قتل ہوتا ہوں ماں کے ہاتھوں سے

کس ریاست کا میں ہوں باشندہ

کہ ریاکار وحشتیں ہر سو

زندگی نوچ نوچ کھاتی ہیں

مفلسی بھوک بے بسی جیسے

خوان ِ نعمت مجھی پہ اترے ہیں

میری محنت کی بے ثمر شاخیں

میرے ہاتھوں کو جب جلاتی ہیں

مٹی پائوں پکڑ کے روتی ہے

روز و شب کی یہی کہانی ہے

خواب سہمے ہوئے ہیں آنکھوں میں

کوئی آنسو کشید کیا ہو گا

زہر آلود ہے فضا ساری

سب نے اوڑھی ہوئی ہے تنہائی

ہجر کا بےکراں زمانہ ہے

رنج کوئی مزید کیا ہو گا

جسم و جاں میں فساد برپا ہے

نظم تخلیق ہو نہیں پاتی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے