روایت ہے کہ انگریزوں کے زمانے میں ایک گاؤں میں کچھ لوگ مہاجرت کر کے آئے تھے۔ کہاجاتا ہے کہ شاید وہ اپنے آبائی گاؤں سے کسی جنگی مسئلے پہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ جتنے لوگ آئے تھے وہ سب ایک ہی قبیلے سے یا پھر ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے تھے، جو کہ کل سات گھرانے تھے۔ ان گھروں میں سے ایک گھر میں ایک نہایت ہی خوبصورت، شریف لڑکی تھی جس کی سادگی بے مثال تھی۔

                ان کے پڑوس میں میں ایک شخص ” دراؔؔ” کا گھر تھا جو اپنی بہادری اور مہمان نوازی کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ایک دن ایک شخص در ؔاکے گھر آگیا۔وہ شخص ثقافتی لحاظ سے اس گاؤں کا نہیں لگتا تھا۔ اس سے ملنے اور حال وحوال کے بعد اس شخص نے بتایا کہ اسے دراؔسے بہت ضروری کام ہے۔تو دراؔنے کہا کہ آپ دراؔ سے ہی مخاطب ہو۔وہ شخص بولا کہیں اور جا کے بات کرتے ہیں۔وہ دونوں تھوڑے فاصلے پہ چلے گئے اور اس نے دراؔ کو بتایا کہ میں بہت دور سے آیا ہوں آپ کا نام سنا تھا اور آپ کا نام لیتے لیتے یہاں پہنچا ہوں۔میرا آپ سے بہت ضروری کام ہے اگر آپ میرا کام کرو گے تو بتادوں گا اگر نہیں کرسکتے تو یہی سے واپس چلا جاؤں گا۔ دراؔ نے کہا کہ ”مہمان کے لئے میں اپنی جان دینے کے لئے بھی تیار ہوں بس آپ حکم کریں“۔ اس شخص نے بتایا کہ آپ کے گاؤں میں تقریباًچھ مہینے پہلے کچھ لوگ نقل مکانی کر کے آئے تھے۔میری محبوبہ بھی ان میں ہے۔آپ ایک احسان کریں مجھے اس سے ملائیں۔میں آپ کا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا“۔دراؔ نے کہا کہ آپ کا کام میں کروں گا لیکن میں اس عورت کو نہیں جانتا ہوں۔ اس شخص نے کہا اگر ویسے کوئی بہانہ کرو تو کوئی بات نہیں ورنہ اس کو پہچانے کی ضرورت ہی نہیں وہ خود آپ  کوپہچانے گی۔ دراؔ نے کہا کیسے؟ اس نے کہا میری چھڑی لے جاؤ اس کے چھڑی کے نیچے لوہا لگا ہوا تھا اور دراؔکو بولا کہ گھر کے پاس گئے تو چھڑی کا نچلا حصہ زمین پر گھسیٹا ھوا لے جاؤ تاکہ چھڑی سے آواز آئے وہ اس کی آواز پہچانے گی۔ وہ چھڑی پہچانے گی اور خود آپ سے بات کرے گی اور اگر بات نہیں کیا تب بھی سمجھیں کہ آپ نے میرا کا م کرلیا۔ پھر دونوں بیٹھک آئے۔ دراؔ نے کہا آپ یہی رہوں میں ابھی جاتا ہوں۔چھڑی لے کر دراؔ چلاگیا۔

                دراؔاس چھڑی کو لے کر چلا گیا چونکہ اس عورت کی گھر کچھ فاصلے پہ تھی۔ جب دراؔ اس عورت کے گھر پہنچا تو وہاں گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔ جبکہ ایک بوڑھی عورت گھر میں تھی اس نے پوچھا کہ کون ہو؟ ڈاڈی کوئی مرد گھر میں ہے۔ دراؔ بولا اور چھڑی کو زمین پر گھسیٹا ہوا آگئے بڑھ گیا۔ وہ بوڑھی عورت بولی آپ کون ہیں اور کس سے ملنا ہے۔ گھر میں کوئی نہیں ہے۔

                دراؔ نے کہا کہ ساتھ ہی کچھ دور رہنے والا ہوں۔میں نے سوچا کہ پڑوسیوں کا حال  حوال پوچھ لوں۔لیکن اب کوئی گھر میں نہیں ہے چلتا ہوں پھر کبھی آؤں گا۔ بوڑھی عورت بولی بیٹھو کچھ کھا پی کہ جاؤ۔دراؔنے کہا جب گھر میں مرد حضرات ہونگے تب آؤں گا۔

                 دراؔ آگے بڑھنے لگا۔بوڑھی عورت سے تھوڑے فاصلے پر جونہی اس عورت کے قریب پہنچا تو اس نے چھڑی دیکھی اور بہت ہی مدہم آواز میں بولی کہ ” چھڑی کا مالک کہاں ہے؟”

                 دراؔ نے کہاں کہ چھڑی کے مالک نے کہا کہ کہاں ملوگی؟ وہ عورت بولی ہمارے گھر کے پیچھے ایک بڑا درخت ہے اسے کہنا کہ وہاں آئے۔ میں زندہ رہی تو آؤں گی رات کو“۔

                دراؔ واپس آگیا اس شخص کو سب کچھ بتا دیا اور دونوں نے دوپہر کا کھانا کھانے کے کچھ دیر آرام کیا۔پھر مغرب کے بعد کھانا کھا کے نکل گئے اس سے ملنے۔ رات تاریک ہوچکی تھی اور دونوں آکر درخت کے پاس انتظار میں بیٹھ گئے۔ ابھی تک اس عورت کے گھر سے لوگوں کی آواز یں آرہی تھیں۔پھر کچھ دیر اور انتظار کرنے کے بعد خاموشی چھا گئی۔ کافی دیر انتظار کرنے کے بعد دراؔبولا شاید آپ کی محبوبہ بھول گئی ملنا یا سو گئی ہوگی۔ میں جا کر اسے جگا کر بلاؤں گا۔

                وہ شخص بولا۔نہیں اگر وہ مجھ سے سچی محبت کرتی ہے تو خود آئے گی۔ خیر تھوڑا وقت اور گزر گیا کہ کسی کے پیروں کے آہٹ آنے لگی اور جب دیکھا تو وہ عورت آرہی تھی۔جیسے جیسے وہ عورت قریب آنے لگی تو وہ شخص دراؔ سے اجازت لے کر دس قدم کی دوری پر آگے بڑھنے لگا۔جونہی اس عورت کے قریب پہنچا تو اس نے اپنی محبوبہ کو بانہوں میں لیا اور ایک آواز آئی کہ "صدقے جاؤں "۔ دراؔکے خیال میں یہ بات شاید اس عورت نے کہی ہوگی۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد اس شخص نے دراؔ کو بلایا کہ میرے پاس آؤ۔ دراؔ حیرانگی سے آگے بڑھنے لگا جونہی اس کے پاس پہنچا تو اس شخص نے کہا کہ میری محبوبہ کی روح قبض ہوگئی ہے میری بانہوں میں۔اب میری مدد کرو۔ بہت ہی احتیاط سے کہیں گر نہ جائے۔ پھر دونوں نے بہت احتیاط سے اس عورت کو زمین پر رکھا اور پوری طرح دیکھا واقعی وہ دنیا سے رخصت ہو چکی تھی۔ خیر پھر ان دونوں نے افسردہ ہو کر اس عورت کے ہاتھ پاوں کو سیدھا کیا آنکھیں بند کیں۔پھر اسے  اٹھا کر اس کی کڑی (جھونپڑی) پر بہت ہی احتیاط سے وہاں رکھ دیا جہاں اس کی سونے کی جگہ تھی۔اور ایک دفعہ پھر اس کے ہاتھ پاوں کو سیدھا کیا۔ دوپٹہ اوپر بچھا کر چل پڑے۔

                راستے میں وہ شخص بولا کہ میری امید کی چراغ بجھ گئی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔

                آگے بڑھتے ہوئے دو راستے تھے ایک دراؔ کے گھر کی طرف جاتا تھا اور دوسرا اُس شخص کے گاؤں کی طرف۔اب فجر کا وقت ہو چکا تھا اور وہ شخص اپنے گاؤں کی طرف چل پڑا۔جونہی درا نے دیکھا تو ایک دم بھاگتے ہوئے کہا کہ پاگل ہوگئے ہو کیا۔ کہاں جا رہے ہو گھر چل کر آرام کرو۔ رات کو بھی سوئے نہیں اب تھوڑا آرام کرو روشنی ہوتے ہی چلے جاؤ۔ اس شخص نے کہا کہ میں چلتا ہوں۔مر تو میں اسی وقت جاتا اس کے ساتھ لیکن آپ کو بتا کر میں نے خود کو گناہ گارکیا۔اب بھی شاید گاؤں پہنچ جاؤ ں یا پہلے مر جاؤ ں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اگر میں زندہ رہا تو آپ کا احسان کبھی نہیں بھولوں گا اور آپ سے ملنے آؤں گا۔ اب اجازت چاہتا ہوں۔ آپ یہ پیسے لیں اور میری محبوبہ کے کفن کے لئے انہیں دے دیں۔ کسی بھی طرح۔بلوچی قسم کھاؤ اور انہی  پیسوں سے اس کے کفن وغیرہ پر خرچ کرو۔

                پھر وہ شخص چلا گیا اور بقول دراؔکہ وہ دس روپیہ تھے اور دراؔ واپس اسی عورت کے گھر کی طرف گیا۔ پاس پہنچا تو لوگوں نے بتایا کہ فلانی کی زوجہ انتقال کر گئی اور درہ نے وہاں پہنچ کر قسم کھائی کہ آپ ہمارے گاؤں میں نئے ہو۔مرحومہ کے کفن کے پیسے میں دوں گا اور وہ دس روپے اس کے شوہر کو دے دیے۔ روایت ہے کہ اس زمانے میں ڈیڑھ روپے کفن وغیرہ پر خرچ ہوتے تھے اور ساڑھے آٹھ روپے کی تین دنبے آئے۔جو اس عورت کی ایصال ثواب کے لئے خرید کر خیرات کیے گئے اور دراؔ سے روایت ہے کہ پھرکبھی اس شخص کا کوئی پیغام نہیں آیا شاید وہ بھی اس دنیا میں نہیں رہے۔

آج ایک صدی گزرنے کے بعد ان دونوں محبت کرنے والوں کا ذکر کہیں کسی بزرگ شخص، اخبار یا میگزین میں نہیں ملتا۔ بظاہر تو وہ اس دنیا سے پردہ پوش ہوگئے لیکن وہ ہمیشہ کسی ادیب، دانشور،جستجو کرنے والے اور محبت کرنے والے کے دل میں زندہ رہیں گے۔۔۔اُن دونوں کے نام معلوم نہ ہو سکے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے