حقیقت ہی تو کہتے ہو

کہ ہم غدار ٹھہرے ہیں

ہمارا خون گندہ ہے

ہماری سوچ پہ طاری ہے

صدیوں کی مقدس سے مقدس تر

غلاظت ہائے نا گفتہ

ہمیں تا عمر الجھائے رکھا ہے

دوغلے افکار و بے منطق نظریوں میں

نظریے جو ہیں متروکہ

سبھی افکار جو جھوٹے

مگر ہم نے زباں اپنی کبھی کھولی

نہ ہم سے قبل لوگوں نے ہمارے بولنے کا

کوئی ساماں رکھ دیا تھا

اب ہمارے بعد بھی یہ بے زبانی، سر خمیدہ، جی حضوری

آنے والوں کے لیے ورثے میں رکھی ہیں

میری دھرتی کے وارث

تم ہمیں غدار کہتے ہو

یہ غداری جو ہوتی

تو پہلے چیخ اٹھتی

مگر تم نے ہماری بے زبانی تک کو زیرِ پا رکھا ہے!!!۔

اپاہج قوم کے تم ہو محافظ

مگر تم نے

حفاظت کے معانی تک بدل ڈالے

تو ہم اسکی بھی زمہ داری لے لیں؟

بھلا یہ کیا کیا تم نے

ہماری قطرہ در قطرہ کمائی عمر کی بارود میں رکھ کے

ہمارے جسم کے پرزے اڑائے

اور ہم نے اف بھی نہ کی

نہ کسی نے اٹھ کے پوچھا

صحیح کہتے ہو

غداری ہماری ہے

ہم ہی نے سالہا مظلومیت کا سیاہ لبادہ اوڑھے رکھا

اور تمھارے سرخ رو ہونے کی منت مانتے آئے

یہ غداری نہیں تو اور کیا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے