آج کل میری پوروں کی سب جنبشیں۔۔

تیرے دلکش خدوخال گنتے ہوئے۔۔

رنگ، خوشبو لفظ عشق لکھتے ہوئے۔۔۔۔

تجھ کو گنتے ہوئے، تجھ کو چنتے ہوئے۔۔۔۔۔

کینوس پر برش سے ہماری کہانی کے سب ممکنہ نام کہنے لگی ہیں۔۔۔

تیری مغرور آنکھوں کو پینسل کی سیاہی سے

اک بار میں ہی مکمل بتانا تو ممکن نہیں۔۔۔

ترے بند ہونٹوں پہ بیٹھی ہوئی وہ دوپہر کے راجا سی مدہوش ساعت

کہ جس میں تری خوشبو میری مہک سے سرعام مل کر۔

خیالوں کے ٹھنڈے بلوریں پیالوں میں بھر کے، تخیل کی مئے کو پلاتی رہی تھی

میں اس ثانئیے بھی اسی گرم خوشبو کی بانہوں میں سمٹی ہوئی

ہری آرزووں کی بل دار شاخوں سے لپٹی ہوئی۔

تیری گردن میں بانہوں کی بیتاب شوخی کی رنگین مالا پروئے ہوئے

کہ دونوں جہاں فقط ایک پل میں سموئے ہوئے۔۔۔

اپنی پوروں کی جنبش میں اک بار پھر سے

ترے مصحف بدن کی تلاوت کی لزت پرونے لگی ہوں۔۔۔۔۔

خیالوں میں سینے کا تکیہ بنائے، تری پناہوں میں سونے لگی ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے