سمو مائی (محترمہ سمو) انیسویں صدی کے اوائل کے بلوچستان کی عورت تھی۔

میں اس نام کا لفظی مطلب ڈھونڈنے نکلا۔سمو کا مطلب ظہور شاہ ہاشمی نے اپنی ڈکشنری میں ”ملوک، شرفدار،خانوادہ، نازک، اوراچھا“لکھا ہے۔ غنی پرواز کے خیال میں سمو کا مطلب ہے: جور، یعنی زہرؔ۔ نیز سمل، سایہ دار درختوں پر لگی پھلی کو بھی کہتے ہیں جو کہ سرسبزی،خوشحالی اور سیر سالی کی علامت ہوتی ہے۔

مگر جن عام بزرگ بلو چوں  سے میں نے اس نام کا مطلب پوچھا،تووہ ایک لمحے کو توگہری سوچ میں پڑ کر ارشمیدس  بن جاتے ہیں،ا ور اس کے بعدخود پہ بہت غصہ اور ایک طرح کی ہزیمت کے احساس کے ساتھ اپنی لا علمی مان  لیتے ہیں۔مگر تعجب یہ ہے کہ نام کے معانی نہ جاننے کے باوجود ہزاروں بچیوں کے نام ”سمّی“ ہیں۔

سمّو کے بارے میں ہماری ساری معلومات مست تؤکلی کے عشق اور شاعری سے ہمیں ملی ہیں۔ وہ اپنی شاعری میں اپنی سموؔ کے لیے محض یہی نام استعمال نہیں کرتا۔ مست تو الفاظ کا چرواہا تھا۔ بہت بڑے خزانے کا خزانچی۔اگر اس کی تخلیقیت کی بات نہ بھی کریں تب بھی فطری بات ہے کہ مست جیسا تباہ حال دل،اپنی دوست کے نام کو میٹھا بنانے کی کوشش کرتا رہے گا۔ چنانچہ اس نے اپنی شاعری میں سمو کوسمّو کے نام سے ماخوذ سمی، سمو، اور سمل جیسے پیار بھرے ناموں سے بھی پکارا ہے۔

بلوچ، سمو کے احترام بھرے نام کے آخر میں یا تو ”مائی“کا لفظ لگا کر اُسے تکریم دیتے ہیں، یا پھر سمو، اِس انداز میں کہتے ہیں کہ خود اس لفظ کے تلفظ سے احترام، ادب اور عقیدت کے جذبات ٹپکتے محسوس ہوتے ہیں۔دوسری زبانوں کی طرح بلوچی میں کسی لفظ کے تلفظ یا ادائیگی ہی میں عزت یا نفرت کا پتہ چل جاتا ہے۔

سمّو کا سن پیدائش اور سنِ وفات معلوم نہیں ہیں۔سارے مشرقی اقوام کی طرح  بلوچوں میں بھی سالگرہ اور ہیپی برتھ ڈے نہیں ہوتے، نہ مرد کا، نہ عورت کا۔ہماری تاریخ میں کوئی جشن کوئی میلہ اس حوالے سے موجود نہیں رہا۔ لہٰذا نہ سمو کی تاریخ پیدائش معلوم ہے اور نہ ہی تؤکلی مست کی۔(اور یہ کتنی اچھی بات ہے!۔ عرس،دھمال، چرس،چادر،وزیر، گورنر، صدر، اور اگربتی سے خدا نے اِن دونوں اچھوں کو بچالیا)۔

سمّو، بلوچوں کے مری قبیلے میں کلوانڑیں شاخ سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ قبیلہ آبادی کے لحاظ سے مری کا سب سے بڑاقبیلہ ہے اور اسی قبیلے کے تصرف میں مری کے علاقے کا سب سے بڑا رقبہ بھی ہے۔کلوانڑیں عموماًاونچی قد والے لوگ ہیں، گورے چٹے اوربڑی بڑی آنکھوں والے۔یہ لوگ مری قبیلے میں غالباً سب سے خوب صورت لوگ ہیں۔ مویشی پالتے ہیں، محدود علاقے میں خانہ بدوشی کرتے ہیں، اور زیادہ تردریائے بیجی کے کناروں میں کاشت کاری کرتے ہیں۔یہ کاشتکاری قبیلے کے دیگر لوگوں کی کاشتکاری سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہ بارانی کاشتکاری نہیں ہے۔ یہاں کھیتی باڑی کرنے کو دریائے بیجی کا پانی سیاہ  آب(یعنی پانی ہمہ وقت دستیاب)ہوتا ہے۔

دیگر قبائل کی طرح مری قبیلے کا یہ ذیلی فرقہ بھی بہت ڈسپلن والا ہے۔مہذب، سادہ، سچے اور کھرے لوگ۔

سمو کے والد کا نام ”بشکیا“ تھا (بخشا ہوا، نجات یافتہ)۔ سمو کے ایک بھائی کا نام بھی معلوم ہو سکا ہے، ”دلمراد“۔بس، ہماراعلم یہیں تک۔اِن دوکے علاوہ سمو کے دیگر عزیزوں رشتہ داروں کے بارے میں تاریخ کو کچھ بھی معلوم نہیں۔

یہ کلوانڑیں خاتون،مری قبیلے کی ایک اور شاخ رامکانڑیں کے ذیلی فرقے”پروئی“ میں بیاہی ہوئی تھی۔ پروئی کے دِلّازئی سجوانڑیں طائفے میں بیورغ نامی ایک شخص محترمہ سمو کا جیون ساتھی تھا۔بیورغ اور اُس کا قبیلہ بڑے پیمانے کی کاشت کاری نہیں کرتا تھا۔بلکہ وہ دیگر مری قبائل کی طرح مویشی بانی کیا کرتا تھا۔۔۔پسماندہ سماج میں پیشے بہت کم ہوتے ہیں۔

یہ جاننا مشکل ہے کہ محبت کی اس دیوی کا”لب“کیا تھا۔ اورنہ ہی یہ معلوم ہو سکا ہے کہ اس کے لب کی رقم بیورغ نے نقد اداکی تھی یا پھروہ مال مویشی کے عوض‘ پرائے گھر روانہ کی گئی تھی۔(ایک دلچسپ بات ضرور نوٹ کیجیے: مست کی پوری شاعری میں لب کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔تو کیا اِس سے یہ سمجھا جائے کہ مری قبیلے میں دوسوبرس قبل”لب“ کا رواج موجود نہیں تھا؟۔کیا یہ رواج  بعد میں آیا؟)۔

پروئی تعداد کے اعتبار سے کوئی بہت بڑی شاخ نہیں ہے۔ اپنے دیگر ہم قبیلہ لوگوں کی طرح یہ لوگ بھی بھیڑ پال معیشت سے وابستہ ہیں اور  خشک آبہ کی کاشت کاری بھی کرتے ہیں۔ ان کا علاقہ ماوند سے 10، 15میل جنوب مشرق کی جانب ہے۔سچی بات یہ ہے کہ اس قبیلے کے اندر ماضی میں خواہ جتنا مشہورومعرو ف انسان پیدا ہوا ہو، یا آئندہ پیدا ہو، سمو جتنا بڑا نہیں ہو سکتا۔(یہ بات پورے مری قبیلے کے لیے بھی سچ ہے۔ حتیٰ کہ پوری بلوچ قوم میں سمو کی شہرت و احترام کی ہمسری کرنے والی کوئی عورت نہیں ہے)۔ اسی لیے ابدتک پروئی،محترمہ سمو ہی کی وجہ سے جانا جاتا رہے گا، کلوانی سموہی کی وجہ سے جانے جاتے رہیں گے۔ اور صرف کلوانی یاپروئی ہی کیوں، سارامری قبیلہ اسی ہستی کی وجہ سے پہچانے جانے کے قابل ہوا۔ بلوچ قوم کے پاس سمو جیسی دیوی کی موجودگی اُسے دستیاب دیگر ساری نعمتوں میں سے ممتاز ہے۔میں اسی کی نسبت سے، میرا دادا شادیھان، میرے بزرگ بلوچان، میرے محترم بہار خان، عمر خان، میرا ماوند، میرا تدڑی، میرا رسترانی،میرا دودا، میراگزین، میرا نصیر خان، میرا مکران۔۔۔سارے نام و مظاہر،سمو کے حوالے ہی تو ہیں۔

عجیب بات ہے کہ اس کی یہ عزت مروجہ عام وجوہات کی بنا پہ نہ تھی۔ وہ نہ توگائنا کالوجسٹ تھی۔ نہ وہ ایجوکیشنسٹ تھی، اسٹرانومر اور فزیسسٹ بھی نہیں۔۔۔ حتی کہ وہ تو ”اپنی“وجہ سے شہرت وتکریم کا سبب ہی نہیں بنی تھی۔

اسے تو مست نے متعارف کرایا۔ اُس کے بارے میں ساری معلومات مست کی فراہم کردہ ہیں۔ اس کی شکل، چال، صلاحیتیں،اوصاف سب کچھ کا ترجمان اور کمنٹیٹر تؤکلی مست تھا۔

نفی کی نفی کا قانون تو دیکھیے۔ مست خود کیا تھا، کچھ بھی نہیں۔ اُس تؤکلی کو مست کس نے بنایا؟۔ سمو نے۔ وہ جب سمو کی شکل و صورت، اس کے قد کاٹھ، اس کی باتوں مسکراہٹوں  اور اس کی چال ڈھال کے بیان میں اپنی نفی کر گیا تو ہی مست بن گیا،مست تؤکلی بن گیا۔ مری لوگوں کے لیے متبرک ترین ہم قبیلہ شخص۔ وہ اونچا ہوتا گیا۔ بگٹیوں کے وسیع آسمان پہ سایہ فگن ہوا، اور بلند ہوا کھیترانڑ، بزدار، دریشک کیسرانڑیں، ڈیرہ، ملتان اور دہلی کے افق تک چھا گیا۔ جنوب مغرب میں سبی، اور سیونڑ اُس کی تجلی میں آئے۔ مغرب میں قلات خضدار مکران اُس کے ہوئے اور شمال میں دکی، ہرنائی مچ اور مستنگ مرید بنے۔

سمو کو دیکھنے سننے کے بعد اُس کے سینسز نے  برین کے متعلقہ سنٹر کو جھنجوڑ ڈالا۔ دماغ کے تخلیقی فیکلٹیز کا سوئچ آن ہوا اور مست نے شاعری شروع کی۔ اتنی بلند، لطیف اور تجلی دیتی شاعری کہ اس کے آگے سر جھک گئے۔بلوچ اپنے شاعر کی عزت تخمینے اور تصور سے بھی بڑھ کر کرتا ہے۔۔۔۔ جتنا بڑا شاعر ہوگا اتنا بڑا ولی سمجھا جائے گا۔ یوں تؤکلی مست ولی بنا، ولیوں کا ولی بنا اور اعتبار والا شاعر بنا۔

اور پھر اسی معتبر شاعر نے سمو جیسی عام بلوچ عورت کو وہ شہرت عطا کردی کہ سمو  زرنج سے لے کر مرنج تک، اور کوہِ مہدی سے لے کر کوہِ ماہ رَوتک اور تختِ سلیمان سے لے کر کیرتھر تک کے بلوچوں میں ماں کے معزز درجے پر فائز ہوئی۔

اور یہ سب کچھ نظر آنے والی کوا نٹفائی ہوسکنے والی مادی وجوہات سے نہ ہوا۔ ایسا تو کوالی ٹے ٹِومحبت کی وجہ سے ہوا۔ محبت ایسا Matterہے جو نہ وزن رکھتی ہے، نہ جگہ گھیرتی ہے، نہ حواس ِ خمسہ کے رینج میں آسکتی ہے۔فزیکل دنیا میں اُس کی کوانٹی ٹے ٹو تشریح بھی نہیں کی جاسکتی۔بس یوں سمجھیے کہ محبت زیرو کو ہزار بنانے کی قوت رکھتی ہے۔۔۔ مگر میں سمو کو محض مست کے عکسِ ہنر کہنے سے بلند آواز کے ساتھ انکار کرتا ہوں۔

ایک اور بات پہ بھی توجہ رہے۔وہ یہ کہ مست اور سمو کے بارے میں ہر بات اکیسویں صدی کی ترقی یا فتہ اور استحصالی کپٹلزم کے معیار سے نہ ناپیے۔ آپ بہت خسارے میں رہیں گے۔ مستالوجی کی تفہیم کے لیے آپ کو ڈیڑھ دو سو برس پیچھے اُس کے اپنے عہد تک جانا پڑے گا۔ اور وہ بھی برطانیہ نہیں بلکہ دو سو برس قبل کے بلوچستان کے بھی دور افتادہ مری کے علاقے ماوند جانا ہوگا۔ وہاں، جہاں سڑک اور ریل اور کافی اور صوفہ سیٹ اور کانفرنس ہال کا تصور نہ تھا۔ جہاں صنعت تو کیا زراعت بھی اپنی فرسودہ ترین صورت میں تھی۔ آپ ماقبل فیوڈل سسٹم میں جائیں گے تبھی آپ آج کے ویلیوسسٹم کے بجائے رسم ورواج کی ایک ڈیموکریٹک (مگر فرسودہ ڈیموکریٹک) دور میں جائیں گے۔ وہیں کھڑے ہوکر مست و سمو کی عظمت کا ستارہ دیکھتے ہوئے اپنی دستار گرنے دیجیے۔ میں نے ایسے اپاہج ڈگری یافتہ جاہل دانشوروں کی نیچ گالیاں بھگتی ہیں جو مستِ محترم کی باتیں سن کر غلیظ منہ سے غلیظ انگریزی فتوے جاری کرتے پھرتے رہے ہیں۔

جس وقت مست کی سمو سے عشقیہ جان پہچان ہوئی اُس وقت سمو اپنے والدین کے گھر میں کوئی اَن بیاہی دو شیزہ نہ تھی۔ وہ اُس وقت ایک شادی شدہ خاتون تھی۔ وہ ایک باغیرت مری نوجوان کی بیوی تھی۔ وہ ایک خانواد ے کی عزت تھی، وہ ہم سارے ٹرائب کی ”لج“ تھی۔ اور اہم بات یہ کہ وہ ایک زندہ اور چہل پہل والے بلوچ سماج کے رسم ورواج کی پوشاک میں لپٹی انسان تھی۔روایتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ سمو اوربیورغ کا ایک بیٹابھی تھا جو لڑکپن میں ہی مر گیا۔ سمو کی دو بیٹیاں تھیں (جو کہتے ہیں کہ سندھ میں محنت کش مریوں میں بیاہی ہوئی تھیں)۔

سمو انیسویں صدی کی بلوچ عورت تھی۔ اس لیے یہ سمجھنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کیا کرتی تھی، کس طرح زندگی گزارتی تھی………… بھئی جیسی اُس وقت کی ہر بلوچ عورت زندگی گزارتی تھی۔جی ہاں،سمو چرواہا ہی تھی۔اور بلوچستان چونکہ آج بھی ”تم نا بدلنا لاکھ بدلے یہ جہاں“ کے مصداق وہیں کھڑا ہے،اس لیے طے بات ہے کہ مرشد سمو کو دو سو برس گزر گئے مگراب بھی اُس کی رعیت کا بڑا حصہ مال مویشی چراتی ہے۔ انہیں پینے کا صاف پانی گھر میں نصیب نہیں ہے اور وہ اب بھی دور دراز فاصلوں سے گندہ اورکیڑوں اورجراثیم آلود پانی مشکیزوں، گھڑوں، بالٹیوں میں سر پر رکھ کر ڈھو کر لاتی ہیں۔ آج بھی ”سمو کی قوم“ کی اکثریت پاپوش سے محروم ہے اور ننگے پیر بھیڑ بکریوں کے پیچھے ٹھوکریں کھاتی رہتی ہے۔سیاہی سیاہ کاری، لب و فروخت، غیرت و پابندی کی اسیر،سمو کی یہ رعایا کسی ایسے نجات دہندہ مست کی منتظر ہے جو اپنی بڑی او ر منظم عوامی مدد سے مساوات اور عدل پہ مبنی معاشرہ قائم کرے۔ سمو کی رعیت کے گلے میں اب بھی کوئی ”برگڑی“ نہیں ہے۔ اُس کی ناک میں سونے کی ”پُلڑی“ اب بھی نہیں ہے۔ اُس کے پاؤں میں ”جتڑی“ نہیں ہے۔ یہ سب علامتی خواہشیں مست اور اس کے پیروکاروں کے دل میں ہیں۔ یہ سمو کی رعیت کو آزادی دلانے والی تحریک کا ابھی محض منشور ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے