پتا نہیں،آپ سے وہ خط پوراپڑھا بھی گیا،جو ایک معصوم بچے نے خودکشی سے پہلے اپنی ماں کے نام لکھا اور جس میں نظم و نسق کے نام پر  روا رکھے جانے والے ایک استاد کے غیر انسانی سلوک کی شکایت کی گئی تھی۔اسی طرح نجانے آپ سے اس بچے کی روداد بھی پڑھی جا سکی،جس کی توتلی زبان اور نحیف کندھوں پر سکول نے یہ ذمہ داری ڈال دی تھی کہ وہ اپنے والد کو اپنے ساتھ سکول میں لے کر آئے۔ معصوم کی استدعا سن کر متوقع بے عزتی سے خائف ابا جان نے اسے تھپڑ رسید کیے اور جب اس ہراساں بچے نے خودکشی کی تو اباجان کی بے ہوشی کے مناظر ہمارے میڈیا نے دکھائے۔مجھے اپنی کمزوری کا اعتراف ہے کہ مجھ سے تو سروسز ہسپتال لاہور میں انسانی غفلت کا شکار ہونے والے نو زائیدہ بچوں کی ہلاکت کا احوال بھی پڑھا جا سکا،نہ دیکھا جا سکا،بلکہ اس روز اپنے ایک دوست کالم نگار کے کالم سے بھی کوفت ہوئی،جس نے اپنے ہمہ وقتی ممدوح کے بارے میں لکھا تھاکہ انہوں نے قومی مفاد میں برضا و رغبت جب اپنی’شرٹ‘ اتاری تو ان کے ماتحت عملے کو بھی ان کی تقلید کرنے اور آقا اور غلام کی تفریق مٹانے کا ایک تاریخی موقعہ مِلا۔ مگر جو کچھ اس وقت پاکستان میں ہو رہا ہے،اس میں ہماری آخری امید ہمارے بچے ہیں۔انہیں بھی ان کے استاد،باپ اور حاکم خودکشی پر آمادہ کر دیں یا ان کے سلسلے میں روا رکھی جانے والی اپنی غفلت کو مشیتِ ایزدی قرار دے دیں،نہ صاحب،یہ ڈرامہ اب نہیں چل سکتا۔

   اس میں شک نہیں کہ بالائی طبقے کا یہ مسئلہ نہیں،متوسط طبقہ کے تو بیشتر وسائل اپنے بچوں کی تعلیم اور دعائیں اور منتّیں ان کے کیریر سازی کے لئے وقف ہیں۔پھر یہ کیوں ہو رہا ہے؟۔ بے شک اپنے بچوں پر ہاتھ اٹھانے والا باپ بھی ’مجبور اور مظلوم‘ ہو سکتا ہے۔ اشفاق احمد کے افسانے’پناہیں‘ کا ایک باپ جو گھریلو ناچاقی کے سبب اپنے بیٹے کو بے دردی سے مارتا ہے اور پھر عمر بھرخود محبت سے بھی آنکھیں ملانے یا پیارکا ایک نام لینے کے بھی قابل نہیں رہتا۔جب لُٹ لٹا کر سرحد پار آتا ہے تو نوکری کی تلاش میں ایک سکول میں جا کر سوال کرتا ہے اور دنیا جہان کا کرب اس کی صدا میں مجسم ہو جاتا ہے’ماسٹر جی،میَں پڑھا لکھا مہاجر ہوں،مجھے اپنا ماتحت رکھ لیجئے،میَں بچوں کو بالکل مارتا نہیں‘۔اور بلک بلک کر رونے لگتا ہے۔ یہ جو ٹیگور کا ایک فقرہ ہم رات دن دہراتے رہتے تھے کہ دنیا میں آنے والا ہر نیا بچہ خالقِ کائنات کا یہ پیغام لاتا ہے کہ وہ اپنی دنیا سے مایوس نہیں ہوا،پھر یہ کیا ہوا کہ ہم نے اپنے بچوں کو اس جادوئی بنسری بجانے والے ناراض شخص کے حوالے کر دیا ہے،جو ہماری بستیوں کو معصوم کلکاریوں سے انتقاماًخالی کرنا چاہتا ہے۔خودکشی،تین طلاقیں اور کسی کو لکھے جانے والے آخری خط سے دردناک کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔بدقسمتی سے میرے اپنے افسانوی مجموعے کا عنوان ہی’آخری خط‘ ہے، جو اوساکا یونیورسٹی میں اپنی اردو کلاس کے ساتھ ِمل کر میَں نے قسط وار لکھا تھا،جب وہاں کی ایک ممثلہ نے اپنی معذور ماں کواس کی وہیل چیر پر اپنے آنجہانی باپ کی قبر پر لے جاکر خودکشی کی تھی۔یہ اور بات کہ میری اس کتاب کے عنوان کی ایک اور معنویت سے مجھے میری آٹھ سالہ نواسی نے آشنا کرایا،جس نے میرے رائٹنگ پیڈ کے ہر صفحے پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچنے پر میرے احتجاج پر کہا تھا’نانا،آپ تو آخری خط لکھ چکے ہیں،اب یہ پیڈ آپ کو کیوں چاہیے‘؟۔قومی مفاد میں آنسو بہانے والے مگر مچھ بڑے بڑے لوگوں کی بگڑ جانے والوں اولادوں کے ذمہ داروں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔کوئی ان کے والدین کی رنگین جوانی،کوئی ان کی اسیری،کوئی ان کے سیاسی حرص اور کوئی ان کے تجاہلِ عارفانہ پر انگشت نمائی کررہا ہے۔کوئی ان کے استادوں،اتالیقوں،میڈیا ایڈ وائزروں اور نام نہاد چچاؤں کو ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔کاش ہم ان سب بڑوں کی بگڑی اولادوں کی اصلاح کے لئے کسی،مدر ٹریسا،کسی عبدالستار ایدھی،کسی یوسف عزیز مگسی قسم کے نرم دل شخص کی نگرانی میں قائم کوئی ایسے تربیتی مرکز بنا سکیں،جہاں ان کے بڑوں (استاد اور والد) کو آٹھ سے دس برسوں کے لئے سماجی خدمات ادا کرنے کا پابند بنا سکیں،تاکہ ہماری بستیوں سے معصومیت بے بسی بن کر رخصت ہوتے وقت کوئی آخری خط نہ لکھے۔میَں نے ذمہ داروں میں ماؤں کا نام اس لئے نہیں لیا کہ ان معصوموں کے پاس دو ہی تو مکتوب الیہ رہ گئے ہیں،اللہ اور ماں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے