پروفیسر عزیز محمد بگٹی سے میری ملاقات اِن دنوں میں ہوئی۔ جب وہ ٹیکسٹ بک بورڈ میں تھے۔مجھے جب بھی وقت ملتا بروری روڈ پر واقع ان کے دفتر چلا جاتا۔

یہ انہی دنوں کی بات ہے۔ جب ڈیرہ بگٹی میں نواب محمد اکبر خان بگٹی نے تمام ضلعی افیسران کو کھانے پر بلایا۔ عمومی طور پر کسی علاقہ میں کسی سردار، سیاستدان اور آفیسران کی ملاقات اور رابطہ عام بات ہے۔ مگر یہ ایک استمانی دعوت تھی۔ اور یہ دعوت منفرد تقریب تھی جو بلوچستان کی تاریخ میں اپنی انفرادیت کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔

اس تقریب میں نواب محمد اکبر خان بگٹی نے تمام آفیسران کو ایک پرچہ دیا۔ اس میں اردو انگریزی۔ اور بلوچی۔ ادب اور تاریخ کے متعلق سوالات تھے ۔ نواب بگٹی کے سخت معیار کے مطابق تمام آفیسران اس میں فیل ہوئے۔ اس موقعہ پر میر احمد نواز بگٹی نے نواب صاحب سے کہا  کہ ان فیل امیدواروں میں پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن کا فیصلہ کریں۔

ڈی سی آفس کے ایک سپرنٹنڈنٹ احمد یار خان کو پہلی پوزیشن کا حقدار قرار دیا گیا۔ پہلے کو 5000دوسرکے کو 3000اور تیسری پوزیشن کو 2000روپے کا انعام دیا گیا۔

اس امتحانی خبر کو میر چاکر خان بلوچ ایڈیٹر بلوچی دنیا ملتان نے اپنے رسالہ میں چھاپا۔ بلوچی دنیا میں چھپنے کے بعد میں نے اس پر ایک تبصرہ لکھا۔

ایک دن اتفاق سے میں عزیز بگٹی کے آفس میں بیٹھا تھا کہ نواب صاحب کا فون آیا۔ نواب صاحب ڈمپل کیلئے بلوچی لفظ کا پوچھ رہے تھے۔ عزیز بگٹی نے کہا کہ نواب صاحب اس وقت ڈمپل کے لیے بلوچی لفظ میرے ذہن میں بھی نہیں آرہا۔

مگر ڈمپل کیلئے فارسی میں چاہ زخذون کا لفظ مروج ہے۔

نواب صاحب نے عزیز بگٹی سے پوچھا۔ کہ میرے امتحانی پیپر پر تبصرہ لکھنے والے کو آپ جانتے ہیں؟ اس پر عزیز بگٹی نے کہا کہ نواب صاحب یہ نوجوان میرے سامنے  بیٹھے ہیں یہ نواب صاحب کے ٹیلی فون مجھے دینے کو کہا۔ یہ نواب صاحب میری براہ راست پہلی گفتگو تھی۔ نواب صاحب نے تبصرہ کو پسند کیا۔

نواب صاحب نے امتحان کے بعد آفیسران سے کہا۔ کہ امتحان لینے کا مقصد یہ ہے  کہ ہمارے پڑھے لکھے آفیسران اپنے معاشرے کا کریم ہیں۔ ان کو صرف ڈگری حاصل کرنے اور نوکری کرنے کے لیے نہیں پڑھنا چاہیے۔ بلکہ وہ اپنے معاشرہ  سماج کے تضادات کو سمجھیں۔ اپنی تاریخ ثقافت، ادب کے ساتھ عالمی لٹریچر کو بھی پڑھیں۔

عزیز محمد بگٹی صاحب بتاتے تھے  کہ نواب صاحب اکثر میری کتابیں پڑھنے کے لیے منگواتے تھے۔ اور بڑھنے کے بعد میری کتاب مجھے واپس کر دیتے تھے۔

عزیز محمد بگٹی نے جب بروری روڈ اے ون سٹی میں رہائش اختیار کی تو میں ڈاکٹر سلیم کرد، ظریف بلوچ، شہباز چاکر، وقتافوقتا ان کی مزاج پرسی کے لیے جاتے تھے۔ اور ان سے طویل نشست ہوتی۔ اپنی یادداشتوں کا تذکرہ کرتے تھے۔

عزیز بگٹی صاحب نے بھر پور زندگی گزاری۔ انہوں نے اپنی زندگی لکھنے اور پڑھنے میں گزاری۔ انہوں نے بیرون ملک دورے کیے۔ وہ اپنے دورہ ترکی کے بارے میں بتاتے تھے کہ ترکی میں ان کی ملاقات ایک کرد سے ہوئی۔ عزیز صاحب کہتے ہیں کہ میں نے بتایا کہ کردوں کی ایک بڑی تعداد بلوچستان میں آباد ہے۔ ترکی کرد نے کہا کہ کرد اور بلوچ ایک ہی نسل کے لوگ ہیں۔ ترکی کرد نے عزیز صاحب کو ایک کتاب دی۔ یہ کردوں کے متعلق تھی۔

عزیز محمد بگٹی صاحب اپنی کتاب۔ بلوچستان شخصیات کے آئینے میں لکھتے ہیں کہ میرے دوست منصور بخاری (گوشہ ادب) نے دوستانہ انداز میں یہ بات گوش گزار کی کہ کچھ شخصیات کے بارے میں کچھ نرمی ہونی چاہیے۔ تو عزیز بگٹی نے کہا کہ کسی کے بارے میں نرمی، یا سختی کے بجائے میں نے محض تاریخ کے حوالے سے تجزیہ کیا ہے اس میں ترمیم نہیں کرسکتا۔

اِس کتاب میں سمجھ بوجھ نواب اکبر خان بگٹی پر ڈالا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب کے پیش لفظ بھی نواب اکبر خان بگٹی نے لکھا۔ اور خوب لکھا۔ اور محسوس ہوتا ہے کہ پیش لفظ نے کتاب کی اہمیت کو زیادہ کردیا ہے۔

عزیز صاحب بتاتے تھے کہ میرے اختلافی تجزیہ کو نواب صاحب نے مستقبل کے حوالے کردیا۔

عزیز صاحب کے اعزاز میں چند سال قبل بی ایس او کے طلبا نے ایک پروگرام کا انعقاد کیا۔ یہ پروگرام عزیز صاحب کی علمی ادبی خدمات کے حوالے سے ایک خراج تحسین تھا۔ ایک ملاقات میں عزیز صاحب نے اس پروگرام کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک طویل عرصے کے بعد اس دانش گاہ میں جانے کا خوش گوار احساس تھا وہ ادارہ جہاں آپ نے تعلیم حاصل کی۔ علم و ادب کے بحث مباحثے کیے۔ اور پھر اُسی ادارے میں آپ نے ایک استاد کی حیثیت سے طویل وقت گزارا۔ آپ اس کو فراموش نہیں کرسکتے۔

عزیز صاحب کہتے ہیں کہ اس پروگرام میں شرکت کے لیے جب یونیورسٹی گیا۔ تو مجھے یوں لگا کہ میں اپنے زمانہ طالب علمی اور سروس کے دوران  کے دانش گاہ کے بجائے ایک منجمد گلیثر میں داخل ہوا ہوں۔

وہ یونیورسٹی کے جس کے وائس چانسلر کرار حسین جیسے لوگ تھے۔ جہاں پر استاد، طالب علم، کلاس روم اور کلاس روم سے باہر دنیا بھر کے موضوعات پر بڑی مدمل گفت گو کرتے تھے۔

اونچی سایہ دار سدابہار کے درختوں کی چھاؤں اور گلاب کی کیاریوں کے بیچ کنٹین کی کھلی فضا میں بڑی کرسیوں پر طالب علم دائرے میں بیٹھے چائے، سموسوں کے ساتھ مختلف تنظیموں کے ممبران علمی، ادبی، سیاسی، تاریخی، موضوعات پر بحث مباحثہ کرتے نظر آئے۔

مگر آج وہ مناظر نظر نہیں آتے۔ یونیورسٹی کے طلباء میں کتب بینی کا رجحان کم ہونے لگا ہے

یونیورسٹی میں ادبی، ثقافتی، ڈرامہ، آرٹ کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں ہیں۔ یونیورسٹی کی فضا بوجھل نظر آتی ہے۔

بہت کم احباب جانتے ہیں کہ عزیز محمد بگٹی صاحب صرف تاریخ فلسفہ جیسے خشک موضوع پر لکھنے بولنے کے علاوہ کلاسک اور غزل جیسی موسیقی کے بھی دلدادہ تھے۔ اُن کے پاس ایک پرانا گراموفون ریکارڈ تھا۔

ایک بار انہوں نے بتایا کہ میرا گراموفون خراب ہوگیا ہے۔ کبھی کبھار دل چاہتا ہے کہ کلاسک موسیقی سُنوں۔ تو میں نے چند دن کے بعد سامینو ساختہ جاپان کا ایک ٹیپ ریکارڈ کردیا۔

جب میں نے انہیں بتایا کہ میرے کتب خانہ جام درک کتاب جاہ و ثقافتی مرکز میں نایاب کتب کے علاوہ، گراموفون ریکارڈ، ٹیپ ریکارڈ کے پرانے کیسٹ کا کلیکشن بھی ہے۔ تو انہوں نے  شدت سے اس خواہش کا اظہار کیاکہ کسی دن آپ مجھے اپنی لائبریری لے جائیں۔ مگر 2019سے کورونا کی وبا نے تمام انسانی سرگرمیوں کو ماند کردیا۔ اور مجھے ہمیشہ یہ قلق رہے گا کہ کرونا کے تذبذب، تنہائی، اور عزیز صاحب کی بیماری نے یہ موقعہ نہیں دیا کہ میں ان کو اپنی لائبریری لے کر آتا۔

عزیز صاحب ہمیشہ پوچھتے رہتے کہ مارکیٹ میں کوئی نئی کتاب آئی ہے تو ان کی ہدایت تھی آپ میرے لیے وہ کتاب خرید لائیں میں اکثر ان کے لیے کتابیں لے آتا۔

میری لائبریری سے انہوں نے 1878کی لیڈنگ پرسن کی فوٹو کاپی کروائی۔

انہوں نے کئی یاد گار آرکائیوز پیپر مجھے دیئے۔

اس رمضان سے قبل سیلز اینڈ سروسز سے غامدی صاحب کی کتابوں کا سیٹ ان کے لیے لے کر گیا۔ عزیز محمد بگٹی نے اپنی ایک کتاب چھپنے کے لیے بلوچی ڈیپارٹمنٹ کے حامد علی بلوچ کو دی۔ جو وسائل کی عدم دستیابی کے باعث نہ چھپ سکی۔ کتاب کا مسودہ میں نے خود حامد صاحب کے حوالے کی تھی۔

اب تو یہ قرض اور بڑھ گیا ہے  کہ اس کتاب کو چھپنا چاہیے۔

ایک دِن عزیز صاحب نے بتایا  کہ میں نے آپ کا نمبر گھر والوں کو نوٹ کروایا ہے اگر کبھی میری بیماری کے پیش نظر کوئی ایمرجنسی پیدا ہوتی ہے۔ تو آپ زیادہ قریب رہائش پذیر ہیں۔ آپ کو فون کرسکتے ہیں۔ کیونکہ میرے بیٹے سروس کے سلسلہ میں کوئٹہ سے باہر ہوتے ہیں۔

اس طرح عزیز صاحب نے اپنے اعتماد سے مجھے ایک بڑے امتحان سے دوچار کردیا۔ اس کے بعد میں ہمیشہ دعا کرتا کہ کوئی ایسی صورت حال نہ پیدا ہو کہ میں بروقت دستیاب نہ ہوں۔ یا اپنی غیر ذمہ داری کے باعث ان کا فون ریسیو نہ کرسکوں۔

خصوصاً رات کو میں موبائل اپنے سرھانے رکھ کر سوتا  کہ میرے بزرگ محسن عزیز صاحب کا اگر اعتماد مان ٹوٹ جاتا۔ تو یہ میرے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہوتا۔

۔6۔ مئی کو جب عزیزصاحب کی طبیعت خراب ہوئی تو ان کے فرزند زبرین بگٹی عید کی چھٹیوں کے باعث گھر آئے ہوئے تھے۔ وہ انہیں ہسپتال لے کر گئے۔

حالانکہ 6رمضان کو افطار کے بعد میں ان کے پاس حاضر ہوا تھا  چائے پی بڑی دیر تک ان سے ملاقات رہی۔ عزیز صاحب نے اپنی بیماری کو اپنے پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے بیماری اور تکلیف کے باوجود اپنے مہمان خانے کے دروازے کھلے رکھے۔

دوستوں کو محبت دی۔

رمضان سے قبل جب ایک دن محمد اکبر آزاد نے فون کیا۔

اور مجھے کہا کہ عزیز صاحب سے ملنے جانا ہے۔ اس حوالے سے رمضان میں ہی عزیز صاحب کو وٹس ایپ کال کی مگر اس وقت ان کا وٹس ایپ آف تھا۔ اس لیے رابطہ نہ ہوسکا۔ یوں اکبر آزاد صاحب اور عزیز صاحب کی ملاقات نہ ہوسکی۔

۔6مئی کو کڈنی میں تکلیف کے باعث زبرین بگٹی عزیز صاحب کو کڈنی ہسپتال لے کر گئے۔ وہاں ان کا ایک ڈائیلاسس ہوا۔ دوسرا ڈائیلاسس ہونا تھا کہ 11مئی2011کی صبح چار بچے عزیز صاحب خالق حقیقی سے جاملے۔

عزیز صاحب نے اپنے قلم کا قرض بھرپور انداز میں ادا کیا۔ انہوں نے انتہائی جرات مندی سے بلوچ ادب تاریخ پر کتابیں لکھ کر اپنی دھرتی کے لیے زندگی کا قرض ادا کر دیا۔

عزیز صاحب، وسیع المطالعہ۔ روشن خیال قلم کار تھے۔ وہ تاریخ کو حقائق کی نظر سے دیکھتے اور لکھتے تھے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے