضمیر پہنچانے کی کوشش کرتی لیکن یا تو جملے بہت ادھورے تھے یا پھر جاپانی فوٹوگرافر بہت غبی تھا جو اُسے ان تین مہینوں میں یہ نہ بتا سکا تھا کہ کیا یہ تصویریں پندرہ ہزار میں بک جائیں گی۔

گھر کے صحن میں خوبانیوں کے پیڑوں تلے جھلنگا سی چارپائی پربوسیدہ لحاف بچھائے اُس کی پھوپھی شلوارقمیص میں ملبوس بیٹھی تھی، جو سر کو سفید دوپٹے میں ڈھکے درود شریف کا وِرد کر رہی تھی اتنی گوری جتنا سفید جھاگ اُڑاتا برف چور آبشار بغلی چٹانوں پر سے گر رہا تھا۔پندرہ برس پہلے جہلم کا ایک اُدھیڑ عمر مرد اُسے پانچ ہزار کے عوض لے گیا تھا کیونکہ پانچ بچوں کے باپ اس رنڈوے سے کوئی پنجابن عقد کرنے کو تیار نہ تھی لیکن اخروٹ کی اس کیلاشی کلی کو پسند یا خواہش کی کیا خبر تھی یہ خوبانی کی اصلی شراب جس پیالے میں ڈلی اُس ساخت میں ڈھل گئی۔ فرزین اس انوکھی ساخت کے پیالے میں ڈوبتی اُبھرتی اِک نئی دُنیا کو دیکھتی تھی۔ اُڑتا ہوا ہوائی جہاز انگریز خواتین کا سا ملبوس اور رابرٹ کے بیگ میں سیکڑوں تصویریں جو ہزاروں روپوں میں بکنی تھیں۔

رابرٹ نے اس حسین اور باوقار عورت کی تصویر بنائی اور پھر ڈلیٹ کر دی یہ تو کہیں بھی کوئی بھی ہو سکتی ہے جیسے انگریز عورتیں اسلام آبادکے بوتیکس سے پاکستانی لباس زیب تن کر لیتی ہیں۔ بالکل ویسی ہی گوری گوری نیلی آنکھوں والی، جیسے پشاور کی کوئی پٹھانی لمبی چوڑی تروتازہ بدن والی جیسے لاہور کی کوئی بٹنی شاداب چہرے والی اس میں کلچر کہاں ہے۔ کیلاش کہاں ہے۔

رابرٹ نے قریب بیٹھے خوبانی کا شربت پیتے اس مرد کو نفرت سے دیکھا۔

”ظالم انسان! سنہری پری کے گل رنگ پروں کی افشاں کو خاکستر کر کے کتنا معمولی عام اور بے وقعت کر دیا ہے۔ خوش ہے کہ کافر کو مسلمان بنانے کے بدلے جنت میں گھر مِل گیا۔ انتہاپسند دہشت گرد۔“ رابرٹ نے اس کریہہ صفت انسان کی کئی تصویریں بنا لیں۔ شیطان ڈیول کسی انگریزی اخبار کے لیے اُس کی ٹاپ سٹوری کا وِلن۔

جس روز یہ جاپانی فوٹوگرافر سیکڑوں تصویروں کا خزانہ سمیٹے اُس کلچرڈ وادی سے رُخصت ہوا۔ فرزین شتاخان میں گھٹنے ٹیک کر گھنٹوں دُعا کرتی رہی کہ یہ تصویریں اِتنی مہنگی بکیں کہ یہ جاپانی سیاح پندرہ ہزار روپیہ لے کر واپس اس وادی میں آئے اور پھر۔۔۔

اور یہ جاپانی سیاح جہاز کی آرام دہ نشست سے ٹیک لگا ئے کسی انگریزی اخبار کے لیے مضمون لکھ رہا تھا۔

”وادیئ کیلاش دُنیا کے حسین ترین لینڈسکیپ پر واقع ایک قدیم قبیلے کی بہت ہی منفرد اور نایاب کلچر والی وادی ہے، جہاں فرزین جیسی حسین لڑکیاں اپنے روایتی گٹ اپ میں دُنیا سے کٹے ہوئے اس عجائب گھر کے بیش قیمت نوادرات ہیں جنھیں اسی صورت میں یہیں قائم و دائم رکھنے کی ذمہ داری پوری دُنیا پر عادی ہوتی ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے