کئی دنوں سے یوسف اور جمیل مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔پابندی کے باعث ملحق کمروں میں اکیلے رہتے تھے۔ایک دوسرے کے کمرے میں آنے جانے کی بھی ممانعت تھی۔محافظ یوں تو اچھے تھے۔کبھی نظر نہ ڈالتے بچھے جاتے۔مگر ان لڑکوں کا رواجی قانون سے ٹکراو¿ ہوتا تو بید مارنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔بوڑھے باغ نے بتایا تھا کہ جب لڑکوں کی مسیں بھیگتی تو بھوتار ترس کھا کر ان لڑکوں کو انہی شہروں میں پھنکوا دیتا۔جہاں سے بچپن میں انہیں کارندوں کے ذریعے اٹھایا گیا تھا۔کوئی لڑکا بھیانک STD بیماری سے مرتا تو اسے پہلو میں بہتی ندی میں پتھروں سے باندھ کر رات میں پھینک آتے۔بھوتار رحم دل ہوا کرتے۔ان بچوں کے لاڈ لگاتے سینوں پہ پالتے۔رونے بھی نہ دیتے وعدہ کرتے کہ کل ہی ماں باپ کے حوالے کر آئیں گے،وعدے دنوں ہفتوں مہینوں سے گزرتے سالوں پہ جا نکلتے۔اسی دوران بھنگ و دیگر مسکرات سے ان کے سوچنے سمجھنے،احساسات محسوسات کم کرتے چلے جاتے۔ رفتہ رفتہ پرندے قفس میں پھڑ پھڑانا ہی چھوڑ دیتے۔دونوں بھی کم و بیش ایک ہی دور میں لائے گئے تھے۔اغواءکنندہ مال پکڑ کر نکل لیے۔کچھ ایجنٹ بچیاں کھوجتے پھرتے تو کچھ بچے خوبصورت چہرے ان کی اولین پسند ہوا کرتی۔ایسے لڑکوں کو ماہرین کے سپرد کردیا جاتا۔بال بڑھا کر کندھوں تک لے آتے۔ڈانس ماسٹر انہیں نرت بھاو¿ بتاتا۔گھنگھروں کا استعمال،تھاپ پہ پاو¿ں جمانا ایڑی کا استعمال۔سریلی موسیقی میں گیت کی لے پر جذبات جسم سے بیان کرنا۔بھاو¿، انداز راگنی کا روپ سروپ، ناچ، رقص، موسیقی کے تال اور گت کے مطابق جسم کو ڈھالنا بل کھاتی لہریں بنا دینا۔رقص میں تو بھارت ناٹیم،کتھا کلی جیسے مشکل اسباق ہوا کرتے جبکہ ناچ بالکل ہی غیر رسمی اور آزاد ہوا کرتا۔دوپہر تک موسیقار اور ڈانس ماسٹر ان لڑکوں پہ محنت کر کے ان کے جسموں کو راگنیوں میں ڈھالتے چلے جاتے۔پھر دوپہر کا وقفہ سہ پہر سے مغرب تک آرام۔رات کی محفل کے لیے انہیں تیار کیا جاتا۔دیگر بھوتار بھی اپنے رقاص لے آتے،پھر محفل جمتی راجہ اندر کا اکھاڑہ سج جاتا۔حافظ و خیام کے پیمانے گردش کرتے۔محفل تو کیا پوری حویلی ہی وجد میں آکر مستانہ وار جھوم اٹھتی۔صرف مسلح سیکورٹی گارڈ ہی چاق و چوبند ہوشیار اور مستعد ہوتے۔ان کی آنکھیں مسلسل گردش کرتیں۔ایک لمحہ کے لیے بھی آنکھ نہ جھپکتے۔منجمد زندگی میں ڈوبتے ابھرتے حسین بچوں سے انہیں نہ تو کوئی ہمدردی تھی اور نہ ہی کوئی دلچسپی۔ کون آیا کون گیا۔کسے آزادی بخشی کسے اسیر کیا۔انہیں قطعاً دلچسپی نہ تھی۔بس اپنے حلوے مانڈے سے کام تھا،بچوں کا کرب،تڑپنا،رونا بلبلانا اندر ہی اندر گھاو¿ ٹوٹنے، تڑپنے،تڑخنے، لوٹ پوٹ، جان بلب، سانسیں جیسے صحراو¿ں میں Weathering کے عمل سے چٹانیں سکڑتی پھیلتی تڑختی ریزہ ریزہ ہوتی جاتی ہیں۔کسی کو بھی ان سے ہمدردی نہ ہوتی۔رخساروں پہ پڑنے والے لگڑ بگڑ کے دانت جسم کے گھاو¿ درست کرنے کا ایک Quack نے ٹھیکہ لے رکھا تھا۔کریم گولیاں انجیکشن لگا لگا کر وہ جسم سوئی میں پروتا رہتا۔جب مریض کے زخم مندمل ہوتے گھاو¿ بھرتے تو اسے خالی ہاتھ Arena میں دھکیل دیا جاتا۔مرنے والوں کو غائب کرنے والی پہلو میں بہتی گونگی منہ میٹھی ندی تھی۔گھنے درختوں میں چھپی پر اسرار سی۔بھوتار کہتے۔
”خواجہ خضر کی نیاز دے آو¿ “
تو محافظ سمجھ جاتے کہ لڑکا لاعلاج ہے۔چند روز کا ہی مہمان ہے۔تفریح کے لیے نئے ڈنڈوت کی ضرورت رہتی۔کون بیٹھ کر سانسیں گنتا رہے۔وہ اسے فراخدلی سے شربت طور پلا کر اسکے جسم سے وزنی پتھر باندھتے اور رات کے اندھیرے میں ندی کے سپرد کر آتے۔بھوتار کو مچھلیوں کی بھی فکر رہتی کہ جس کے باعث خواجہ خضر کی نیاز دیا کرتا۔جمعرات کو صدقہ خیرات دینے کے بعد ایک بوری چاول نوچندی جمعرات کی نیاز اپنے ہاتھوں اچھال اچھال کر خود ندی میں پھینکا کرتا۔نوچندی جمعرات کی نیاز میں علاقے کا مودب تھانیدار بھی حاضر ہوتا۔جس کے باعث چاولوں پہ ٹوٹ پڑنے والے بھوتار سے خائف رہتے کہ تھانیدار ہی سر بسجود ہے تو وہ کس قدر طاقتور رہا ہوگا۔اس کے اوطاق پہ یہ بڑا سا قومی جھنڈا لہراتا۔جسے ہر برس چودہ اگست کو بڑے ہی اہتمام سے تبدیل کیا جاتا۔بڑی دھوم دھام میں سیکڑ کمانڈر بھی یوم آزادی کی تقریب کا وقار بڑھاتا۔بھوتار کی حب الوطنی کی داد دیتا۔
یوسف اور جمیل کا حکم چلتا ۔غلام ہوتے ہوئے بھی بھوتار کی آنکھ کے تارے تھے۔انہیں خوش رکھنے کے جتن کیے جاتے ۔بھوتار تو خود بھی ان کے بندہ بے دام ہوتے۔ایسے رقاص لڑکے بعض اوقات دوستوں کے پاس ایک دو روز کیلئے بطور تحفہ بھجوائے جاتے۔یہ سخت آزمائش کے دن ہوتے۔جب کھانے کی بجائے انہیں صرف ملائی دی جاتی تو وہ جان لیتے کہ کہیں جانا ہے۔میزبان بجاتے اور وہ رقص کرتے،Stratigraphy کے باعث چلنے پھرنے سے بھی رہ جاتے تو Venereal Diseases کے Quack کو بلایا جاتا جو چاہے کام ہو نہ ہو ماہانہ تنخواہ لیتا۔اپنی خود ساختہ دوائیوں کا پٹارہ کھول بیٹھتا۔یہ سب کچھ جانے کن صدیوں سے ایک مربوط نظام کے تحت چل رہا تھا۔ایچ آئی وی یا سفلس کی علامتیں ہوتیں تو اسے چلتا کرتے۔بھوتار رحم دل بھی ہوا کرتے۔سسک سسک کر ایڑیاں رگڑتے دلدوز چیخیں مارتے قطرہ قطرہ مرنے کی بجائے شربت نور فراخدلی سے اس کے حلق میں انڈیل کر مچھلیوں کی خوراک بنا دیتے مچھلیاں بھی انسان ہیں۔ان کا بھی حق ہے۔یوسف اور جمیل کی مسیں بھیگنے لگیں تو طبلہ نواز رحیم نے مشورہ دیا کہ موچنے سے بال چن چن کر نکال لیا کریں۔ورنہ تو ایک روز انہیں ہی نکال دیا جاتا۔
یوسف اور جمیل دونوں ہی خوفزدہ تھے کہ انہیں نکال دیا جائے گا تو جائیں گے کہاں؟ انہیں تو اپنا نام بھی نہیں آتا۔انہوں نے Quack سے التجا کی کہ نمودار ہونے والے بالوں کو غائب کرنے کی دوا لادے تو وہ اس پہ نچھاور ہو جائیں گے۔وہ بھی ایک موچنا اور کریم لیتا آیا۔
” یہ کریم بال غائب کر دیں گے۔مگر روک نہیں سکیں گے “
اس نے انعام کے لالچ میں بھوتار سے غداری کی جسکی سزا بھیانک ہوتی۔مگر ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی طرح ان کے بال قابو میں نہیں آ رہے تھے۔وہاں بھی سر نکالنے لگے جہاں کبھی تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔بال بھی رزق کی طرح جہاں چاہے برستے ہیں۔گنجوں کی ٹانٹ پہ نمودار نہیں ہوتے۔انہیں تو اپنا نام بھی یاد نہ تھا۔شہر کی تو بات ہی دور کی رہی۔مگر بھوتار رحم دل تھا۔اس نے دونوں کو وطن کے کسی شہر میں پھینکنے کی بجائے سوچا کہ وہ انہیں مڈل ایسٹ بھجوا دے گا۔نہ پڑھے لکھے اور نہ ہی کبھی باہر نکلے کمروں میں رقص کے پنڈال Podium یا اسٹیج پر میدان کار زار میں بستروں میں نرت بھاو¿ دکھاتے وہ کسی کام کے قابل بھی نہ تھے۔وہ پوری دنیا کو ہی ایک بڑا ناچ گھر سمجھتے تھے جہاں مہا بھوتار لونڈے نچاتا۔دلربائی کے دن گئے پہلے تو ان کی نیل پالش،لپ اسٹک پر پابندی لگی۔گیسو تراش کر نوجوانوں کی صورت دی۔ان کی اہمیت بھی زمین پہ آ رہی۔ان کے کمروں میں نئے لڑکے آگئے۔پھر ان کی تصویریں بنوائیں گئیں۔جانے کہاں سے ایجنٹ بلوائے گئے جو نوجوانوں کو مڈل ایسٹ میں کام دلواتے تھے۔ایک ڈاکٹر ان کے ہمراہ تھا۔ان کے خون کے نمونے اور ٹیسٹ لیے۔پھر ایک روز اطلاع آئی کہ میڈیکلی بھی پاس ہو گئے ہیں۔چند ہی روز میں ویزے لگے پاسپورٹ بھی آگئے۔بھوتار نئے رقاص لڑکوں کے ساتھ مصروف رہتا۔اب اس سے ملاقات کے لیے بار بار کہنے سے ہی مختصر سا وقت ملتا۔اس ملک خدا داد سے نکل جانا ہی جو شربت نور سے ٹن رقاصوں کے خواب کی تعبیر تھا۔سارے ہی بھوتار انٹا غفیل امریکی صدر کو لبھاتے تھرکتے مٹکتے۔انکل سام کو سجدے کیے جاتے۔باقی رہے نہ کوئی جگہ سوت کے لیے۔رنڈی سبھا میں آتی ہے ڈنڈوت کے لیے۔ان کے لیے تو ساری دنیا ہی اجنبی اور بیگانہ تھی۔ایک سوال جو بار بار ان کے ذہن میں ابھرتا کہ وہاں کیا کام کریں گے۔ایک پرسکون پرتعیش زندگی گزاری ہے شہزادیوں جیسی۔لکھے پڑھے بھی نہ تھے کیسے کھائیں کمائیں گے؟ ان کا خوف ان کی تشویش بھی بھوتار نے ہی دور کر دی کہ بہترین ایئر کنڈیشن ماحول میں انہیں کمپیوٹر سکھایا جائے گا۔وہ کمپیوٹر پر کام کریں گے۔اچھا فلیٹ اچھی تنخواہ وہاں کسی من پسند لڑکی سے شادی کرلیں۔خوبصورت بھی ہیں۔تارکین وطن تو خود ہی آنکھوں پہ بٹھائیں گے کہ ان کی بہن بیٹی سے شادی کر لیں۔
شربت طور پینے کی انہیں عادت پڑی تھی۔جب سے ہوش سنبھالا اسی پہ جیئے جاتے ہیں۔ورنہ تو رات بھر کروٹیں بدلتے،خواب نہ آتے،دن میں بھی نامعلوم اندیشے اور خوف گھیرے رہتے۔لیکن ایجنٹوں کے کہنے پہ اس کی مقدار کم کی جا رہی تھی۔کیونکہ وہاں پتہ چلتا تو نوکری بھی نہ ملتی۔بڑی ہی کسلمندی ہوتی۔جسم ٹوٹنے لگتا۔غصے کے دور پڑتے۔مگر شربت نور رفتہ رفتہ کم کیا جا رہا تھا۔شام میں محافظوں کے ساتھ حویلی کے باغ میں چہل قدمی کرتے تاکہ صحت اچھی رہے۔
رقص و سرود کی محفلوں میں بھی انکا داخلہ بند ہو چکا تھا۔اہمیت کب کی ختم ہو چکی تھی۔ زندگی بڑی ہی بے رنگ سی ہو چکی تھی خدام کے رویے بھی بدلے بدلے تھے۔بھوتار نے نظریں پھیر لیں تو وہ بھی تو تڑاق سے بات کرنے لگے۔ایجنٹ اگلے ماہ پھر آئے ان کا جسمانی معائنہ کیا خون کے نمونے بھی لیے اور سختی سے منع کیا کہ شربت نور روک دیا جائے۔ایسے میں بھوتار نے ان کا ساتھ دیا۔کہ بچپن سے پیتے چلے آئے ہیں۔اتنی جلدی کیسے چھوڑ دیں۔جبکہ ایجنٹ اصرار کرتے کہ دونوں کی مارکیٹ گر جائے گی۔عجب سی کشمکش کے دن تھے۔
ایک روز موقعہ پاکر باغ ان کے پاس چلا آیا۔اس نے زندگی اسی حویلی میں گزاری تھی۔وہ بھی کبھی اغوائ ہوا تھا۔رقاص رہا۔تفریح کا سامان مہیا کرتے چمن پھاٹک بن گیا تو وہ بڑے ہی کمال کا طبلہ نواز بن گیا تھا۔اس نے ہاتھ جوڑے تھے کہ وہ طبلچی ہے۔اسے حویلی میں ہی خدمت کیلئے رہنے دیا جائے۔اسکی قسمت اچھی تھی کہ اسکی التجاو¿ں پہ بڑے بھوتار کا دل پسیج گیا۔اسے حویلی میں ہی رہنے دیا۔وقت کے ساتھ اسکے بال سفید ہوتے چلے مگر طبلہ بجانے کی مہارت میں کمی نہ آئی اسکی انگلیاں بجلی کی طرح یوں تھرکتیں کہ محفل وجد میں آتی مبہوت ہو جاتی۔باغ کو دیکھ کر انہیں طمانیت سی محسوس ہوئی۔ اس عام سے کمرے میں وہ دن بھر اکیلے ہی پڑے کروٹیں لیتے۔یہ کمرہ ملازمین کے حصہ میں تھا۔باغ نے انہیں اشارے سے بلایا۔بہت دنوں بعد ایسا اشارہ ہوا تھا۔وہ دم سادھے باغ سے آ لگے،باغ نے اطمینان کر لینے کے بعد کہ کسی سن گن تو نہیں لے رہا انہیں بتایا کہ بھوتار نے ان کا سودا کر لیا ہے۔مڈل ایسٹ میں ان کے قیمتی اعضاء نکال لیے جائیں گے۔باغ نے ان کی آنکھوں میں بے اعتباری دیکھ کر سرزنش کی ” وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔صرف دل اور گردے دس کروڑ سے اوپر بکتے ہیں۔تم دونوں پچاس کروڑ کا مال ہو “
یوسف اور جمیل سرد پڑ گئے” وہ کیا کریں گے ہمارا دل “ باغ نے ادھر ادھر نظر دوڑائی ” امیر لوگ آپریشن سے بیمار دل نکلوا کر نیا فٹ کرتے ہیں سو سال اور جیتے ہیں “ دونوں زرد پڑ گئے تھے ان کی آنکھیں ملک الموت بلا چاپ آتے دیکھ رہے تھے۔ ” فکر نہ کرو میں تمہیں نکال کر بچا کر لے جاو¿ں گا “ انہیں روتا سسکیاں لیتا چھوڑ کر باغ کھسک گیا۔سیکورٹی گارڈز نے اسے لاپرواہی سے دیکھا۔چلے ہوئے بارہ بور کارتوس کی طرح بے کار تھا باغ ہلکی سی دستک دے کر جان کے کمرے میں داخل ہو گیا۔جان نماز عشاء میں محو تھا۔باغ ایک جانب دم سادھے بیٹھا رہا۔نماز ادا کر کے جان متوجہ ہوا ” آج کیسے چلے آئے؟ بھوتار کا کوئی پیغام لائے ہو “ باغ نے انکار میں سر ہلا کر ساری کہانی سنائی۔جان کو حیرت بھی ہوئی اور دکھ بھی۔
” مگر میں کیا کرسکتا ہوں “ وہ بے اعتنائی سے بولا۔جان نے صدری کی جیب سے ایک بوسیدہ اشتہار نکالا ” یوسف کا باپ ایک امیر آدمی ہے اس نے ریلوے سٹیشنوں بس اڈوں پر اشتہار لگوائے تھے۔کہ اسکے بیٹے حمید کو لانے والے کو بھاری انعام اور جائیداد دے گا۔پتہ بھی لکھا ہے۔تم اس غلامی سے بھی آزاد ہو جاو¿ گے۔امیر ہو کر بندوق اٹھائے پھرنے کی بجائے شادی کر کے ٹھاٹھ سے رہنا “ جان نے اشتہار پڑھ کر جیب میں ڈال لیا۔باغ مسلسل دباو¿ ڈال رہا تھا۔ارشاد ہے کہ ”جس نے ایک جان بچائی اس نے ساری انسانیت کو ہی بچا لیا “دو جانیں بچانے سے تمہاری بخشش ہو جائے گی۔میں جانتا ہوں تم نے اپنی عزت اور مظلوموں کے لیے قتل کیے اور بھوتار تمہیں پیرول پر رہا کرا لایا۔فرشتہ بن جاو¿ گے “
جان کسی گہری سوچ میں تھا ” فرشتہ پر اذیت نہیں ہوتی بھوک نہیں لگتی۔اس کے دل پر زخم نہیں لگتے۔مجھے انسان ہی بننے دو۔میں یہ کام کروں گا“
باغ نے خوشی سے جان کا ہاتھ دبایا۔ ” کل رات “
اگلی رات موسیقی کی لطافت شور میں ڈوب گئی۔حویلی میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔آگ بجھانے والوں میں باغ پیش پیش تھا۔
جان درختوں کے خفیہ راستے سے زیر زمین دروازہ کھول کر یوسف اور جمیل کو باہر لے آیا۔جہاں سے وہ مچھلیوں کے لیے ناقابل علاج رقاص مچھلیوں کے لیے پھینکا کرتے تھے۔باغ نے زندگی کی کمائی دے ڈالی تھی۔مین روڈ سے بس پکڑ کر بسیں بدلتے رات بھر سفر کرتے اگلے روز اس شہر کے قریب پہنچ گئے۔جان صرف نماز کا وقفہ لیا کرتا لڑکوں کو تندور سے روٹیاں اور پانی کی بوتلیں دلوا دی تھیں۔پکڑے جانے کے خوف سے وہ دور نکل جانا چاہتے تھے۔مغرب تک کالونی تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔یوسف کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔جان نے اسے اشتہار تھما دیا تھا۔” تم فرشتہ ہو جان میرا باپ تمہیں مالا مال کر دے گا“۔ مسرت سے یوسف کے آنسو بہہ رہے تھے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔مگر جان رک گیا۔” جاو¿ میں نے اپنا فرض پورا کر دیا۔میں فرشتہ نہیں انسان ہی رہنا چاہتا ہوں “ ۔
ان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود جان ان کے ساتھ نہ چلا بلکہ مسجد میں داخل ہوگیا۔انہیں وضو نماز کا علم نہ تھا۔ورنہ نماز عشاءمیں شریک ہوتے۔شادیانے بج اٹھے پوری کالونی دوڑی چلی آئی۔ ماں خوشی سے پاگل ہوگئی۔ایک دو بار اپنے ہاتھ پہ دانت گاڑ کر دیکھا کہ یہ کوئی خواب تو نہیں۔ان کے ہوش و حواس درست ہوئے وہ سارے معززین کو لے کر مسجد کی جانب لپکے۔نماز عشاءکب کی ہو چکی تھی۔نمازی گھروں کو جا چکے تھے۔مسجد خالی پڑی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے