میری پیدائش سنگلاخ پہاڑوں میں ہوئی جہاں علم و شعور تو دور کی بات انسانوں کی آوازیں بھی بہت کم سنائی دیتی ہیں۔ البتہ رات کے اوقات بھیڑیوں اور گیدڑوں کی آوازیں کثرت سے سنائی دیتی ہیں۔۔ہمارے گاؤں میں کوئی سکول نہیں ہے جہاں سے بنیادی تعلیم حاصل کی جاسکے،کچھ سرکاری عمارتیں ہیں تو وہ لوگوں کی بیٹھک بنی ہوئی ہیں وہاں تعلیم کا کوئی رواج نہیں۔
لیکن اس سب کے باوجود ماں کی گود سے ہی ہمیں ایک بات سکھائی گئی تھی کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں،ایک آزاد ملک میں زندگی گزار رہے ہیں اور اس آزادی کے لیے ہمارے اسلاف نے بڑی قربانیاں دیں۔
اسکے بعد پھر گاؤں سے دور ایک ماڈرن سکول کا رخ کیا جہاں بنیادی کلاسز پڑھائی جاتی تھیں۔وہاں بھی قدم رکھتے ہی یہ احساس دلایا گیا کہ ہم آزاد قوم ہیں۔آزاد فضاؤں میں زندگی گزار رہے ہیں ،ہمارا جینا مرنا اسی وطن کے لیے ہے۔
ہر صبح اسمبلی کے وقت پورا سکول ملی نغموں سے گونج اٹھتا چونکہ میری آواز اچھی تھی اس لئے میں ان سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا اور سننے والوں کا لہو گرما دیتا۔
لیکن جوں جوں سمجھ بوجھ آنے لگی،معروض کا جائزہ لیا،فوجی آپریشنز دیکھے تو جذبات میں ابھار گھٹتا گیا۔۔پھر وقت کے ساتھ ساتھ کچھ کتابوں نے جمی دھول صاف کی تو کچھ حالات نے آنکھیں کھول دی۔
پھرجب میں نے سماج کا بغور مشاہدہ کیا تو جو سمجھایا اور سکھایا گیا تھا حالات ان سے یکسر مختلف تھے۔۔جب جذبات اور حب الوطنی کا عینک کا اتار کر دیکھا کہ یہاں تو ہر طرف مایوسی برپا ہے۔ انسانی خون بہت ارزاں ہے،انسانوں کی عزتیں تارتار ہیں، مال و جائداد محفوظ نہیں، مذہبی اور فکری حوالے سے تحفظ نہیں۔ جائیدادوں کے مسائل ،کہیں آگ کہیں فساد کہیں ظلم و بربریت،کہیں عدالتی ناانصافیاں ،تو کہیں حکومت کی ہٹ دھرمیاں،کہیں بجٹ کے رونے کہیں ٹیکس پر چلانا ،میں نے دیکھا کہ ملک و قوم کا ہر فرد تھک چکا ہے مایوس ہوچکا ہے ،ہر گھر خوفزدہ ہے خود ہی سے ڈرتا ہے اپنے مستقبل کو دیکھ کر خوفزدہ ہے کہ کہیں مسخ شدہ لاشیں نظر آتی ہیں ،تو کہیں عقوبت خانوں میں کئی سالوں سے لاپتہ چہرے یاد آتے ہیں
دل و دماغ نفرت کا ابھار لیے ہیں آنکھوں سے نفرت کی چنگاریاں اڑ رہی ہیں ،کان صرف سن رہے ہیں ،گھستی ہوئی دانتوں سے آوزیں آرہی ہیں ،ہر طرف خون کی بدبو ہے۔۔پھر مزید کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا،یونیورسٹی لائیف کی ابتدا ہوئی تو بہت سی مسٹریز کھلنے لگیں۔
کہ یہاں اگر ایک تماشہ ہوتا تو ایک سری نگاہ ڈال کر آگے بڑھتے مگر یہاں کی صورت حال تو یہ ہے کہ انسانیت پر روز بہ روز قیامتیں ڈھالی جاتی ہیں، سرزمین شدید آگ کی لپیٹ میں ہے۔۔یہ تو تھی ملک کی مجموعی صورتحال لیکن جس بدقسمت خطہ سے میرا تعلق ہے وہاں تو آگ ہی آگ ہے ۔ایک ایسی سرزمین ہے جہاں غم کا کوئی ٹھکانہ نہیں یہاں کے ہر گھر نے دکھ دیکھے ہیں جھیلے ہیں اب بھی جھیل رہے ہیں۔۔پھر وقت کے ساتھ خبریں سننے اور پڑھنے کا اتفاق ہوا تو مزید چونک گیا کہ مرہم پٹی کی بجائے یہاں تو روز نفرت انگیز بیانات دیئے جاتے ہیں،نمک پاشی کی جاتی ہے۔پھر مزید دیکھتا ہوں کہ ہرطرف غم ناک واقعات اور درد بھری داستانیں ہی سننے کو ملتی ہیں
یقینا یہاں آہوں اور سسکیوں سے زیست کی کھٹن سوئی کو گنا جارہا ہے۔شدید درد سے تھوڑی دیر افاقہ حاصل کرنے کے لیئے ہمارے پاس کوئی شفقت والے ہاتھ نہیں۔۔
بارود سے بھری فضا میں آنکھیں جھلس رہی ہیں بدن سوجھ چکا ہے۔
یہاں کسی کو بھی اپنا کل بہتر نظر نہیں آرہا ۔
یہاں پھولوں کو کھلنے نہیں دیا جاتا ،کھلنے سے پہلے مسخ کیا جاتا ہے۔
شدید بھوک ہے ،بیماری اور غذائی قلت کے ساتھ ساتھ بد امنی ،ٹارگٹ کلنگ ،دہشت گردی فرقہ واریت کے نتیجے میں لوگ بلک بلک کر مررہے ہیں۔
ملک کی چوتھائی فیصد کو صاف پینے کا پانی تک میسر نہیں
سینکڑوں خواتین زچکی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔
تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے 221 ممالک میں سے 180 نمبر پر ہے
حال ہی میں رپورٹ آئی کہ دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں ہماری کوئی ایک یونیورسٹی بھی شامل نہیں۔لیکن پھر بھی حکمران طبقات اتنے پْرعزم ہیں کہ دشمن کے بچوں کو پڑھانے کا بھی ذمہ اٹھا چکے ہیں۔
یہ سب کچھ دیکھ کر پھر سمجھ آیا کہ ریاست جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی ایک کالونی ہے جو صرف ہمارا استحصال کرنا جانتی ہے۔۔
زبردستی سے حقوق چھینے جاتے ہیں۔ بڑی چالاکی سے لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں ۔
کوئی سامنے آئے اس کو ختم کیا جاتاہے یا پھر ابداں ابد ان کو لاپتہ کیا جاتاہے کوئی پوچھنے والا نہیں !
70 سالوں سے غریب عوام کی آنکھیں پارلیمانی نظام کو تکتی رہیں مگر پارلیمان بھی جاگیردار ، سرمایہ دارانہ نظام کا ساتھی نکلا بلکہ پارلیمانی نظام بھی بورژوا کی باورچی کا قریبی سانجھہ نکلا۔ پارلیمانی نظام کو بھی اس طبقے کو سونپ دیا گیا جو صرف عوام کا استحصال بہترین انداز سے جانتا ہو جو سرغنہ ہو مارنا جانتا ہو ڈیتھ سکواڈ کا حامی ہو۔ تاہم اس کے باوجود عوامی حکمرانی کرنے والے لوگ اپنا یہ راستہ کبھی بند نہیں کریں گے بلکہ وہ اپنا کوئی بھی راستہ بند کرنے کی غلطی کبھی نہیں کریں گے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر پھر آہستہ آہستہ آزادی کا فتور سر سے اترنے لگا اور احساس ہوا کہ ابھی تک غلامی کی طوق موجود ہے ۔ اور سمجھ آیا کہ حکمران طبقات اس لیے حب الوطنی کی پٹیاں ہمیں پڑھاتے ہیں تاکہ ہم استحصال،ظلم و ستم اور ناانصافیاں اپنی آنکھوں دیکھ کر بھی اپنی آنکھیں بند رکھیں۔ اور ان کے مفادات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ لیکن وقت اور حالات سب سے بڑے استاد ہیں جو کائنات کی چھپی رازیں بھی آشکار کردیتی ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ اس وقت صرف اور صرف جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ سماج کا ڈیرہ ہے جو عوام کی بنیادی آزادیاں تک سلب کرکے انہیں بدترین معاشی و سماجی استحصال کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ اب ایسی صورتحال میں عوام اور حکمران طبقات کی درمیان ایک فیصلہ کن لڑائی لڑنی ابھی باقی ہے۔
ان سب محرومیوں کے باوجود ایک امید کی کرن یہ دیکھنے ملی کہ ظلم و ستم اور استحصال کے ساتھ ساتھ گاہے بہ گاہے مزاحمت اور بغاوت کی چنگاریاں بھی دیکھنے کو ملیں۔ جی ہاں سامراجی ظلم و جبر کے خلاف کئی مزحمتی تحریکیں دیکھنے کو ملیں جنہوں نے حق و سچ کا الم ہر دور میں گرنے نہیں دیا لیکن ان عوامی تحریکوں کو مختلف القابات سے نوازا جاتا ہے جیسے کبھی غدارودہشت گرد اورکبھی ان تحریکوں کو کاؤنٹر کرنے لیے مذہبی تعصب، نسل وگروہ کا کارڈ استعمال کرکے انکو آپس میں دست و گریبان کیا گیا۔
المختصر یہاں کہ لوگ زخمی ہیں مفلوج ہیں محتاج ہیں ،لاپتہ ہیں ،مسخ شدہ ہیں ، بے گھر ہیں۔ ان سب کے باوجود ان کے کان میں کہا جاتا ہے کہ تم تو آزاد ہو بھلا ان کے ہاں آزادی کا کیا مفہوم ہوسکتا ہے ؟
اس لیے سب سے بڑی ذمہ داری ہمارے دانش ور ، سیاسی لیڈر اور پروگریسو ورکرز پر عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کو باشعور کریں ان کو آرگنائز کریں ،ان کو حکمران طبقات کے خلاف ایک حقیقی آزادی دلائیں۔ ایک ایسے سماج کی تشکیل ہو جہاں تمام انسان برابر ہوں جہاں تمام انسانوں کو بنیادی حقوق فراہم ہوں جہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں ،محبتیں ہی محبتیں ہوں۔اور ایسا ضرور ہوگا خزاں جتنے بھی ڈیرے بہاروں کو آناہی ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ ایک دن اس سرزمین کو نفرتوں سے پاک کیا جائے گا ،موروثی سیاست کا خاتمہ ہوگا،ہر نوجوان کے ہاتھ میں چراغ ہوں گے اور ہم گیت خوشی کے آئیں گے۔

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے