میں نے دیکھ لیا تھا
وہاں آگ بھڑکنے والی ہے
تاریخ کے باب سے کء صفحات میری آنکھوں کو گرد آلود کررہے تھے۔
میں آنکھیں بند نہیں کر سکتی تھی
کان پر انگلیاں رکھیں تو میرے اندر کی گونج نے کہا
بانسری ہے یہ
دعائیں مت مانگو اب اس کا وقت نہیں رہا
جسے تم اذان سمجھ رہی ہو وہی آواز ہے جو شہر کے جلتے وقت بھی آرہی تھی۔۔
میں نے آسمان کی طرف دیکھا،کوء چڑیا نہیں تھی
جو پانی کا قطرہ لا کر میری آنکھوں پر گرادیتی۔۔
پرندے ہجرت کرگئے تھے
اس بار بھڑکنے والی آگ کا حاصل کوئی گلزار نہیں
میں نے مٹھی میں ریت اٹھاء اور شعلوں کی طرف اچھال دی
لا حاصلی میں یہی ممکن تھا۔
0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے