عاطف توقیر کے مجموعے ”رد “ نے مجھے فکر و سرخوشی کی اسی فضا میں پہنچادیا جو منفرد بھی ہے اور انبساط انگیز۔اس مجموعے میں ”اضافیت“، ”لا“اور ”رد“کے تحت لکھی نظمیں اپنے مطالعے سرسری گزرنے نہیں دیتی۔یہ روکتی ہیں۔سوچنے پر اکساتی ہیں۔فکر واحساس کو مرتعش کرتی ہیں اور یہ نتیجہ دیتی ہیں کہ سوال کا جواب بھی سوال ہے۔۔

فنون و ادب کی وسعتوں میں کائنات وذات کی اتنی جہتیں ہیں جنہیں دیکھنے کے لئے نری داخلیت اور ظاہر بینی کے طے شدہ مراحل سے جانا پڑتا ہے۔

انسانی شعور کو ، تجربات ، مشاہدات ،اداراک اور موجود علوم سے آگہی کشید کرنے کے لئے ”رد “ کے مرحلے سے گزرنا پڑتاہے۔پھر تخلیقی اظہارمیں ان وسعتوں کی جھلک نظر آتی ہے جو کائنات کی وسعت سے کسی حد تک ہم آہنگ ہوتی ہے۔آگہی کا یہ مرحلہ شعور سفر و ارتقا کو ادب کے وسیلے سے ابلاغ سے ہم کنار کرتا ہے۔

عاطف توقیر کی نظموں سے میری اپنی فکر کو مہمیز ملی تو میں نے ان سے کچھ سوالات کیے۔

”نظریہ اضافیت کو کتنا پڑھا ہے ‘’؟

”فزکس سے کتنی دلچسپی ہے “؟

”رد کرنے کی جرات کیسے پیدا کی “؟

”لا کی قوت سے کس حد تک واقف ہو؟“

غالب کی طرح دشت امکاں میں بھٹکنا اور کہنا:

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

پھر اس شعر کو ظاہر بینی سے رد کردینا، لا میں معدوم ہونے سے محروم ہوجانا ، رد کے راستے سے گریز کرنا اس کا کتنا شعور ہے۔

”تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خواہ ہوتا“

مجھے خوشی ہوئی کہ عاطف توقیر کو پورا ادراک ہے کہ وہ جو لکھ رہے ہیں وہی لکھنا چاہتے ہیں۔ان کا مطالعہ ،مشاہدہ ، تجربات ،طرز زندگی واحساسات اور شاعری میں تضادات نہیں۔ان کی یہی سچائی ان کی تخلیقی قوت ہے اور انفرادی تشخص میں معاون رہی ہے۔یہ سچائی ہی دراصل اظہار میں کشش ثقل جیسی نادیدہ قوت پیدا کرتی ہے۔

رد، لا ،کی تفہیم اور غور و فکر کے بغیر ممکن نہیں۔

وجود عشق کا کوئی سرا ملا ؟ نہیں ملا

خودی ملی ، نہیں ملی ، خدا ملا؟ نہیں ملا

یہ عہد رد کا عہد تھا سو رسم مسترد ہوئی

مسیح وقت دار پر کھڑا ملا؟ نہیں ملا

اپنے عہد میں موجود ہوکر سوال اٹھانا اور عصری سچائی تک رسائی کے لئے جو وژن چاہیے ان اشعار میں ان کی موجودگی دیکھی جاسکتی ہے۔آج نظریات کو رد کرنے کرنے پر جیل میں نہیں ڈالا جا تا نہ دار پر چڑھایا جاتاہے نہ ہی زہر پلایا جاتاہے۔پچھلے نظریوں سے نکال کر ، اگلی فکر کی راہ پر پرواز کی لا متناہی اور متعدد راہیں کھول دی جاتی ہیں۔بیسویں صدی میں آئین سٹائین نے زمان و مکان وقت

اور رفتار کے نئے نظریات متعارف کروائے جن کو مخصوص اضافیت (Motion) کا عنوان دیا گیا۔

اس تھیوری نے اسپیس او ٹائم کے چند نہایت اہم اور معتبر ترین مفروضات ونظریات کو چیلنج کیا۔یہ نظریہ خلاءوقت ،ذرات، روشنی کی رفتار سے بحث کرتاہے۔

انسان جو کائنات میں تنہا اتاردیا گیا وہ ازل سے کائنات کے راز اور اپنے وجود کے جواز میں الجھا ہوا ہے۔ سوالات اٹھارہا ہے جوابات تلاش تلاش کررہاہے۔ صحیفے ، کتابیں ،تمام علوم اسے مطمئن کرنے سے قاصر ہیں۔ عاطف توقیر کی نظم ’اضافیت‘ میں انہی سوالات کی مضبوط بازگشت ہے۔

شعری محاسن کو برقرار رکھتے ہوئے پوری تفہیم کے ساتھ مشکل موضوع کو نظم کا حصہ بنادینا انکا کمال ہے۔یہ پوری نظم جو بہت طویل بھی نہیں ایک ایسا کوزہ ہے جس میں فکر و نظریے کا سمندر سمیٹ لیا گیا ہے اور لہریں انہی احساس کی رو میں موجب ہے۔ نظم سنیے۔

اضافیت

یہ وقت کیا ہے ؟

اضافیت ہے

کہ جیسے گردش کی لمحہ لمحہ نگوں سری کو سفر سمجھنا

کہ جیسے معکوس زاویوں کو سفیر گشتِ صحیح سمجھنا

یہ دائرہ وار گردشوں کے نقاد مخفی کو دیکھ لینے

کے ایک دعوے سے بڑھ کے کیا ہے ؟

ہم اک گذ شتہ سے حال

اور پھر آئندہ ہوتے ہیں

یا کھڑے ہیں ؟

زماں مکاں کی ہر ایک تفہیم بخیہ بخیہ ا±دھڑ رہی ہے

کہ چار سمتوں کے اس تعاون کے بیچ بھی تو ہزار سمتوں کا جال سا ہے

ہر اک یقیں کو کسی حوالے ، کسی تصور ،کسی گماں

سے ہی نسبتیں ہیں

ہر ایک حرکت ہر اک سکونت

تضاد ہو کر بھی منسلک ہیں

سکون کیا ہے؟

خود اپنے معنی میں دائرہ ہے

سکوت کیا ہے ؟

اضافیت ہے

سواس کی پیمائشوں کو پھر شور کی ضرورت

(یہاں یہ پیمائش حوالہ، یہاں ضرورت بھی اک حوالہ )

حقیتوں کے سمندروں کا ہر ایک قطرہ ہزار امکاں لیے ہوئے ہے

ہر ایک امکان اضافیت ہے

شعورِ انساں اضافیت ہے

وجود وجداں اضافیت ہے

خدا حوالہ ہے یا حقیقت

اگر حقیقت ہے توحوالہ خلائیں کیسے ؟

اگر حوالہ ہے تو حقیقت سوال کیوں ہے ؟

یہ کائناتوں کو نوری سالوں سے ناپ لینے کی سعی ہے

تجاذبِ بے کراں کی وسعت

ستارہ انتہا سے لے کروجود بے انتہاکی سرحد عبور کرنا

خداکشی ہے یا خود کشی ہے

یہ سب سراسر اضافیت ہے

ہر اک پیمبر اضافیت ہے

لہب کا بستر اضافیت ہے

تمام منظر اضافیت ہے

”لا” اور ”رد” اسی فکر کی وہ جہتیں ہیں جو سوالات اٹھانے اور جوابات تک پہنچنے کی سعی سے پیداہوئی ہیں۔

لا نفی ہے ان تسلیم شدہ نظریات و مفروضات کی جو نئی جہت تک رسائی میں حائل ہیں۔

اپنی ذات کو معدوم کرکے کائنات کے ہونے کا ادراک۔صفر سے محدود کا سفر۔ اضافیت ایک ہندسویں نظریہ ہے۔کلمہ لا سے شروع ہوتا ہے۔باب علم نے خود کو نقطہ ہاکہا ہے۔علم انسان کو جس راہ ڈالتاہے اس سفر میں ایک جہت پر معتدد راہیں کھلتی ہیں۔۔

کہاں تک جاسکتی ہیں ؟ یہ سوال ہے۔نظم لا سے یہ لائنیں سنیے۔

میں اس معدومیت کی راہ پر

خود اپنے ہونے یا نہ ہونے کی بحث میں مبتلا ہوں

گھل رہا ہوں

پر قسم گردش کے محور کی

قسم موجود اور موجود گیت کی

(وہی موجود ،جو خود میں خلا ہے اور وہی موجود گیت جو بظاہر ہے ، مگر ہوکر بھی کیا ہے )

اس عدد ، اعداد کی دنیا میں

سارا کھیل گنتی ہے

یا یوں سمجھو

ہمیں لگتاہے

سارا کھیل گنتی ہے

 

آگے کہتے ہیں

 

کہ یک دوتین سے

نہ ختم ہوتے

اک تسلسل کے خلا میں

صبح و شام و شب کے

بے ہنگم

مگر ہم وار قصے میں

نہ کچھ موجود

نہ موجود گیت ہے

فقط گنتی ہے

اور گنتی نفی ہے

 

پر نفی کیا ہے ؟

نفی موجود گیت کا پتا ہے

اور وجود

اس بے یقینی میں

خلا ہے

اک فنا ہے

اک خدا ہے

اور کیا ہے

ایسی فکر انگیز اچھی نظمیں لکھنے والے نے اچھی غزلیں بھی لکھی ہیں :

اک گماں سا تری خوشی کا رہا

تجھ سے بچھڑا تو کب کسی کا رہا

تو کسی اور زندگی کی رہی

میں کسی اور زندگی کا رہا

اور

اس قدر ٹوٹ کے ملا ہے کوئی

جیسے مجھ سے بچھڑا رہاہے کوئی

آج بھی چاہتوں کی آنکھوں سے

قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے کوئی

میرے آنگن میں کیسی خوشبوہے

جیسے اٹھ کرابھی گیا ہے کوئی

عاطف توقیر کی شاعری میں رد بھی علم وآگہی کے ساتھ ہے اور فکر بھی بے دانش نہیں۔ان کی شخصیت اور شاعری میں فکر وعمل کی ہم آہنگی ہے۔یہ ہم آہنگی تجربات، مطالعے اور اظہار پر قدرت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔”رد “ کی قبولیت سے انکار ممکن نہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے