بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ میں رکشوں کے پیچھے چے گویرا ، سگار اور سرخ ستارے والی چے گویرا کیپ کی تصویریں آپ کو بہت نظر آئیں گی ۔ اسی طرح لوکل بسوں اور سوزوکی کیریئرز پہ آپ کو یہ پینٹنگ بہت نظر آتی ہے ۔ گلی کی دیواروں پہ کسی بھی ناپختہ بچہ کے ہاتھوں ایک نہ پہچانے جاسکنے کی حد تک چے گویرا کی تصویر بنائی ملے گی ۔ فرق اب یہ پڑا ہے کہ رکشوں ، بسوں، سوزوکی کیریئرز اور گلی کی دیواروں پر اس کی تصویر کے نیچے انگلش میں Che Babaلکھا ہوگا۔ یہ تکریم کی بڑی اعلیٰ سٹیج ہے ۔
حیرت ہوتی ہے کہ دور دوسرے براعظم کا ہیرو بلوچستان میں کیسے مقبولیت پاگیا۔ لاطینی امریکہ سے بلوچستان کا کبھی بھی واسطہ نہ رہا ، نہ تجارتی ، نہ جنگی اور نہ ہی کوئی مشترک تاریخی بات۔ تو پھر یہ کیا معمہ ہے کہ عام محنت کش لوگ اسے پسند کرتے ہیں اور اپنے رکشوں ، سا ئیکلوں اور موٹر سائیکلوں پہ سگار بردار دلکش گویرا کی تصویر لگائے رہتے ہیں ۔ پوچھو کون ہے تو ماسوا ئے چند کے انہیں معلوم نہیں ۔ وہ اس کی دو صفتیں بتاتے ہیں: 1۔ غریبوں ، بے کسوں کا ساتھی، اور نمبر2 بہادر آدمی ۔
اور یہ دونوں صفات ایسی ہیں کہ دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہیں۔ پھر چے گویرا کا تو لباس اور وضع قطع عام بلوچ کا لگتا ہے ۔ ہلکی سی نوخیز داڑھی ۔ قدرتی سمت اختیار کی ہوئی مونچھیں ، بھرا ہوا جسم اور چہرہ ، گوریلا وردی اور سر پہ سرخ سٹار والی ٹوپی جو کہ جوانی میں سب بلوچ پہنتے رہے ہیں۔ اتنا مہربان چہرہ جس سے ہر انسان اپنی شناخت کرسکتا ہے ۔ جیسے ” وہ میرے لیے جیا“ ۔
اس کی مقبول ترین تصویر ہی ہمارے رکشوں ، پک اپس موٹر سائیکلوں سا ئیکلوں ،اور دلوں میں نقش رہتا ہے ۔ یہ دنیا بھر میں اِس کی مقبول ترین تصویر ہے ۔ یہ تصویر 5 مارچ 1960 میں کھینچی گئی۔ وقت دن کے گیارہ بج کے بیس منٹ۔ یہ جگہ ہے کیوبا کا دارالحکومت ہوانا۔ فوٹو گرافر کا نام ہے البرٹو کورڈا جس نے چی گویرا سے تقریباً 20 فٹ فاصلے سے یہ تصویر لی ہے۔
دنیا کی تاریخ میں یہ سب سے مشہور تصویر ہے۔ پچھلے ساٹھ سالوں میں اس کی لاکھوں نہیں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کاپیاں بنائی اور تقسیم کی جا چکی ہیں۔
اس وقت چی گویرا کیوبا کا وزیر برائے صنعت اور ترقی تھا۔ فیڈرل کاسٹرو کیوبا کا صدر تھا۔ یہ دونوں انتہائی نڈر، بے باک، جنگ جو گوریلے ہونے کے ساتھ ساتھ زندو مرگ کے میدان کی جوڑی، اوربہت پکے دوست تھے۔ دونوں کا دشمن ایک ہی تھا؛ امریکہ اور اس کا سرمایہ دارانہ نظام۔ ان کے مطابق دنیا کا سب سے بڑا ناسور امریکہ اور اس کا نظام تھا جو چھوٹے ملکوں میں جان بوجھ کر جنگیں کرواتا ہے تاکہ اپنی جیبیں بھر سکے۔ امریکہ دنیا کی معیشت پر سانپ بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ کیوبا ایک سوشلسٹ ملک تھا جس نے امریکہ کے سامراج کے خلاف سر اٹھانے کی جسارت کی تھی۔
بہرحال، اسی دوران ایک بڑا واقعہ ہوگیا۔
کیوبا نے بلجیئم سے چھہتر ٹن ہتھیار خریدے جو ہوانا کی بندرگاہ پر اتارے جا رہے تھے۔ کسی نامعلوم تحریک کاری کی وجہ سے دھماکا ہوگیا۔ منوں بارود سے لدا جہاز دھماکے سے پھٹ گیا اور تقریبا سو سے زیادہ سول لوگوں کی جان گئی اور سینکڑوں شدید زخمی ہوئے۔
چے گویرا جو وزیر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر ڈاکٹر بھی تھا خود بھاگ کر بندرگاہ پر پہنچا۔ زخمیوں کو طبی مدد فراہم کی۔ کئی زخمیوں نے چی گویرا کے ہاتھ میں دم توڑا۔
اس دھماکے میں امریکہ کا ہی ہاتھ تھا۔ کیوبا نے قومی سطح پر سوگ منایا۔ حکومتی عہدیداروں نے دارالحکومت کی سڑکوں اور گلیوں پر ماتمی احتجاج کیا۔ چے گویرا نے بھی بڑی پرجوش تقریر کی۔ جس کا لب لباب تھا ‘ اپنے وطنِ عظیم کی سربلندی یا پھر موت’۔ گویرا تقریر کرنے کے بعد بعد سٹیج سے اترا اور فیڈل کاسٹرو سے باتیں کرنے لگا۔شاید امریکا پر حملے کی بات چیت ہو۔ اسی وقت فوٹوگرافر البرٹو کوڈا کیمرہ پکڑے کسی موقع کی تلاش میں تھا۔ چی گویرا پھر سامنے آیا۔ البرٹو کوڈا نے اسی وقت تقریبا 20 فٹ دور سے کیمرے کا بٹن دبا دیا۔
اس تصویر کو غور سے دیکھیے۔ 31 برس کے اس نوجوان کے چہرے پر بہت کچھ دکھائی دے رہا ہے: غم۔۔۔غصہ۔۔۔عزم۔۔۔نفرت۔۔۔محبت۔۔۔اور سب سے زیادہ خلوص۔۔۔
اسکی یہ تصویر دنیا بھر کے انقلابیوں کے لیے آئیکون بن کر آج بھی زندہ ہے۔
بلوچ جیسی تربیت ہوئی اس کی ۔ اُسی کی طرح چے بھی غریب کے لیے ، استحصال شدہ کے لیے اور بیگانہ کردہ کے لیے جیسے ایک سہارا ہو۔
فیڈل کاسٹرو ٹھیک کہتا تھا کہ ”چے کو خراج تحسین پیش کرنے کا مطلب یہ ہے ہم تاریخ کو جواب دِہ ہونے کے انسانی قافلے میں شامل ہورہے ہیں“۔
میر ا تجربہ ہے کہ مجھ سمیت بلوچوں اور دیگر پڑوسی قوموں نے چے گویرا کو سمجھنے میں بڑی غلطی کی ۔ ہم نے اسے محض گوریلا جانا، گوریلا جنگ کا بہادر لڑاکا شخص جانا، اُسے ”کور بہادر“ جانا، اورگوریلا جنگ کا ماہر جانا۔
اور اگر چے صرف یہ تھاتو ان ساری صفات کا سر چشمہ توایک تھا: امن کی اتاہ خواہش۔
جو انسان امن کی تلاش میں اپنی جان ہتھیلی پہ رکھے ”امن دشمنوں “ سے لڑنے کے لیے ایک سے زیادہ ممالک کے جنگی مورچوں میں موجود رہے، وہ کس قدر بڑے سینے اور بڑے دل اور بڑی امنگوں آرزوں کا مالک ہوگا۔ وہ جنگ سے کتنی نفرت کرتا ہوگا۔
اس کا کمال یہ تھا کہ اس نے امن دشمن قوتوں کا ٹھیک ٹھیک پتہ لگایا۔ دنیا کو اُن قوتوں کا چہرہ دکھایا، واقف کرایا، پہچانوایا۔ ایسی خوبصورت حتمی حقیقی تشخیص کہ آج تک کوئی بھی اسے جھٹلا نہ سکا۔
امن کے اس بہت بڑے داعی کو خراجِ تحسین پیش کرنا دراصل پورے انسانی کارواں میں شامل ہو کر اِس کاروان کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے ۔
یہ عجب انسان ہم سے ہزاروں میل دور لاطینی امریکہ سے تعلق رکھتا تھا ، ایک ملک کا وزیر اور سینئر راہنما تھا مگر پھر جس کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہ تھی ۔ وہ اُن بہت کم لوگوں میں سے تھا جو کسی بھی ملک کا شہری نہ ہوتے ہوئے بھی ساری دنیا کا شہری تھا۔
لاطینی امریکہ کے ممالک کی عمومی تاریخ تقریباً ایک جیسی رہی ہے۔ سپین بڑاسامراجی ملک تھا اُن پہ ۔ اس کی طرف سے مسلط کردہ طویل غلامی،اُس کے خلاف جنگِ آزادی اور پھر آزاد شدہ ممالک پر ایک اور سپر پاور کی طرف سے جدید نو آبادیاتی قبضہ…. سب ایک سا رہا ہے۔ اب تو اُس سامراجی ملک کا نام سپین نہیں بلکہ امریکہ ہے۔امریکہ گلوبل سامراج ہے ۔ پورے روئے زمین پہ اُس کی حکمرانی ہے ، اُس کے ٹرانس نیشنل کمپنیوں کی حکمرانی ہے۔
یہ امریکہ بھی سابقہ سپین کی طرح محض ایک فوجی سپر پاور نہیں ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ سپین محض ایک گلی ایک محلے کا بھتہ خور بد معاش تھا۔ جبکہ امریکہ بلا شرکت ، اکیلا پوری دنیا کے اُس معاشی سیاسی نظام کا وڈیرہ ہے جس کا نام کپٹلزم ہے ،مناپلی کپٹلزم ،ٹرانس نیشنل کپٹلزم ،ملٹی نیشنل کپٹلزم ۔یہ نظام ایک بین الاقوامی مشین کے بطور چلتا ہے جہاں کی عمارت کی بنیادوں میں تو ٹام پین جیسا فرشتہ دفن ہے مگر جہاں کی شاخوں پر ایٹم بم اُگے ہوئے ہیں۔
صرف ایٹم بم نہیں بلکہ امریکہ اب تو ہزاروں قسم کی جنگی مصنوعات کا میلوں پھیلاہوا ڈیپارٹمنٹل سٹور ہے۔ پیچیدہ ، اور مہلک جنگی مصنوعات !۔اور یہ محض اُس کی اپنی ضروریات کے لیے نہ تھا ۔ یہ تو بہت ہی منافع بخش صنعت ثابت ہوئی ۔لہذا یہ ایکسپورٹ آئٹم بنا۔ہر طرح کا پیچیدہ ترین اور ہائی ٹیک اسلحہ دیگر ممالک کو برآمد ہونے لگا۔ ہر صنعت کی طرح اِس صنعت کو بھی اپنی پراڈکٹس پوری دنیا میں بیچنی ہیں۔ اس صنعت کے پراڈکٹس تب ہی بکیں گے جب جنگ ہوگی ۔جنگ ہوگی تو اسلحہ کی خریداری ہوگی۔ اوریہ جنگ وقتی بھی نہ ہوبلکہ مسلسل اور مستقل ہو۔ چنانچہ پہاڑ جیسے انبار اسلحہ بنانے والے ان کارخانوں اور اُن کے مالکوں کی بھاری آمدنیوں کے لیے ضروری ہوا کہ مقامی ، ملکی اور بین الاقوامی جنگیں نہ صرف شروع ہوتی رہیں بلکہ پیہم جاری بھی رہیں۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے کسی نہ کسی گوشے میں جنگ ہو رہی ہوگی۔ جنگ جاری رہے گی تو امریکی بھاری اسلحہ ساز انڈسٹری چالو رہے گی اور اُن کے مالکان امریکی صدر کو اقتدار پہ قائم رکھیں گے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اِس جنگی صنعت کو خام مال کی سخت ضرورت ہوتی ہے ۔خام مال خواہ کہیں پڑا ہو اُسے حاصل کرنا ہے۔ خام مال نہ ملے تو جنگی مصنوعات نہ بنیں اور اگر جنگی سازوسامان نہ بنے تو امریکی معیشت کا ایک فیصلہ کن حصہ زمین بوس ہوجائے۔ چنانچہ جس طرح پھیپھڑوں کو ہوا کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح امریکہ کی معیشت کو بالخصوص لاطینی امریکہ کی معدنیات کی ضرورت ہے۔
ویت نامیوں‘افغانوں ، لیبیائیوں‘ شامیوںاور عراقیوں کو مارنے کے لےے گولیاں چاہییں۔ مگر گولیوں کے لیے توکاپر چاہےے۔ اور کاپرامریکہ میں زیادہ نہیں ہے۔امریکہ اپنے کاپر استعمال کا پانچواں حصہ باہر سے خریدتا ہے۔
اسی طرح جہاز ایلومونیم کے بغیر نہیں بنتے، اور ایلومونیم باکسائیٹ کے بغیر پیدا نہیں کی جاسکتی۔ امریکہ کے پاس باکسائڈ ہے ہی نہیں۔
اُس کے پاس میگنیز بھی نہیں ہے۔ اس کے لوہے کا تیسرا حصہ اور میگنیز مکمل طور پر درآمد ہوتی ہے۔
نکّل کی پیداوار میں کیوبا دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے ۔ یہ میزائلوں اور راکٹوں ، ٹینکوں اور میزائلوں کا اہم حصہ ہے ۔ یہ سٹریٹجک دھات ہے ۔ امریکہ کے پاس نکل بھی نہیں ہے، کروم بھی نہیں،جن سے کہ جیٹ انجن بنتے ہیں۔۔۔ اورہم بلوچستانیوں کو خوب پتہ ہے کہ اِن معدنیات کا مالک ہونا کتنا تباہ کن ہوتا ہے !
اِس دیوہیکل ملٹری انڈسٹری کے معاشی معاملا ت کی دیکھ بحال ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کرتے ہیں۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف مشترکہ مقاصد کے لےے بہت قریبی ہم آہنگی سے کام کرتے ہیں۔ وہ دونوں بریٹان ووڈز میں پیدا ہوئے تھے۔ ورلڈ بنک میں امریکہ کے ایک چوتھائی ووٹ ہیں۔آئی ایم ایف میں اس اکیلے امریکہ کے 17فیصد ووٹ ہیں۔ چنانچہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف امریکہ کی بات پہ اِس طرح عمل کرتے ہےں جس طرح کہ بادل کی گرج ، بادل کی چمک کی بات پر کرتی ہے ۔
یہ دونوں ادارے کپٹلزم کے مفاد میں عجیب عجیب اصطلاحات اور فقرے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ جن میں سے ایک ”غریب ممالک کی امداد “ہے۔ ”غریب ممالک کی امداد “کے بینر کے پیچھے بے شمار خنجر چُھپے ہیں۔اور یہ سارے خنجر امریکہ کے ہیں، امریکی نظام کے ہیں۔ وہ امریکہ جو سامراج ہے اور جس نے انسانیت برباد کرکے رکھ دی مگر اس کے باوجود ڈالر پر لکھا ہے:”In God we trust“۔
سرمایہ دار اس قدر خودغرض، اس قدر لالچی ہوتا ہے کہجون1969 میں جب خلا نوردوں نے چاند پر پہلا انسانی قدم رکھا، تواس کامیابی کے باپ، ورنر وان براﺅن نے پریس میں دور خلا میں ایک بڑے خلائی سٹیشن کے بارے میں ایک امریکی منصوبے کا اعلان کیا۔” وہ ایک ایسا مشاہداتی پلیٹ فارم ہوگا جس سے ہم زمین کی ساری دولت کا معائنہ کرسکیں گے، بشمول نا معلوم پٹرول، کاپر اور زنک کے ذخائر کا “۔
ہمارے زیر بحث لاطینی امریکہ میں، اس نئے سپین یعنی امریکہ سے سب سے پہلے کیوبانے اپنی حتمی آزادی (1959 میں) حاصل کی اور سوشلسٹ معیشت اپنا کر اپنے عوام کی خوشی خوشحالی کی راہ پہ چل پڑا ۔ ایسے میں کہ امریکی اثر والی دنیا میں بائیس سوشلسٹ ممالک اور کچھ ناوابستہ ملکوں کو چھوڑ کر ساری دنیا اُس کیوباکا دشمن بنی رہی۔ اس کے خلاف سازشیں، بغاوتیں پھیلائی گئیں، تعویذ گنڈے پروپیگنڈے …….. مگر فیڈل‘اور راول ،اور چے گویرا ڈٹے رہے۔
تیس برس کی تنہا مار کھانے کی وحشت کے بعد کہیں آسمانوں کو رحم آیا اور کیوبا کی تنہائی کو ساتھی میسر آیا۔وینزویلا ۔ نہ صرف وینز ویلا بلکہ لاطینی امریکہ ہی کے آٹھ اور ممالک بھی۔ ہم اِ ن سارے ممالک کے سارے اچھے لوگوں کا ”عشاق کے قافلے“ کی اس جلد میں تذکرہ کریں گے۔
کیوبا، بلکہ لاطینی امریکہ کو اس پندرہ بیس برسوں نے ہلا کر رکھ دیا۔ چونکہ سوویت یونین موجود تھا ا س لیے یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ ساری دنیا کو کیوبا نے لطف آگیں جھٹکے دیے ۔ امریکہ کیوبا کے انقلاب کے خلاف پے در پے قدم اٹھاتا رہا مگر اُس کی حیرت کہ اُس کی ہر جارحیت کا جواب پہلے سے موجود تھا۔ وہ چوری چھپے اقدام کرتا مگر کیوبا اُس کا جواب ببانگ دھل شڑاپ کر کے اس کے منہ پر دے مارتا۔ خجل خوار ہوا امریکہ ۔ اور اس کی یہ خجالت و ذلالت صرف چے گویرا کی موت تک قائم نہ رہی بلکہ اُس کے بعد فیڈل ، راﺅل کے زمانوں تک برقرار ہے ۔ اب تو خیر سارا لاطینی امریکہ ہی کیوبا بن چکا ہے ۔
چے گویرا نے کیوبا میںجب درخت کا تنا مضبوط کیا تو کہیں اور یہ نہال لگانے نکلا اوروہاں بہادرانہ موت کا شکار ہوا۔ کیوبا کا انقلاب چلتا رہا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے