نظم کہتی رہی

میں نہیں ہوں نہیں

ہاں کہیں ہوں کہیں

لفظ گٹھڑی بھرے

کاغذوں کے تلے

چھپ کے بیٹھے ہیں یوں

بات کرتے نہیں

دیکھتے بھی نہیں

سوچ کشتی میں چپو چلاتے رہیں

رات مجھ کو مجھی کو سناتے رہیں

تم نہیں ہو نہیں

مجھ کو مجھ میں کہیں

لفظ ملتے نہیں

تیری پہلی کرن

ڈوبتی بھی نہیں

صبح ہوتی نہیں

اور پلکوں میں بارش سموتی نہیں

رات ہوتی نہیں

نظم سوتی نہیں۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے