فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی

عریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا

گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے

سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا

بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی

ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا

بیدلؔ لباسِ  زیست بڑا دیدہ زیب تھا

اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے