صبح کے دھندلکے میں کان ایک کالے دیو کی مانند لگ رہی تھی۔ ہرسو خاموشی تھی۔فضا میں پھیلی ایک تیز اور ناگوار بو سے نتھنے جلے جاتے تھے۔

زنگ آلود دروازوں کی چِرچراہٹ جب فضا میں گونجتی تو ایک عجیب سا سماں بندھ جاتا۔ کہیں کہیں سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں اس خاموشی میں ہلچل مچا دیتیں۔عبدالرحیم پائوں گھسیٹتے ہوئے اپنے بھائی عبداللہ کے ساتھ گھر سے نکلا تو راستے میں شفٹ کے دوسرے مزدور بھی ملتے چلے گئے۔ بوجھل دلوں اور زخمی روحوں کے ساتھ وہ آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ ان سب کے چہرے ایک جیسے اور ان کی آنکھوں میں گزرے ماہ و سال کی تکلیف اور جدوجہد یکساں تھی۔

عبدالرحیم جو قد کاٹھ میں لمبا چوڑا، چالیس سے پینتالیس کے بیچ خوبصورت پٹھان تھا۔ رنگ کبھی گورا رہا ہو گا لیکن زندگی کے تپتے ماہ و سال میں سانولا ہو چلا تھا۔ اس کے چہرے کی تھکاوٹ، پریشانی، حادثات کا مستقل خوف اور ماتھے کی لکیریں گئے سالوں کی کہانی بیان کر رہی تھیں۔ عبداللہ اس سے چند سال چھوٹا بھائی تھا جو کوئی سال بھر پہلے بھائی کے پاس آیا تھا۔

دونوں بھائیوں میں کافی فرق تھا۔ رحیم تکلیف سہتا تھا۔ درد کو گزارتا تھا، اپنی روح پر اپنے جسم پر۔ درد اس کے انگ انگ کو شل کیے رکھتا۔ خاموش رہ کر اس کا درد ایک زخم بن جایا کرتا۔ روح ایک گندے پھوڑے کی مانند بہتی رہتی لیکن وہ خاموش رہتا جبکہ عبداللہ کے لیے تکلیف سہنا محال تھا۔ وہ چیخ اٹھتا تھا۔ بِھڑ جاتا تھا۔ کئی بار اس کی منہ ماری ہو چکی تھی۔ یہاں تک کہ ساتھی مزدوروں کے ساتھ ایک آدھ بار ہاتھاپائی بھی ہو چکی تھی۔

کوئلے سے سیاہ ہوئے کپڑے جو کئی بار دھلنے سے اکڑ گئے تھے، پہنے تمام مزدوروں نے سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے نئی شفٹ کا آغاز کیا۔

ہیڈ لائٹس سے کان کی دیواروں پر عجیب ٹیڑھے میڑھے سائے ناچ رہے تھے۔ ٹھیک سات بجے کدالوں کی ٹھک ٹھک شروع ہوئی۔ ٹرالیاں ٹنل میں سے چیختے ہوئے گزرنے لگیں۔دوپہر تک خاموشی میں بس ٹھک ٹھک کی آواز آتی رہی۔ ایک عجیب سی پراسراریت تھی۔ دن کا نصف گزرا تو ایک نیم تاریک سے گوشے میں سب آ جمع ہوئے جہاں اوپر سے ٹرالی میں آئی روٹی چائے کے ساتھ کھانے لگے۔ کوئی پندرہ بیس منٹ بعد دردیلے جسموں کے ساتھ واپس اپنا کام شروع کر دیا۔

”میں یہ کام مزید نہیں کر سکتا لالا“ چند لمحے ہی گزرے تھے کہ عبداللہ نے کوئلہ کاٹتے کاٹتے کدال دور جا پھینکی۔ رحیم کے ساتھ باقی مزدوروں نے بھی اس کی طرف دیکھا۔ ہیڈلائٹس دیواروں پر عجیب عجیب ہیولے بنا رہی تھیں۔ کوئی فرق نہیں تھامزدوروں اور ان سایوں میں۔

رحیم نے کدال وہیں رکھی اور ہاتھ زمین پر رکھتے ہوئے جب اٹھا تو زخمی ہاتھ میں ایک ٹھیس سی اٹھی۔

”کہاں جایوگے؟ کیا کرو گے عبداللہ؟“ اس نے عبداللہ کی طرف آتے ہوئے کہا۔

”کچھ بھی، کہیں بھی۔“

”ہمارا رزق ان اندھیروں میں پھینک دیا گیا ہے اور اللہ نے ہمیں اس کی تلاش میں لگا دیا ہے کہ جاو¿ اپنا رزق تلاش کرو“ رحیم بے بسی سے سمجھاتے ہوئے بولا۔

”لیکن میں یہ نہیں کروں گا۔ میں یہاں سے نکلوں گا“ وہ چیخا۔ رحیم کے سمجھانے پر وہ بے دلی سے پھر سے کام کرنے لگا لیکن ایسا اٹیک اس پر ہر کچھ دن بعد ہوتا رہتا۔

٭٭٭

چھوٹا سا کچا گھر جس کی چھت جگہ جگہ سے ٹپک رہی تھی۔ تنگ سا کمرہ کوئلے کی کان سے کم نہ تھا۔ بارش جب ہوتی تو رحیم کی بیوی بخت تاج کمرے میں بالٹیاں اور لوٹے رکھ کر اس کوٹھڑی نما کمرے کو بچانے کی ناکام کوشش کرتی لیکن کمرہ پھر بھی بارش کے پانی سے بھر جایا کرتا۔ زنگ آلود دروازہ جو صرف ایک قبضے سے جڑا جھول رہا تھا۔ دیواروں پر اپنے جنم کے بعد سے شاید دوبارہ کبھی پینٹ نہ ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا۔ چھوٹی سی تنگ کھڑکی جس سے نہ مناسب ہوا اور روشنی کا گزر ممکن تھا، نہ ٹھنڈ میں کمرہ گرم رکھنے میں مددگار ہوتی۔ نمی، دکھ، افلاس اور بے چارگی کی ایک ناگوار بو چار سو پھیلی ہوئی تھی۔

ننگے فرش پر لیٹا عبدالرحیم سوچوں میں چھت کو تک رہا تھا جہاں لگے شہتیروں کو نہ جانے کتنی بار گن چکا تھا۔ دن بھر مشقت والی مزدوری کر کے لیٹا تھا۔ بدن کا شدید درد تھا یا کیا جو نیند اس سے کوسوں دور تھی۔ پاس ادھ ننگے اپنے بے سدھ سوئے بچوں پر جو نظر پڑی تو لبوں پر اک تلخ سی مسکراہٹ آئی۔

بخت نے دائیں جانب کروٹ لی۔ ”سو جائو رحیمے سو جائو۔“ کہتے ہوئے واپس نیند کی وادیوں میں کھو گئی اور اس نے بھی ایک لمبی آہ بھر کر آنکھیں بند کر لیں۔

٭٭٭

عبداللہ ٹرالی پر لیٹے کوئلے کی کان کے اندھیروں میں اتر رہا تھا۔ اسے لگا وہ لحد میں اتر رہا ہے۔ ”لیکن لحد بھی تو چھ فٹ سے زیادہ گہری نہیں ہوتی …… ایک نہ ختم ہونے والا اندھیرا …… ایک ناتمام گہری اندھیری لمبی سرنگ“ اس نے ایک جھرجھری لی اور جلدی سے آنکھیں کھول دیں۔زمین سے ہزاروں فٹ نیچے لوہے، بارودی مواد، کوئلے کی دھول، پسینے اور جانے کس کس کی ب±و فضا کو بھاری کر رہی تھی۔ چٹانوں سے کوئلہ توڑنے کی آوازیں بازگشت کی صورت سنائی دے رہی تھیں۔ اچانک ایک زوردار گڑگڑاہٹ سے زمین لرز اٹھی۔ روشنیاں ٹمٹمائیں …… اور بجھ گئیں۔ الارمنگ بیل کی آواز دور تک گونجتی چلی گئی۔ مزدورچیخنے لگے۔ ایک دھماکے سے سرنگ کی چھت گر گئی۔ بے شمار مزدور ملبے تلے دب گئے۔ ایک خوف و ہراس پھیل گیا۔ بچ جانے والے مزدور وہاں سے نکلنے کی جدوجہد کرنے لگے۔ فضا دھول مٹی سے اٹ گئی۔ نہ کچھ سنائی دے رہا تھا نہ دکھائی۔ عبداللہ کا دل بے تحاشا دھڑک رہا تھا۔

”لالا لالا“ وہ بھائی کو پکارتے پاگل پن سے ملبہ کھودنے لگا۔ اس کے بازو سے خون بہہ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں جل رہی تھیں اور وہ چیخ چیخ کر رحیم کو آوازیں دے رہا تھا لیکن کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا اور بہرہ کر دینے والی خاموشی……!

”عبداللہ عبداللہ“ کسی کونے سے آواز آئی۔

”کہاں ہو لالا؟“ عبداللہ زور سے چیخا۔

”شہتیر …… شہتیر کے نیچے۔“

اور عبداللہ جھکے جھکے ملبے کو ہاتھ سے ٹٹولتے ہوئے آواز کا پیچھا کرتے ہوئے آگے بڑھتا چلا گیا۔

اگلا دن بہت بوجھل تھا۔ رحیم کی ٹانگ شہتیر کے نیچے غلط زاویے میں دب جانے سے بری طرح زخمی ہو گئی تھی۔ نو کان کن دب کر فوت ہو چکے تھے۔ فضا درد، تکلیف اور ماتم سے سوگوار تھی۔ سورج کی ماتمی شعاعیں سارے میں پھیلی ہوئی تھیں اور کوئلے کی کان کے لبوں پر ایک شاطر مسکراہٹ تھی۔

”نو گھر اجڑ گئے لالا ……“ عبداللہ زنگ آلود کھڑکی سے باہر جھانک رہا تھا۔ اس کے دل سے جیسے ہوک سی اٹھی۔ ”کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔“ اس نے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے رحیم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

”قبر کی اس مزدوری میں ہم کچھ نہیں کر پائیں گے …… مجھے گھٹن ہوتی ہے یہاں …… میری سانس رکنے لگتی ہے……!“ عبداللہ کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور عبدالرحیم کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اسے کیا جواب دے۔

چند دن ایک عجیب سی اداسی تھی۔ پھر زندگی معمول پر آ گئی۔ وہی اندھیرنگری …… وہی روز و شب……!

مزدور خاموشی سے اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ فضا میں بس کدالوں کی ٹھک ٹھک، ٹرالیوں کے آنے جانے کی گڑگڑاہٹ اور کبھی کبھی کسی مزدور کی آواز آ جایا کرتی۔ عبداللہ بھی سوچوں میں گم کام میں مصروف تھا۔ اچانک باہر سے آتی روشنی کی چھوٹی سی کرن کی جانب اس کا دھیان گیا۔ کام چھوڑ کر وہ اس روشنی کو دیکھنے لگا۔ وہ ہاتھ بڑھا کر مٹھی میں اس روشنی کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگا …… اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تیر گئی۔ مٹی کے ذرات اس روشنی میں ناچ رہے تھے۔ جوں ہی وہ مٹھی بند کرتا، روشنی کی وہ کرن اسے واپس برابر کر دیتی۔ اسے اس کھیل میں مزہ آنے لگا اور کتنی دیر وہ یہی کرتا رہا۔

”روشنی کی اس کرن کو پکڑ کر ہم اپنی زندگیاں روشن کر سکتے ہیں عبداللہ“ سجاد جسے آئے دو دن ہی ہوئے تھے، اسے کھیلتے ہوئے کہنے لگا۔ اس سے پہلے کہ ان میں مزید باتیں ہوتیں، اچانک مینجر کی نظر اس پر پڑی۔ ”اوئے حرام خوروں، کام کرو، باتیں نہیں۔ لگتا ہے فیصلے میں اپنا حصہ نہیں چاہیے۔“ شام کو کام کے اختتام پر دیہاڑی کی تقسیم، جسے فیصلہ کہا جاتا تھا، اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کرخت آواز میں چیخا۔

٭٭٭

دن اسی طرح گزرتے چلے گئے۔ زندگی اسی ڈگر پر چلتی رہی۔ عبداللہ کڑھتا رہتا۔ کبھی چیخنے لگتا۔ ہر کچھ دن بعد کوئی نہ کوئی حادثہ ہو جاتا بہت سے مزدور زخمی ہو جاتے، کئی مر جاتے۔ کچھ دن کے لیے مزدور ڈر جاتے، سہم جاتے لیکن اپنے اپنے بچوں کو یاد کرتے اور پھر زندگی اسی نہج پر چلنے لگتی۔

روشنی اندھیرے کو چیر رہی تھی۔ پَو پھٹ رہی تھی۔ دونوں بھائی اندھیرے کان کی طرف آہستہ آہستہ باتیں کرتے چلے جا رہے تھے۔ تیز ہوا چلنے لگی۔ پرندوں کی چہچہاہٹ سنائی دینے لگی۔ کوئل کی کوک …… بارش …… بارش کے چند قطرے اس کے چہرے پر آ گرے۔ اس نے چہرہ آسمان کی طرف کر لیا۔ قطرے عبداللہ کے چہرے پر گرتے رہے۔۔۔ بھگوتے رہے۔ بارش، ہوا، پرندوں کی آوازیں …… اسے لگا کہ جیسے اس کا تعلق ابھی تک باہر کی دنیا سے قائم ہے …… ایک ربط ہے جو ابھی ٹوٹا نہیں …… ورنہ تو وہ سمجھ رہا تھا کہ باہر کی دنیا سے ہمارا کوئی تعلق نہیں …… ہم بس کوئلے کی اس کالک اور کان تک محدود ہیں۔

”لالا یہ بارش ہماری بھی ہے …… یہ موسم ہمارا بھی ہے“ اس نے عبدالرحیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تو رحیم نے اس کی بات سن کر مسکراتے ہوئے صرف اثبات میں سر ہلایا۔

وہ ٹرالی کو موت کا تختہ کہا کرتا تھا۔ ایک ناگوار زوردار آواز کے ساتھ وہ تختے پر اندر چلتا جا رہا تھا۔ روشنی معدوم ہوتی چلی جا رہی تھی۔ زندگی سے، نیچر سے جیسے اس کا رشتہ کٹتا چلا جا رہا تھا۔ اس نے ڈر کر آنکھیں کھول دیں۔ ٹرالی کے ساتھ ساتھ ایک تار اندر کان کی گہرائیوں سے باہر تک چلی جا رہی تھی جسکے آخر میں ایک گھنٹی لگی تھی۔ خطرے کے عالم میں اس رسی کو چار بار زور زور سے کھنیچ کر خطرے کی اطلاع دی جاتی۔

زمین کی تہہ میں ایک نئے دن کا آغاز ہو چکا تھا۔ نیا دن …… جو کہیں سے بھی نیا نہیں تھا …… وہی گھسا پٹا دن تھا۔ وہی زخم …… وہی تھکن …… وہی روح کو زخمی کر دینے والا دن۔ آوازوں کی تیز دھار کان میں گونج رہی تھی۔ قریب ہی ماما سلیمان کھانس رہا تھا۔ وقتاً فوقتاً اس پر کھانسی کا دورہ پڑ جاتا۔ ایک لمحے کو رک کر وہ کام چھوڑ دیتا۔ کھانس کھانس کر دوہرا ہو جاتا اور سنبھل کر پھر سے کوئلہ کاٹنے لگتا۔ عبداللہ خاموشی سے کام کر رہا تھا۔

”یار تم خوش ہو یہاں؟“ قریب کھڑے کوئلہ توڑتے ہوئے سجاد نے اس کی طرف دیکھے بغیر سوال کیا۔

”خوش؟“ اس نے حیرت سے قہقہہ لگایا۔

”اندھیرے سے اندھیرے تک ہم قبر کی یہ مزدوری کرتے ہیں جہاں حادثہ ہو جائے تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا۔ دوسروں کی تو انگلی بھی کٹ جائے تو شور مچ جاتا ہے۔ ہمارا بندہ مر جائے تو اس کے ساتھ ساتھ اس کی بیوی، اس کے بچے اس کا پورا خاندان مر جاتا ہے۔ کوئی ہمارا پرسانِ حال نہیں۔ جانوروں کی سی اس زندگی میں، میں خوش ہوں؟“ عبداللہ نے کسی قدر سخت لہجے میں جواب دیا۔

”تمھیں پتہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ ہماری کوئی یونین نہیں۔ ہم ذاتی جھگڑوں کی وجہ سے اکٹھے نہیں ہو پائے۔ ہم یونین بنائیں گے تو اپنی ڈیمانڈز رکھیں گے مینیجر کے سامنے، مالک کے سامنے۔“ سجاد سرگوشی میں بول رہا تھا۔

مینیجر نے انھیں باتیں کر کے چیخ کر منع کیا تو دونوں چپ ہو گئے اور ایک دوسرے سے دور کھسک کر کام کرنے لگے۔

شام تک کام کرتے ہوئے عبداللہ سجاد کی باتوں کو سوچتا رہا۔ مغرب کے بعد مزدور سطحِ زمین پر نظر آنے لگے۔ عبداللہ غیرمرئی انداز میں سجاد کی طرف بڑھا۔ دونوں باتیں کرتے کرتے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے باہر آئے۔ سورج کی گرم شعاعیں کوئلے کے کان اور وہاں موجود ہر چیز پر پڑ رہی تھیں۔ دور تک پڑا کوئلہ سورج کی ان شعاعوں میں چمک رہا تھا۔ پسینے میں شرابور مزدوروں کے چہرے کالی دھول سے اٹے ہوئے تھے۔

تھکن سے چور یہ مزدور کان کے پاس کھڑے ٹرکوں کو کوئلے سے لوڈ کر رہے تھے۔ لوڈ ہو جانے والے ٹرکوں کے انجن اک چیخ کی مانند سٹارٹ ہو کر کان سے دور ہوتے جا رہے تھے۔ بیلچے زمین سے جب رگڑ کھاتے تو ایک عجیب ناگوار آواز پیدا ہو رہی تھی۔

شیر باچا کاکا بھی ٹرک لوڈ کر رہا تھا۔

”کاکا کام ختم نہیں ہوا کیا ابھی تک؟ طبیعت کا کیا حال ہے؟“ عبداللہ نے سلام کے بعد پوچھا۔

”طبعیت بس گزارا ہے۔ مزدور کا کام کب ختم ہوتا ہے عبداللہ یارا …… بس یہ ٹرک لوڈ کر کے جاتا ہوں۔“ یہ کہتے کہتے شیر کاکا لمبی لمبی سانسیں لیتا ہوا بیٹھ گیا۔ عبداللہ جانے کس کو گالی دیتے ہوئے کاکا کو سہارا دینے لگا۔ شیر کاکا پچھلے کتنے عرصے سے دمے کا مریض تھا۔ کام کرتے کرتے اس کی سانسیں اکھڑ جاتیں۔ حالت اس قدر خراب ہو جاتی کہ جان کے لالے پڑ جاتے۔

کاکا کو سہارا دے کر اس کے گھر تک پہنچا کر اس نے اپنے گھر کی راہ لی۔ جاتے وقت سجاد نے کہا شام کو مسجد میں ملنا اگر چاہو تو۔ وہ جواب دیے بغیر گلی کی طرف مڑ گیا۔ کھلی نالیوں سے گندا پانی ابل ابل کر چاروں طرف پھیل رہا تھا۔ مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور بدب±و کا راج تھا۔ تھوڑے ہی فاصلے پر ادھ ننگے بچے بہتی ناکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ دائیں طرف کی گلی سے اچانک ایک کتا نکل آیا اور شڑاپ شڑاپ کرتا نالی کا پانی پینے لگا۔ روز کا یہ معمول تھا لیکن آج یہ سب دیکھ کر نہ جانے کیوں عبداللہ کو متلی ہوئی۔ عجیب سا گھٹن کا احساس ہونے لگا۔ ایسا جیسے وہ یہ پہلی بار دیکھ رہا ہو۔ منہ پر ہاتھ رکھ کر اس نے الٹی روکنے کی کوشش میں گلی کی طرف دوڑ لگا دی۔ اسے ہر چیز سے گھن آ رہی تھی۔

کچھ سوچ کر شام کو عبداللہ مسجد کی طرف چلا گیا۔ نماز ہو چکی تھی۔ اِکا دکا نمازی جگہ جگہ بیٹھے تھے۔ سجاد بھی برآمدے کے پاس صحن میں بیٹھا تھا۔ وہ چپکے سے جا کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔

”تم اس دن کسی یونین کا ذکر کر رہے تھے۔ اگر ہم یونین بنانے میں کامیاب ہو بھی گئے اور مطالبات لے کر مالک کے پاس چلے بھی گئے تو وہ ہماری بات کیوں مانے گا؟ مینیجر ہماری بات کیوں سنے گا؟“ اس نے بیٹھتے ساتھ کہا۔

”کام سلو کر کے …… کام روک کر …… کام چھوڑ کر …… ہم سب ایک سی تکلیف میں ہیں۔ اگر ہم منظم ہو جائیں، ایک آواز بن جائیں تو مالک کو ہماری بات سننی پڑے گی۔ ہم اس کے لیے سونے کی چڑیا ہیں۔ ہم سے ہاتھ دھو بیٹھنے میں اس کی تباہی ہے۔“ سجاد نے اسے سمجھایا۔

٭٭٭

وقت گزرتا رہا۔ وہ اپنے ہم خیال بناتے رہے اور پھر یہ ہوا کہ وہ پانچ بندوں کی ایک کمیٹی بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ جس نے آہستہ آہستہ یونین کی شکل اختیار کر لی۔انھوں نے مل کر مزدوروں کے مطالبات ترتیب دیے۔

مزدور بہت خوش تھے۔ اس دن ان کی پہلی ہڑتال تھی۔ دن چڑھ گیا تھا لیکن کسی مزدور نے کان کا رخ نہیں کیا۔ پچھلے پچیس سالوں میں ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ کان کے پرلی جانب سے آوازیں آ رہی تھیں۔ منیجر چلتے چلتے چٹان پر پہنچا۔ پہاڑ کے دامن میں تمام مزدور جمع تھے اور عبداللہ بڑے جوش و خروش سے اپنے مطالبات بتا رہا تھا۔ ”مزدوروں کے اپنے حقوق ہوتے ہیں جو ساری دنیا میں دیے جاتے ہیں لیکن ہمیں تو مزدور بھی نہیں سمجھا جاتا۔ ہم جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں“ عبداللہ کی آواز جوش سے لرز رہی تھی۔

٭٭٭

ادھیڑ عمر مینیجر اپنے چھوٹے سے بے ترتیب دفتر میں ڈیسک کے پیچھے بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے چند کرسیاں رکھی تھیں۔ ایک طرف دیوار پر کوئلہ کان اور مزدوروں کی تصویریں لگی تھیں جبکہ بائیں طرف والی دیوار پر مزدوروں کے بچاو¿ کے لیے حفاظتی پوائنٹس لکھے تھے۔

کان مالک ہیبت خان کمرے میں تیز تیز قدموں سے واک کر رہا تھا۔ ایک دم رک کر دبی ہوئی آواز میں پریشانی سے چیخا، "مجھے بالکل گوارا نہیں یہ جو مزدور بڑا سمارٹ بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔”

"آپ مجھ پر چھوڑ دو صاب۔ سب سنبھال لوں گا میں” مینیجر نے بڑے سکون سے اس سے کہا تو مالک جو پھر سے واک کرنے لگا تھا ایک دم سے مڑ کر اسے غور سے دیکھا جیسے جو اس نے کہا اس کی تصدیق چاہ رہا ہو۔

"کیا کر لوگے تم؟” اور پھر یکدم خونخوار لہجے میں کہنے لگا، "مجھے اور کچھ پتہ نہیں بس یونین نہیں بننی چاہیے۔”

"میرے پاس ایسے لوگوں کو ٹھیک کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ تھوڑا سا نقصان ہو گا لیکن بہت کچھ پانے کے لیے تھوڑا بہت کھونا تو پڑتا ہے۔” مینیجر نے شاطرانہ مسکراہٹ کے ساتھ مونچھ کو تائو دیتے ہوئے کہا تو مالک یوں مطمئن ہو گیا جیسے واقعی اسے یقین ہو گیا کہ مینجر اس فتنے پر قابو پا ہی لے گا۔

٭٭٭

مزدوروں کا منظم ہونا، یونین بننا اور پہلی ہڑتال نے مزدوروں میں ایک جوش خروش پیدا کر دیا۔ ایک نئی امید کے ساتھ انھوں نے دن کا آغاز کیا۔ کوئلہ کھودتے ہوئے ساڑھے تین ہزار فٹ کی گہرائی تک چلے گئے تھے۔ اچانک زمین ہلنا شروع ہوئی۔ دیواروں سے عجیب سی آوازیں آنے لگیں۔ عبداللہ نے تیزی سے رسی چار بار کھینچی۔ گھنٹی کی آواز ہوا کو چیرتی ہوئی دور تک چلتی چلی گئی لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ رحیم اور بہت سے دوسرے کان کن دب گئے …… ان کی چیخیں ملبے تلے دفن ہو کر خاموش ہو گئیں۔

دھول بیٹھی۔ عبداللہ گھسٹتے ہوئے چیختے خداجانے کیسے بڑی مشکل سے باہر آیا۔ وہ بس اتنا کہہ سکا ”یہ یونین کو ختم کرنے کی سازش ہے“ اور بے ہوش ہو گیا۔

 

الارمنگ بَیل کی آواز ابھی تک فضا میں گونج رہی تھی!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے