میں نے  کثرت سے آنکھوں کی بینائی خوابوں پہ خرچی ہے سو

آنکھ اب کوئی منظر بھی تکنے کے قابل نہیں

دل نے آنکھوں کی باقی بچی روشنائی سے خوابوں کاسودا کیا ہے

جو روز ازل سے سفیدی کی رہ تک رہی ہیں

وہ وحشت بھری ساری بے خواب آنکھیں

کہاں پر کھلی تھیں

یہ اسرار تم پر کہاں کھل سکے گا

وہ کیسا شکستہ سیہ خواب تھا

جس نے اس کار ہستی کو ٹھہرا دیا ہے

زمیں اپنی گردش سے ہٹ کر

اچانک ہی سورج سے ٹکرا گئی ہے

بدن جل گیا ہے۔۔۔۔!۔

سوائے دو آنکھوں کے اب کچھ بھی باقی نہیں ہے

یہ لاشیں جو آنکھوں میں گلتی چلی جارہی ہیں

وہ اسقاط ہیں جن کی شکلیں بنی ہی نہیں ہیں

جہاں خواب بنتے ہیں اور ٹوٹتے ہیں وہ دل بھی کہاں ہے۔۔۔۔!۔

 

یہ تم ہو، جو آنکھوں کو ہر روز نوخیز خوابوں بھری طشتری سونپتے ہو

تمہیں اب تلک اپنے خوابوں پہ قدرت ہے تو

تم مجھے میری محرومیوں پر ملامت کئے جارہے ہو

تمہیں میری آنکھوں میں خوابوں کی چبھتی ہوئی کرچیوں کا پتہ تک نہیں ہے

یہ کار اذیت جسے تم نے خواب محبت کہا ہے

نہیں دیکھتی ہوں

میں دنیا کی رنگینیوں میں ابھی اپنی تشنہ لبی سے پریشاں نہیں ہوں

مجھے اپنی تکمیل کے باقی رہ جانے پر بھی تاسف نہیں ہے

مگر تم دوبارہ مجھے

میری آنکھوں کی اجڑی ہوئی کوکھ میں

کوئی سپنا نہ ہونے کا طعنہ نہ دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!۔

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے