دنیا جہان میں دو زبانوں کے الفاظ کی لغات یعنی Bilingual Dictionariesکی اشاعت کا عام سلسلہ موجود ہے، جس سے دو زبانوں کے بولنے والوں کو ایک دوسرے کی زبانوں کے الفاظ اور ان کے مثالی جملوں کے ذریعے لوگوں، سماج ثقافت، تہذیب، تمدن، علم اور ادب کو سمجھنے اور جاننے کا موقعہ ملتا ہے۔ دو زبانی لغات کے علاوہ کئی ممالک میں دو سے زیادہ زبانوں کی لغات کے شائع ہونے کا رواج بھی نظر آتا ہے، کیوں کہ کئی ملکوں اور سماجوں میں بڑے پیمانے پر دو سے زیادہ یعنی تین، چار یا پانچ زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ جب کہ چھوٹے گروہوں کی تو لاتعداد  زبانیں اور بولیاں مروج ہوتی ہیں۔ ایسی دو سے زیادہ زبانوں میں مرتب کی گئی لغات کو اصطلاحی طور پر Multilingual Dictionariesکہا جاتا ہے۔

پاکستان بھی کثیر زبانی ملک ہے، جہاں اردو کے علاوہ عالمی زبان انگریزی کو دفتری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ ان دو زبانوں کے علاوہ سندھی، بلوچی، پنجابی، پشتو، سرائکی، براہوی، بروشسکی، پوٹھوہاری، ہزاری، اور دوسری کئی زبانیں یہاں پر بولی اور لکھی جاتی ہیں۔ وکی پیڈیا انسائیکلو پیڈیا کے مطابق، پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد 74ہے۔ (1)  اس لیے ان زبانوں کی مشترکہ لغات کی ضرورت بھی مستقلاً رہتی ہے تاکہ ایک ہی ملک کے رہائشی ایک دوسرے کی زبانوں کی بنیادی آگاہی کے ساتھ سماجوں، ثقافتوں، رویوں وغیرہ کو جان سکیں اور ان کے درمیان قربت کے اسباب بھی پیدا ہوسکیں۔ یہاں پر دوزبانی لغات کی ترتیب اور شائع ہونے کا سلسلہ عام ہے جن میں انگریزی اور اردو زبانیں عام طور پر شامل ہیں، لیکن مختلف زبانوں کی مشترکہ یعنی ”کثیر لسانی لغات“ شاذ و نادر ہی نظر آتی  ہیں۔ ایسی شائع ہونے والی چند لغتوں میں پاکستان میں بولی جانے والی اکثر یا اہم زبانوں کو شامل کر کے ان لغتوں کی اہمیت بڑھائی گئی ہے۔ ایسی کثیر لسانی لغات میں مندرجہ ذیل لغات نمایاں ہیں:

”ہفت زبانی لغت“: اشفاق احمد، محمد اکرم چغتائی اور فضل قادر فضلی کی مدون کروہ یہ سات  زبانوں کی لغت 1974میں شائع ہوئی، جس میں اردو زبان کو بنیادبنا کر اس کے الفاظ کو ترتیب وار بنگالی، بلوچی، پشتو، پنجابی، سندھی، کشمیری زبانوں میں معنی درج کی گئی ہیں۔ پاکستان میں شائع شدہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی لغت ہے ۔

”اٹوٹ لسانی رابطہ“ پروفیسر پریشان خٹک، پردل خان خٹک اور مولوی محمد اسحاق کی مرتب کردہ یہ چھ زبانوں کی لغت  1987میں شائع ہوئی، جس میں اردو زبان کو بنیاد بنا کر ترتیب وار سندھی، پشتو، بلوچی، پنجابی اور انگریزی زبانوں میں معنی شامل کی گئی ہے۔

”لسانی رابطہ: اردو، سندھی، پشتو، پنجابی اور بلوچی کے مشترکہ الفاظ“: پروفیسر پریشان خٹک کی مرتب کردہ یہ پانچ زبانی لغت 1987میں شائع ہوئی، جس میں اردو زبان کو بنیاد بنا کر چاروں صوبائی زبانوں میں معنی درج کی گئی ہیں۔

”چومکھی لغات“:اسے پروفیسر شیخ محمد اسماعیل نے مدون کیا ہے ۔یہ چار زبانی لغت 2018میں شائع ہوئی جس میں اردو الفاظ کو بنیاد بنا کر ان الفاظ کے سرائکی، سندھی اور انگریزی زبانوں میں معنی درج کی گئی ہیں۔

”9زبانی لغت“ پروفیسر عبدالعزیز مینگل کی مرتب کر دہ یہ نو زبانی لغت 2020میں شائع ہوئی جس میں اردو الفاظ کو بنیاد بنا کر ان الفاظ کے معنی اور مطالب ترتیب وار براہوی، بلوچی، پشتو، پنجابی، سرائکی، سندھی اور انگریزی زبانوں میں لکھے گئے ہیں۔ یہ لغت ایک لحاظ سے ”ہفت زبانی لغت“ کی نظر ثانی اور اضافہ شدہ اشاعت محسوس ہوتی ہے۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان سب ہی لغات میں اردو زبان کو بنیاد دی گئی ہے، لیکن اب ایک ایسی کثیر لسانی لغت شائع ہوئی ہے۔ جس میں اس طریقہ اندراج کو تبدیل کر کے، بجائے اردو کے، بلوچی زبان کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے۔ اس لغت کا نام ”لوز گنج“ ہے۔ یہ لغت اپنی نوعیت کی پہلی چار زبانی لغت بھی ہے۔ جس میں بلوچی الفاظ کے تین زبانوں یعنی سندھی، براہوی اور اردو میں مترادفات دیے گئے ہیں، جب کہ اس سے قبل شائع شدہ کثیر لسانی لغات میں بلوچی زبان، دوسری شریک زبانوں کی طرز پر ثانوی حیثیت میں شامل رہی ہے۔

لوز گنج کو بلوچی زبان کے معروف ادیب اور محقق پناہ بلوچ نے مرتب کیا ہے۔ یہ درحقیقت چار زبانی لغت ہے، جس میں بلوچی الفاظ کے معنی اور مترادف الفاظ سندھی، براہوی اور اردو زبانوں میں درج کیے گئے ہیں۔ اس لغت کی پہلی اشاعت 2022میں، مجلد ڈبل ڈیمی سائیز میں  1319صفحات پر، بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کی جانب سے، میراث پرنٹنگ پریس کراچی سے طبع ہو کر منظر عام پر آئی ہے۔

اس لغت میں فہرست نہیں دی گئی جس کی بہت ضرورت تھی، کیوں کہ اس ضخیم لغت میں مطلوبہ حرف کے الفاظ تک رسائی کے لیے کئی صفحات کو پلٹنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ لغت میں بلوچی الف۔ بے بھی درج نہیں کیے گئے، جس کی تلافی بھی فہرست میں ہوسکتی تھی۔ بہر حال لغت میں 35بلوچی حروف پر مشتمل ترتیب کے لحاظ سے مندرجہ ذیل بلوچی الفاظ شامل ہیں۔

آ۔ ا(ص 5 سے) دوبارہ آ۔۱، صفحہ 31پر بھی، جس کی ضرورت نہیں تھی)۔ ب  (ص89سے، جس میں ’بھ‘ بھی شمال ہے)، پ (ص218سے، جس میں ’پھ‘ بھی شامل ہے)، ت (ص348سے، جس میں ’تھ‘ بھی شامل ہے)، ٹ (ص423سے، جس میں ’ٹھ‘ بھی شامل ہے)،ث (ص423سے) ج (ص 448سے، جس میں ’جھ‘ شامل ہے)، چ (ص495 سے، جس میں ’چھ‘ شامل ہے) ح (ص 558سے)، خ (ص 568سے)، د (ص 576سے، جس میں ’د ھ‘ بھی شامل ہے)، ڈ (ص642سے، جس میں ’ڈھ‘ بھی شامل ہے)، ذ (ص669سے)، ر (ص670 سے) ز (ص 714سے)، ژ (ص 745سے)، س  (ص 751سے)، ش (ص 838سے)، ص (ص 887سے)، ض (ص 890سے)، ط (ص 891 سے)، ظ (ص 893سے) ع(ص  893سے)، غ (ص 897سے)، ف (ص 901سے) ، ق (ص 905سے)، ک (ص 908سے، جس میں ’کھ‘ بھی شامل ہے)، گ (ص 1011سے، جس میں ’گھ‘ بھی شامل ہے)، ل (ص 1088سے)، م (ص 1136سے)، ن (ص 1210سے)، و (ص 1251سے)، ہ (ص 1277سے) اور ی ءُ ے (ص 1313سے)۔ یہ سارے حروف نئے صفحہ نمبر سے شروع نہیں کیے گئے، بلکہ جہاں پر کسی ایک حرف کے الفاظ ختم ہوتے ہیں وہیں سے ہی دوسرے حرف کے الفاظ شروع  ہوجاتے ہیں۔ اب اردو لغات میں، بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، کھ اور گھ، کا الگ آوازوں اور ان کے نمائندہ حروف کے طور پر اندراج کیا جاتا ہے، اس لیے لغات میں انہیں الگ حیثیت میں درج کرنا چاہیے۔

”لوز گنج“ میں مؤلف کی جانب سے دو صفحات پر مشتمل پیش لبز“ بلوچی میں لکھا گیا ہے۔ یہ اردو میں بھی لکھا ہوا ہوتا تو باقی تینوں زبانیں بولنے والے بھی اس سے مستفیض ہوسکتے تھے  میری گزارش پر جناب پناہ بلوچ نے ”پیش لفظ“ کا اردو میں ترجمہ کر کے بھیجا تاکہ میں اس لغت کے بارے میں ضروری نکات کو جان سکوں، جس کے لیے میں ان کا مشکور ہوں۔ ذیل میں ”پیش لفظ“ کے منتخب جملے درج کیے جاتے ہیں۔

”بلوچی بلوچوں کی قومی زبان ہے لیکن سندھ، پنجاب و دیگر علاقہ جات اور ممالک میں آباد بلوچ، بڑی تعداد میں سندھی، سرائیکی، پنجابی، پشتو، اردو و دیگر زبانیں بولتے ہیں۔۔۔ بلوچی سندھی لغت پر کام کرنے کی ذمہ داری مجھ پر آگئی۔ بات چیت اور ذمہ دار کمیٹی کی منظوری کے بعد میں نے 22اکتوبر2016کو بلوچی، سندھی، اور اردو لغت، لوز گنج، پر کام شروع کیا۔۔۔۔ سندھی سے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے نواسے جناب ارشد بلوچ، محترمہ نسیم شاہوانی نے پروفیسر عزیز مینگل کی اردو، براہوئی لغت کا تحفہ دیا۔۔۔ خود ہی اردو، سندھی اور بلوچی کمپوزنگ سیکھ کر اور براہوی زبان کو ”لوز گنج“کا حصہ بنا کر کمپوزنگ کا آغاز کیا۔ ڈھائی سال کی کمپوزنگ کے بعد پہلا مسودہ مکمل کیا۔ ماہرین نے نہ صرف اپنی اپنی زبانوں کا پروف کیا بلکہ بہت سارے لفظ نکالنے اور شامل کرنے کے مشورے دیئے۔۔۔ ’لوز گنج‘ میں کہیں ایک اور کہیں ایک سے زیادہ معنی شامل کیے گئے ہیں۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ کچھ علاقوں کے الفاظ شامل ہونے سے رہ گئے ہوں۔  تمام الفاظ کے معنی شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ سرِ دست میری پانچ سال سے زائد عرصے کی محنت سے یہ ابتدائی کام آپ کے سامنے ہے“۔

مندرجہ بالہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ”لوز گنج“ کی بنیاد بلوچی زبان کی جامع لغت ”لبز بلد“ پر رکھی گئی ہے۔ ”لوز گنج“ کی تدوین کے لیے جن دوسری لغات سے مدد لی گئی ہے ان میں خاص طور پر ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ اور ڈاکٹر غلام مصطفی خان کی مرتب کردہ لغات کے علاوہ پروفیسر عزیز مینگل کی لغت شامل ہے۔ حقیقت میں یہ ”پیش لفظ“ تو بہت ہی اختصار سے اس چار زبانی لغت کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو لغت مرتب کرنا، وہ بھی چار زبانی، انتہائی مشکل کام ہے، جسے بڑی محبت اور محنت سے پناہ بلوچ نے مکمل کیا ہے۔ میرے لیے مسرت کی بات ہے کہ اس لغت کے سندھی مترادفات پر نظر ثانی کرنے اور اس کے پروف پڑھنے کی ذمہ داری میں نے سرانجام دی۔

”لوز گنج میں صفحہ نمبر5سے 1314صفحات میں ہر ایک صفحہ پر چار کالموں میں ترتیب وار بلوچی، سندھی براہوئی اور اردو آمنے سامنے لکھے گئے ہیں۔ اس لغت میں صرف پانچویں صفحہ کے سرے پر ہی زبان کی نشاندہی کے طور پر ”بلوچی، سندھی، براہوی، اردو”الفاظ نظر آتے ہیں جب کہ چھٹے صفحہ سے آخر تک یہ الفاظ درج نہیں، جس سے ایک مشکل پیدا ہوتی ہے۔ اس لغت میں عام طور پر دوسری زبانوں کے ایک یا دو متبادل الفاظ معنی کی طور پر شامل ہیں۔ کہیں پر تین الفاظ بھی لکھے گئے ہیں۔ جب کہ دو مختلف اقسام کے معنی بھی داخل دفتر کیے گئے ہیں، جس سے اس کی افادیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لغت میں شامل بلوچی الفاظ کی تعداد کے بارے میں کوئی معلومات درج نہیں کی گئی، لیکن سرسری طور پر ایک صفحہ پر 22,20الفاظ کے حساب سے یہ تعداد 28,27ہزار تک ہوگی جو کہ نہایت ہی مناسب تعداد ہے۔ رابطہ کرنے پر مؤلف لغت نے بتایا کہ اس لغت میں تقریباً 30ہزار بلوچی الفاظ کے معنی دیے گئے ہیں جب کہ کمپیوٹر کے مطابق اس لغت میں شامل جملہ الفاظ کی تعداد 4لاکھ، 72ہزار،672ہے۔(2)

”لوز گنج“ کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کہ بلوچی اور سندھی الفاظ کے تلفظ بھی اردو رسم الخط میں دیے گئے ہیں اور  اعرابوں کا استعمال بھی کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان الفاظ کو باقی تین زبانوں کے پڑھنے والے بھی آسانی سے پڑھ سکیں گے۔ ایک بہترین کام یہ بھی کیا گیاہے کہ سندھی الفاظ کو سندھی آئیویٹا میں لکھ دیا گیا ہے۔

بہر حال، ”لوز گنج“ ایک اہم اور کار آمد لغت ہے، جس کی تدوین پر بہت زیادہ محنت کی گئی ہے، تاہم جیسا کہ ہر ایک لغت ہمیشہ کا مل نہیں ہوتی یا اس کو مزید بہتر بنانے کی گنجائش ہر وقت رہتی ہے، اس طرح ”لوز گنج“ میں شامل بلوچی الفاظ کے انتخاب اور دوسری تینوں زبانوں کے درج مترادفات پر بھی نظر ثانی کی ضرورت مختلف طبقوں میں ضرور محسوس کی جائے گی۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ اس لغت کے ذریعے بلوچ عوام طلباء کا تعلق سندھی، براہوی اور اردو زبانیں بولنے والوں کے ساتھ نئی قوت سے مضبوط ہوگا اور ان کے ساتھ قربت کو قائم کرنے اور بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ مجھے پوری امید ہے کہ یہ کثیر زبانی لغت پاکستان میں شائع شدہ لغتوں میں یقینا اہم جگہ بنائے گی۔ مستقبل کے لیے ایک امید مزید کی جاتی ہے کہ اس لغت کی دوسری اشاعت میں ضروری اصلاحات اور اضافے ضرور کیے جائیں گے۔ میں اس لغت کی اشاعت پر جناب پناہ بلوچ اور بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

 

حوالہ جات

https:\\en.wikipedia.org/wiki/Languages.of pakistan

۔میسینجر ایپ میں 14اگست 2022پر کیا گیا میسیج

۔ ایضاً

۔ بلوچ، پناہ: لوزگنج، بلوچی اکیڈمی کوئٹہ، اشاعت2022، ص333

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے