بْور آیا ہے کہ اک شوقِ نمو بولتا ہے
گْلِ پر جوش کی نس نس سے لہو بولتا ہے
کتنی شیرینی اْتر آئی ہے لہجے میں مرے
میری آواز میں لگتا ہے کہ تْو بولتا ہے
تیری خاموش نگاہی کے تکلم کی قسم
تْو اگر چْپ ہو تو اک عالمِ ہْو بولتا ہے
کرنا پڑتی ہے بہت صوت و صدا پر محنت
تب کہیں جا کے ترنم میں گْلو بولتا ہے
دل نہیں مانتا یہ تْو ہے مخاطب مجھ سے
اس رعونت سے فقط مجھ سے عْدو بولتا ہے
سلِ گیا چاک گریبان مگر بخیہ گرو
اب جو بازار میں نکلوں تو رفو بولتا ہے