رنگ و آہنگ سے ہے سَجی خَلوت،

پھول، خوشبو سی شبنمی خلوت

 

یاد جھنکار بن کے اِترائی،

گھنگھرووْں کی طرح بَجی  خلوت

 

گیت ہارے تَھکے ہوئے پنچھی،

سْرمئی شام بن گئی خلوت

 

شور و غل سے لدے بدن جن کے،

ان سے مانوس کب رہی خلوت

 

سانس کی سانس سے وہ سرگوشی،

کس قدر وہ حسین تھی خلوت

 

رات کہتی رہی ہے "تَروینی”،

اور چھیڑے ہے راگنی خلوت

 

ہم سناتے ہیں داستانِ دل،

سابھیاں سنگ رو پڑی خلوت

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے