سماج کی تاریخ عوام بناتے ہیں۔ خود تاریخ کچھ نہیں کرتی کوئی بڑی دولت اُس کے قبضے میں نہیں ہے۔  یہ کوئی جنگیں نہیں لڑتی۔ تاریخ کچھ نہیں،یہ آدمی ہے جس سے تاریخ بنتی چلتی ہے، اصلی زندہ آدمی یہ سب کچھ کرتا ہے۔ آدمی کے پاس دولت ہوتی ہے، آدمی جنگیں لڑتا ہے۔

تاریخ کچھ نہیں ما سوائے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے آدمی کی سرگرمی کے۔ مطلب یہ کہ سماجی آدمی سماجی ترقی کا خالق ہے اور اُسے چلانے والا ہے۔

میٹیریل  دنیا میں سب کچھ  میٹیریل  قوانین کے تحت ہوتاہے۔ اور یہ  قوانین اٹل ہوتے ہیں۔ وہ نہ تو کسی جادو گرکے کرتبوں سے تبدیل ہوسکتے ہیں،  اور نہ کسی پیر کے دم چُھوسے انہیں بدلا جاسکتا ہے۔ ان میٹیریل قوانین میں کسی میرومعتبر اور خان سردار کی تدبیر اور بہادری کوئی تبدیلی نہیں لاسکتی۔ کسی زندہ یا مردہ سینٹ سادھو کے مہربان یا غضبناک ہونے سے ان  قوانین کی رفتار اور راستے میں کوئی تغیر برپا  نہیں ہوسکتا۔ یہ میٹیریل قوانین لفنگوں، بدعنوانوں، سمگلروں، راسپوٹینوں اور کسی حاضر، یا ریٹارڈ جنرل کے زور سے بھی تبدیل یا ختم نہیں ہو سکتے۔۔۔۔کائنات سختی سے قوانین کے تابع ہے۔

مطلب یہ ہوا تاریخ کا عمومی کاز، اس کی اہم سمت ایک فرد پہ انحصار نہیں کرتا خواہ وہ فرد کتنا بھی زبردست ہو۔ نہ ہی سب سے اہم شخصیت ہسٹری کی عمومی سمت کو تبدیل کرسکتی ہے۔

انسان بھی انہی اٹل قوانین کا پابند ہے۔ نہ ایک انچ اِدھر نہ ایک انچ اُدھر۔ بس اُسی چوکھاٹ میں رہتے ہوئے، اور انہی قوانین کو استعمال کرتے ہوئے اپنی اشراف المخلوقاتی مظاہر کو نکھارتے رہنا ہے۔

ہسٹار کل میٹریلزم کا مطلب ہے: ڈائیلیکٹیکل میٹریلزم کے اصولوں کو سماج کی تاریخ کے سمجھنے کا آلہ بنایا جائے۔یعنی جب ڈائلیکٹکل میٹریلزم کو انسان اور انسانی سماج پر لاگو کیا گیا تو اسے ہسٹارک میٹیریلزم کا نام دیا گیا۔  ڈائلیکٹکل  میٹیریلزم اور ہسٹار کل  میٹریلزم  ایک اٹوٹ مجموعہ ہے۔ بہ یک وقت ایک کی غیر موجودگی اور دوسرے کی موجودگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

ہم زندگی گزارنے یعنی پیٹ بھرنے، لباس  تیار کرنے اوررہائش کا انتظام کرنے کے لیے اوزار  استعمال کرتے ہیں۔ یہ اوزار پتھر بھی ہوسکتا ہے، کلہاڑی بھی، پیچ کس بھی،دیوہیکل مشین بھی  اور کمپیوٹر چِپ بھی۔ ان اوزاروں کو”آلات ِ پیداوار“ کہتے ہیں۔

لیکن یہ اوزار از خود پیداوار نہیں کرسکتے۔ انہیں آپ کسی چیز پہ استعمال کر کے ہی اپنی ضروریات حاصل کرسکتے ہیں۔ہماری ضروریات ِ زندگی پیدا کرنے کے لیے جس چیز پہ یہ اوزار استعمال ہورہے ہوتے ہیں اُس چیز کو ”ذرائع پیداوار“ کہتے ہیں۔ مثلاً زمین یا فیکٹری۔انسانی محنت و آلات باپ ہیں اور زمین یا فیکٹری،ماں ہے۔

اب ”آلاتِ پیدا وار اور ذرائع پیدا وار“جمع ہوتے ہیں تو ہم اسے ”مینز آف پروڈکشن“کہتے ہیں۔

یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ آلاتِ پیداوار خواہ فرسودہ تھے یا ترقی یافتہ، اسے استعمال کرنے والا تو انسان تھا۔ وہ رفتہ رفتہ اپنے تجربوں کو بروئے کار لاتا رہا، اور اِن آلات ِ پیداوار کو ترقی دیتا رہا تاکہ مشقت بھی کم ہو اور پیداوار بھی زیادہ ملے۔ اِسے ہنر،یا علم، یا ٹکنالوجی کہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ علم کا سرچشمہ آلات پیداوار ہے۔ یہی ہنر، یہی سائنس اور یہی ٹکنالوجی شعور کی بنیاد ہے۔

یہ ترقی یافتہ آلات پیداوار   اور اُسے استعمال کرنے والا شعور یافتہ  محنت کش آدمی مل کر ”پیداواری قوتیں“یا ”پراڈکٹو فورسز“بناتے ہیں۔

ضروریات کو پیدا کرنے کے دوران لوگ آپس میں کسی بندھن میں ہوتے ہیں۔ اس بندھن کو، اِس رلیشن شپ کو پیداواری رشتے یا ریلیشنز آف پروڈکشن کہتے ہیں۔یہ دراصل سماج ہی ہوتا ہے جس میں منظم ہو کر انسان پیداوار کرتا ہے۔

اور اوپر کی ساری چیزوں کو ملا کر اس سارے مجموعے کو ”methodsآف پروڈکشن“ (طریق پیداوار)کہتے ہیں۔

پیدواری رشتے اگر پیداواری قوتوں (محنت کش اور آلاتِ محنت) کی مطابقت میں ہوں تو زبردست ترقی ہوتی ہے۔ یہ تعلقات فیوڈل ازم میں مختلف تھے۔آلات ِ محنت کی ترقی کے ساتھ ساتھ محنت کش بھی ترقی کرتا گیا۔ نتیجہ یہ کہ فیوڈل پیداواری رشتے بالآخر ترقی میں رکاوٹ بن گئے اور لہذا اُن کا ٹوٹنا ضروری ہوگیا تھا۔

ملکیت کی صورت دراصل پیداواری رشتوں کا تعین کرتی ہے۔ اگر ملکیت عوام کی مشترکہ ہے تو پیدواری رشتے استحصال سے آزاد انسانوں کے بیچ تعاون اور باہمی مدد کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ اگر ملکیت ذاتی، نجی اور پرائیویٹ ہے تو پیداواری رشتے غالب و مغلوب والے ہوجاتے ہیں۔ غالب،مغلوب کو مغلوب ہی رکھنے کی تدابیر کرتا رہے گا اور مغلوب اپنی مغلوبیت کے خاتمے کے لیے غالب کو نیست و نابود کرنے تک کی جدوجہد کرتا رہے گا۔

پیداوار کی ایک خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ جامد نہیں رہتی، بلکہ بڑھتی اور بہتر ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے کہ انسان ایسا کرنا چاہتا ہے اور ایسا کرتا ہے۔ انسان اس لیے ایسا کرتا ہے کہ اس کی ضروریات بڑھ رہی ہوتی ہیں۔ چنانچہ پیداوار کی بڑھوتری اور بہتری ایک معروضی ضرورت ہے، ایک قانون ہے۔

مگر یہاں  صورتحال ایک دلچسپ موڑ مڑتی ہے۔ پرانے پیداواری رشتوں اور ترقی یافتہ آلات و انسان کے بیج ایک تضاد سا پیدا ہونا شروع ہوتا ہے اور بڑھتے بڑھتے یہ پیداواری قوتیں اپنے گرد موجود فرسودہ شدہ پیداواری رشتوں کی پابندیاں، حدود اور چوکھاٹ سے نباہ کرنے سے قاصر ہوجاتی ہیں، اور پھر وہ انہیں توڑ ڈالتی ہیں۔ اور اپنے لیے ایک نیا اور ارتقا یافتہ پیداواری رشتے بناتے ہیں۔

اس سارے ارتقائی سفر میں انسان مختلف مدارج سے گزرا۔سارا ارتقا آلاتِ پیداوار، انسانی مہارت یافتہ، باریکی سے کام کرنے والی انگلیوں بازو ؤں اور اِ ن دونوں سے اخذ کردہ ہنر سے وجود میں آتا رہا۔ یعنی بنیاد مَیٹر ہے، آلات ہیں۔ نہ کہ شعوروعقل و آئیڈیا ہے۔شعور تو خود مَیٹرکی ایک خصوصیت ہے، اس لیے کہ وہ مَیٹرہی سے جنم لیتا ہے۔ ہم ایک لفظ ”سماج کا شعور“استعمال کرتے ہیں یعنی کلچر، فلسفہ، قانون، آرٹ، مذہب، رسوم رواج۔ تو یہ سماج کا شعور بھی سماج کے اندر سے جنم لیتا ہے، سماجی میٹریل حالات سے یعنی موڈ آف پروڈکشن سے۔

 

اب تک کا انسانی سماج چار موڈ زآف پروڈکشن سے گزر اہے۔

۔1۔            جب انسان جانور جیسا تھا اور ترقی یافتہ نہ تھا۔تب وہ پھل وغیرہ چُن کرگزارہ کرتا تھا۔ اُس دور کو ”چُننے والا“ یا ”گیدرر سماج“کہتے ہیں۔ساتھ میں وہ فریب دے کر یا کبھی کبھی پتھر ڈنڈا استعمال کر کے جانور وں کا شکار کرتا تھا: ”ہنٹرز سماج“۔بعد میں وہ شکار میں تیر کمان،اور نیزہ بھی استعمال کرنے لگا۔ اُس دور میں جنگلی بیر اور دوسرے میوہ دار جنگلی درخت کسی کی ملکیت نہیں ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح نہ تو پتھر،اور ڈنڈا (آلاتِ پیداوار) کسی کی ذاتی ملکیت تھا اور نہ ہی فطرت میں آوارہ پھرنے والا شکار کا جانور کسی کے جھوک کا مویشی تھا۔ محنت مشترک تھی اور پیداوار (شکار) بھی مشترک۔اس لیے اسے قدیم کمیونزم کا سماج بھی کہتے ہیں۔ ہزاروں برس تک انسان اسی سماج میں رہتا رہا۔

جب موڈ آف پروڈکشن گیدرریا ہنٹرز (قدیم کمیونزم) والاتھا تو اس سماج میں نہ ریاست موجود تھی،اور نہ کوئی منظم مذہب تھا۔ ظاہر ہے کوئی فلسفہ، نظریہ اور تحریر ایجاد نہ ہوئی تھی اور نہ ہی خاندان کا ادارہ موجود تھا۔ قصور دماغ اور شعور کا نہ تھا بلکہ یہ سماج کے میٹیریل حالات تھے  جنہیں اُس وقت نہ ریاست کی ضرورت تھی اور نہ اکاؤنٹ بک کھولنے کی حاجت تھی۔اور نہ شجرہِ نسب کے لیے خاندان والے ادارے کی ضرورت تھی۔

۔2۔             رفتہ رفتہ اُس خاص جغرافیائی علاقے میں آبادی بڑھتی گئی، شکار کم پڑتا گیا اور اس کا حصول مشکل بنتاگیاتو ایک شکاری قبیلے نے دوسرے شکاری گروہ کو قتل کر کے اُس کا شکار چھین لیا۔ مگر، اجتماعی تجربے کر کر کے آگے چل کر انہیں احساس ہوا کہ مغلوب گروہ کے آدمیوں کو بے فائدہ قتل نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ انہیں قتل کرنے کے بجائے اُن کو اپنا غلام بنایا جائے تاکہ وہ اُن کے لیے جاکر شکار کرلائیں۔ یہ ہے غلام دارانہ سماج۔

یہاں آقا غلاموں کا استحصال کرتے تھے۔ وہ غلاموں کی محنت کی پیداوار کو اپنی ذاتی عیاشی میں صرف کرتے تھے۔ وہ غلاموں سے شکار کرواتے تھے، ہل چلواتے تھے، اور جنگوں میں لڑ واتے تھے۔اس عہد میں چین، ہندوستان، مصر، اٹلی، یونان اور وسط ایشیا میں غلاموں سے نہریں، سڑکیں، پل، قلعے اور محل تعمیر ہوتے رہے۔ اس کے علاوہ کان کنی میں غلام جھونکے جاتے رہے۔ لوہا، سونا اور چاندی کی کانوں میں غلام ہی کام کرتے تھے۔ غلام سونا چاندی کھودتے اور آقاؤں کے لیے عظیم الشان محلات تعمیر کرتے۔وہ  قلعے اور مندر بناتے۔ اہرام مصر انہی غلاموں کی محنت کا نتیجہ ہیں۔ روم کی سپر پاوری اسی غلام داری کے بدولت تھی۔

غلاموں کی محنت سے پیدا شدہ عظیم پیداوار کا معمولی حصہ ذرائع پیداوار کی ترقی کے لیے خرچ کیا جاتا تھا۔مگر اس عہد میں تباہ کن جنگوں کے نتیجے میں پیداواری قوتیں بار بار تباہ ہوتیں، شہر اور بستیاں اجڑ جاتیں۔قدیم یونان ایسی جنگوں کی تاریخ سے بھرا پڑا ہے۔ رومن ایمپائر کی تاریخ کا بھی یہی حال ہے۔

بس ایک کام بڑھتا گیا۔ غلاموں کی خرید و فروخت ترقی کرتی گئی۔ بلکہ اب کچھ خاص  مفتوحہ  علاقے غلام حاصل کرنے کا مستقل ذریعہ بنادیے گئے۔ غلاموں کی تجارت کی بڑی بڑی منڈیاں قائم ہوئیں۔

ریاست، فلسفہ، دھرم، خاندان،اور تحریر تو بہت بعد میں جاکر سرف ڈم کے زمانے میں نمودار ہوئے۔ اس لیے کہ اب مویشیوں کی تعداد جیسی چیزوں کا ریکارڈ رکھنے کی ضرورت پڑی۔ یہیں غلام داری سماج ہی میں یہودیت والا مذہب پیدا ہوا۔ جس میں عوام الناس کو صبر و قناعت اور عدم تشدد کی تلقین کی جاتی تھی۔ اچھا غلام بننے کی ہدایت۔ آقا اور غلام کا دور، بادشاہ اور رعیت کا دور، اور محتاج اور مخیر کا دور۔

۔3       ۔ زمان کی بیکراں وسعتوں میں انسان، بالخصوص عورت نے کا شتکاری دریافت کی۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ اگر پھل یا بیج زمین میں دھنس جائے یا ڈالی جائے تو پھل یا فصل حاصل ہوسکتی ہے۔نتیجے میں پندرہ بیس ہزار سال قبل بڑے پیمانے کی کاشتکاری آئی۔ اور سماج بڑھتے بڑھتے فیوڈلزم والا بن گیا۔

اس لیے کہ انسان قابل ِ کاشت زمین رفتہ رفتہ جنگلات صاف کر کے وسیع بناتا گیا،اور پھر اُس کی ملکیت بھی چند لوگوں کے ہاتھ آئی۔یوں زمین اور آلاتِ پیداوار نجی ملکیت میں جاتے گئے۔ اس کے علاوہ اب انسان پتھر کے آلاتِ پیداوار کی جگہ دھات کے آلاتِ پیداوار بنانے لگا تھا۔ اور پھر مہرگڑھ میں پہیہ بن  گیاا۔ یوں اُس کی قوتِ محنت بہت بڑھ گئی۔ دھونکنی کی ایجاد نے لوہار کو اس قابل بنا دیا کہ وہ لوہے کے مضبوط اوزار بنالے۔ لوہے کی کلہاڑی انسان کے ہاتھ میں ایسا ہتھیار آگیا جس سے وہ جنگلوں کو صاف کرنے کے قابل ہوگیا۔ اور لوہے کے پھالے کی مدد سے لکڑی والے ہل کے مقابلے میں زیادہ بڑی زمین کے قطعات کو زیر کاشت لایا۔ اس نے اب جنگلی جانوروں کے شکار سے خوراک حاصل کرنے کا کام چھوڑ کر بڑے پیمانے کی کاشت کاری اختیار کی۔

ساتھ میں وہ مویشی بھی پالنے لگا۔ یوں اُس کی زرعی پیداوار بڑھی۔ اس نے اب فصلوں کو ورائٹی بھی بڑھادی۔

اب باقاعدہ دو طبقے بن گئے: زمین کا مالک طبقہ اور بے زمین کسان طبقہ۔ مالک نے کسان کو قابو میں رکھنے کے لیے ڈنڈے مار قسم کے لوگ رکھے۔   کوئی جادوگر، نجومی، دم چُھو کرنے والا پکڑ کر دربار میں بٹھا دیا۔ ایک آدھ شاعر، اور ایک آدھ قاضی بھرتی کیا۔کچھ اور شعبوں میں بھی اس نے کرائے کے آدمی رکھے۔ یہیں سے ریاست کا آغاز ہوا۔

دولت مند جاگیردار مزید دولتمند ہونے لگا۔ اس کی مویشیوں کے ریوڑ بڑھنے لگے۔ ساتھ میں کپڑا بُننے اور دھات کے آلات بنانے کا فن بھی ترقی کرتا رہا۔

ارتقا اور ترقی ہوتی گئی۔ سرف ڈم تو اس لیے تھا کہ آلاتِ پیداوار فرسودہ تھے۔ آلات میں ترقی ہوئی تو کسان کا درجہ بھی بلند ہوا۔ سرف ڈم ختم ہوئی اور کسان فروخت ہونے سے آزاد ہوا۔وہ رہا تو کسان ہی، مگر اب مالک چُننے کی اُسے آزادی ملی۔

فیوڈل ازم کا غالب مذہب مسیحیت تھا۔ چرچ، پوپ، بادشاہ اور جاگیردار کی اطاعت اس کا خاص پیغام تھا۔ شیولری، غیرت و آنر، اور وفاداری یہاں ویلیوز کے بطور راسخ ہوئے۔

medieval (5ویں سے 15ویں صدی تک)کا زمانہ یورپ میں تاریک ترین دور رہا ہے۔ اس میں فرد کو کوئی آزادی نہیں تھی۔ سماج چرچ، بادشاہ اور فیوڈل لارڈز کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا. معاشرہ سماجی، مذہبی اور سیاسی پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ تخلیقی عمل رک چکا تھا۔ یورپ معاشی طور پر خستہ حال تھا۔ مسیحیت یعنی چرچ اور پادری،لوگوں کو ریاست کے ظلم کو صبر سے برداشت کرنا سکھاتی تھی۔

مسیحیت  سے علیحدہ ہر مذہب اور رویہ کو طاقت کے زور پہ دبایا گیا ۔اس مشن کے تحت چرچ نے پورے یورپ سے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو زبردستی مسیحی بنانا شروع کیا اور جو نہیں مانتے انہیں یا تو قتل کیا، زندہ جلا دیا یا جلا وطن کردیا۔

عورتوں کے ساتھ اس سے بھی خطرناک رویہ اپنایا۔ پادریوں نے عورتوں کے زیب و زینت و آرائش پہ حملہ کردیا۔ عورت کا جسم اور اس کا لباس ان کے وعظوں کا اہم موضوع بن گیا، عورت کو جنسی اعضا کے طور پر حقارت کی نگاہ سے پیش کیا گیا۔ سمجھدار اور چرچ کی بد عنوانیوں کے خلاف بولنے والی عورتوں (آوازوں) کو ڈائن،شیطان کا ساتھی یا پھر گمراہ قرار دیا۔

کنفیشن  کے عمل کے ذریعے چرچ نے افراد کی نجی زندگی میں مداخلت کرنا شروع کیا تھا اور ہر عیسائی کے لیے  یہ ضروری ٹھہرا کہ کم از کم سال میں ایک مرتبہ اپنے علاقے کے پادری سے اپنی گناہوں کا اعتراف کرے. اس اعترافات کے نتیجے میں پادری نے افراد کے اُن معاملات میں بھی دخل دینا شروع کیا جو بہت زیادہ نجی تھے. چرچ سیاسی طور پر  اتنا مظبوط ہواتھا کہ بادشاہ کی  تاج  پوشی کی رسم بھی چرچ میں ادا ہوتی تھی۔

چرچ نے اپنے مذہبی اور سیاسی تسلط کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے انکویزشن  کا محکمہ بنایا تاکہ منحرفین جو چرچ اور ریاست کے لیے خطرہ ہوں انہیں سزا دی جائے،جن میں اذیت دینا، جلا وطن کرنا جائداد ضبط کرنا، زندہ جلانا اور موت کی سزا شامل تھی. انکیوزیشن ادارے کا کام یہ تھا کہ ریاست اور چرچ کی بد عنوانیوں اور غلط پالیسیوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبائے اور آگاہی کو روکے۔

جب جرمنی میں پرنٹنگ پریس مشین ایجاد ہوا تویہ گویا دنیا کی تاریخ میں ایک انقلاب تھا۔تب کتابیں زیادہ چھپنے لگیں لوگ زیادہ پڑھنے لگے۔ اور بائبل کا بھی مقامی زبانوں میں ترجمہ ہونے لگا۔ اب لوگوں کو بائبل سمجھنے کے لیے چرچ کے کسی پادری کا محتاج نہیں بنانا پڑتااور اس طرح یورپ میں ترسیل علم تیز ہوگیا۔ چرچ کے خلاف جب آوازیں اٹھنے لگیں تو 1530 میں انکوزیشن نے اپنے دائرہ عمل میں دانشوروں اور تعلیمی درسگاہوں کو بھی لے لیا. یونیورسٹی کی تعلیم، نصاب کی کتابیں اور پروفیسروں کے خیالات کی نگرانی ہونے لگی۔ یونیورسٹی میں لکچر ہال کے برابر والے کمرے میں انکوزیشن کا عہدیدار پروفیسر کا لکچر سنتا تھا تاکہ پروفیسر ایسے خیالات کا اظہار نہ کرے جو کہ چرچ کی تعلیمات کے خلاف ہوں. پرتگال کے طالبعلموں کو تعلیم کے لئے دوسرے ملکوں کو جانے کی اجازت نہیں تھی، کوپرنیکس، گلیلیو، نیوٹن اور کئی دوسری  ریسرچرز کی کتابیں ممنوع تھیں۔کتابوں کی اشاعت سے پہلے چرچ کے عہدیدار اس کی چھان بین کرتے، چرچ کی اجازت کے بغیر کوئی کتاب, مجلہ یا تحریر نہیں چھپ سکتی تھی۔

چرچ اور ریاست کے اس قدر گھٹن زدہ ماحول میں لوگوں کا سانس لینا مشکل ہوگیا تھا۔ لوگ تنگ آ چکے تھے۔

۔4۔  یہ سب  وہ محرکات تھیں جنہوں نے ”رینے ساں“ کو جنم دیا۔ رینے ساں وہ زمانہ تھا جب چرچ اور ریاست کی بربریت کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں،اصلاحی اور ہیومنسٹ تحریکیں شروع ہوئیں اور آہستہ آہستہ روشن خیالی، سیکولر خیالات، اور فرد کی آزادی کے حق میں آوازیں تیز ہونے لگیں اور بغاوت کی یہ تیز و طرار آواز  پورے یورپ میں گونجنے لگی اور فرانس میں انقلاب کے بعد یورپ کی دوسری ریاستوں نے دباؤ میں آکر ہیومنسٹ تحریکوں اور اصلاحات کو تسلیم کیا اور اس طرح لوگوں کو چرچ اور بادشاہ کے ظلم و  ستم سے  آزادی ملی۔۔بادشاہ، اور چرچ کا تسلط ختم،فرد کی آزادی بحال ہوئی۔اب لوگوں کا رحجان معیشت پر ہوا۔اس کے لیے انہوں نے مختلف راستہ ڈھونڈنا شروع کیا۔

دراصل فیوڈلزم ہی کے دوران ترقی یافتہ آلات کے لیے دستکار وں کا اپنا گروہ، ورکشاپ اور دیہی مارکیٹ وجود میں آتی گئی۔ یوں شہر اور دیہات کا تصور سامنے آیا۔ یعنی اب دستکاری اور زراعت کی علیحدہ علیحدہ نشوونما ہونے لگی۔ اس تقسیم کے نتیجے میں تبادلے کے لیے پیداوار کی جانے لگی۔یعنی اب اشیا اپنی استعمال کے بجائے تبادلے کے لیے بنائی جانی لگیں۔ اب سرکاری واجبات کی ادائیگی کے لیے بھی اجناسِ پیداوار کا ایک حصہ منڈی میں لے جانا پڑتا تھا۔

آلات پیداوار ہاتھ سے بنانے کے بجائے اوزاروں (مشینوں) سے بننے لگے تو دستکاروں کی ورکشاپوں کی جگہ انڈسٹری نے لے لی۔ یہی انڈسٹری دراصل  فیوڈلزم کے خاتمے کا آغاز بھی تھی۔  اس لیے کہ اب انڈسٹری خود سے ایک حقیقت بنتی گئی۔

لیکن جاگیرداری سماج خود بخود یعنی آٹو میٹک انداز میں انڈسٹری میں تبدیل نہیں ہوئی بلکہ اس کے لیے انڈسٹری والے علاقوں، یعنی  شہروں نے فیوڈلزم کو زور زبردستی سے پچھاڑ دیا۔۔۔۔۔ انڈسٹریل انقلاب لاکر، اور بڑے پیمانے کی کشت وخون سے گزر کر ہی ایسا ہوا۔ یہ کام صنعتی یورپ میں ہوا۔ یہ انقلابات اس لیے ضروری تھے کہ ترقی یافتہ آلاتِ پیداوار اب اس سماج میں سما نہیں سکتے تھے۔ اب چونکہ کسان اور جاگیردار کے بجائے صنعتکار اور مزدور ایک الگ موڈ آف پروڈکشن (طریقِ پیداوار) بن چکے تھے۔اس لیے آخری ہلّہ بولنا ہی تھا۔

صنعتی انقلاب کا سیٹی بجانے والا ملک انگلینڈ تھا۔ صنعتی انقلاب کا سب کچھ وہیں ہورہا تھا۔یعنی 18ویں صدی کے وسط تک برطانیہ سب سے بڑی کمرشل قوم تھی۔ گلوبل ٹریڈنگ ایمپائرانگلینڈ کپٹلزم کی جنم بھومی ہے۔

جب مزید پیسہ کمانے کے لیے پیسہ لگانا پڑے تو اسے ”کپٹل“ کہا جاتا ہے۔اور جن لوگوں کے پاس کپٹل ہوتا ہے انہیں کپٹلسٹ کہاجاتا ہے۔ 16ویں سے 18ویں صدی تک کپڑے کی انڈسٹری نے ایک ایسا نظام تشکیل دیا جس میں پیداواریت بڑھانے کے لیے accumulatedکپٹل کی سرمایہ کاری کی گئی۔۔۔ اسے کپٹلزم کہتے ہیں۔ یعنیجو نیا صنعتی نظام پیداوار بنا اس کو کپٹلزم کہتے ہیں۔

1750سے لے کر 1850تک دنیا عجب انداز میں تبدیل ہوتی رہی۔  انڈسٹریل ریولیوشن کی نمایاں ترین چیز یہ تھی کہ دستکاروں کی کارگاہوں کہ جگہ اب مشینیں لینے لگیں۔ انڈسٹری میں لیبر تعدادبڑھتی گئی، کپٹل انوسٹمنٹ ہوتا رہا، پیداوار ہاتھ کے بجائے مشین کے استعمال کی بدولت بہت ہونے لگی، ٹکسٹائل انڈسٹری سب سے زیادہ منافع بخش ہوتی گئی۔ نہری نظام زراعت کے اندر چھانے لگا، زراعت کے لیے کیمیکل اشیا کا استعمال بڑھتا گیا، لوہے کا استعمال بڑھتا گیا۔پانی کی اپنی قوت اور اُس سے بنائی جانے والی بھاپ کی طاقت کو صنعت میں استعمال کیا جانے لگا، اب ایسی بڑی فیکٹریاں بننے لگیں جو مشینیں تیار کرتی تھیں، سمندروں میں دخانی جہاز مال لانے لے جانے لگے، مست تؤکلی کو حیران کردینے والا ریلوے قائم ہوا، اور اطلاعات کے لیے ٹیلیگراف آیا۔

شہر بلا کی طرح ابھرنے لگے، دیہات شہر کے پیٹ میں بھی تھا، اور شہر کا پیٹ بھرنے کے لیے بھی۔ بکھری آبادی مرتکز ہونے لگی۔ زمین گویا الٹ دی گئی۔

کپٹلزم نے اِن سب باتوں پہ بلڈوزر پھیر دی۔ سب کچھ کا محور اب شخص، اورفرد ہوگیا باقی”ہم قبیلوی“، ”ہم وطنی“، ”ہم مذہبی“سب کچھ ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ چرچ کمزور ہوا۔ پوپ، پاکستان 18ویں ترمیم والے صدرِ پاکستان سے بھی کمزور ہوگیا۔ اور سٹیٹ،چرچ اور سجادہ نشین سے آزاد ہوکر واحد قوت کے بطور ابھر آیا۔ سٹیٹ میں فرد کو قانون کے سامنے برابری، آزادیِ تحریر و تقریر وتنظیم سازی جیسی آزادیاں نصیب ہوئیں۔

چونکہ مشینوں سے واسطہ تھا اس لیے تعلیم (ٹیکنیشن)مشین پر کام کرنے والے ہرمزدور کے لیے ضروری ہوگیا۔ اسی لیے جگہ جگہ سکول کالج اور ٹریننگ سنٹرز سرکاری طور پر کھول دیے گئے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے