کیسا فن ہے؟ کیا فن کاری؟

ایک نمائش

خود کو نمایاں تر کرنے کی چھوٹی خواہش

واحد مُتکلم کا ایک غرور عبث ہے

دانشور ہے اور دانش بھی اِس پر بس ہے

بے عملی کی شاخ پہ کِھلتا بے رنگ و خوشبو سا سایہ

اپنے تئیں جو بے ہم سر ہے، یکتا ہے جو بھی فرمایا

شعر شعور سے خالی اِس کے

بات دلیل سے عاری

پھر بھی اس کے نطق کا سکہ دنیا میں ہے جاری

میرے کچھ فنکار ہیں بیلی

جمع مُتکلم ہیں سارے

پیدا ہوتے ہیں، مرتے ہیں

اِن کا کوئی نام نہیں ہے

اِن کی پیدائش کے گھر میں نام و نمود کا خانہ قدرت بھول گئی ہے

یہ زہرہ ہیں زحل میں بیٹھے

مُشتری اِن پر مال و زر کے سب دروازے بند رکھتا ہے

اِن میں سے اِک

دھوپ کے دوزخ میں مٹی کوگارا کرکے

ڈھیروں اینٹیں پاتھ رہا ہے

 

خود سرکنڈے کے چھپرے میں ہی رہتا ہے

ایک ہے وہ جو

ریشم کے کیڑے جیسا ہے

دھاگا دھاگا جوڑ کے کپڑے کو بُنتا ہے

خود اپنے بچوں کے کارن

لوگوں سے اُترن لیتا ہے

بھیگی آنکھوں سے ہنستا ہے

اور……تپ دِق کا تحفہ لے کر مر جاتا ہے

وہ بھی تو ہے

داؤدی اوصاف کا مالک

جو دھاتوں کو موم بنا کر

جیسے بس اک ”کُن“ کہتا ہے

اور فنکاروں کے ہاتھوں میں ڈھیروں زیور آ جاتا ہے

ایسا زیور

جو معروض کا دھن ہے سارا

اِس فنکار کا فن ہے سارا

جو فاقوں سے مر جاتا ہے

میرے بیلی من کے اُجلے، فن کے سچّے

جن کے ہاتھ ہُنر کے دھارے

جن کے ذہن نمو کے گُر کے آپ گورو ہیں

جو دھرتی کو مسطر کرکے اِس میں رزق اُگا دیتے ہیں

جو رستے میں پیڑ اُگا کر دھوپ میں سایہ لکھ جاتے ہیں

لکھنے والو!۔

 

 

اے فنکارو!۔

واحد مُتکلم کے مارو!۔

اپنے فن کو اِن کے فن سے جانچ کے دیکھو

بول سکو تو …… پھر کچھ بولو

کس کے فن میں ہے سچائی

کس کے من میں ہے اُجیارا

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے